(جس نے عصبیت کی دعوت دی وہ ہم میں سے نہیں (پروفیسر عبدالحمید ڈار

1036

عصبیت کا مفہوم: حضرت واثلہؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عصبیت کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: (عصبیت یہ ہے) کہ تم اپنی قوم کی ظلم پر مدد کرو۔ (ابوداؤد۔ جلد سوم، حدیث نمبر1681)
عصبیت کی سنگینی اور گندگی و غلاظت کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا: ’’لوگ اپنی قوموں پر فخر کرنا چھوڑ دیں کیونکہ وہ جہنم کے کوئلوں میں سے ایک کوئلہ ہی ہے ورنہ وہ اللہ کے نزدیک گوبر کے اُس کیڑے سے زیادہ ذلیل ہوجائیں گے جو اپنی ناک سے بدبو اور گندگی کو دھکیلتا ہے‘‘۔ (ابو داؤد، جلد سوم، حدیث نمبر 1678، راوی ابوہریرہؓ)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو حضرت آدمؑ اور حضرت حوا کے جوڑے سے پیدا کیا۔ اس اعتبار سے وہ سب برابر اور یکساں ہیں۔ ان کے درمیان رنگ، نسل اور علاقے کا فرق ایک قدرتی امر ہے جس کا ان کے درمیان فرق و امتیاز اور پست و بالا کا سبب بن جانا بالکل غیرفطری اور نامعقول تصور ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عرب معاشرہ ان گنت قبائل میں بٹا ہوا تھا اور ہر قبیلہ حسب و نسب کے تفاخر کا پرچم بلند کیے ہوئے تھا۔ فخر و غرور کی اس ہوا نے اُن کے درمیان دائمی نفرت کی دیواریں کھڑی کررکھی تھیں۔ ذرا ذرا سی بات پر ان کی تلواریں نیاموں سے نکل آتیں اور کشت و خون کی ندیاں بہہ جاتیں۔ بعض اوقات تو جنگ و جدل کا یہ بازار سالوں تک گرم رہتا اور سینکڑوں ہزاروں انسان اس کی بھینٹ چڑھ جاتے۔
اسلام امن و سلامتی کا دین ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ عرب کو اسلام کی تعلیمات سے آگاہ کیا اور انہیں قوم اور قبیلہ کی عصبیتی زنجیروں سے نکال کر ایمانی اخوت کی وحدت میں پرو دیا۔
اسلام جس نظام حیات کے قیام کا داعی بن کر آیا تھا یہ قبائلی اور قومی عصبیتیں اس کی کامیابی کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ تھیں۔ اسلام کی قوت کا سرچشمہ اہلِ ایمان کی وحدت اور اخوت تھی جس نے انہیں سیسہ پلائی دیوار بنا دیا تھا اور وہ قلتِ تعداد اور قلتِ وسائل کے باوجود عرب و عجم کے ایک وسیع علاقے کو اسلامی نظام حیات اور اسلامی تہذیب و تمدن کے فیوض و برکات سے بہرہ ور کرنے کے قابل ہوگئے تھے۔ جب مفاد پرست افراد کی حرص و آز نے امتِ مسلمہ کی وحدت کو پارہ پارہ کردیا تو ذلت و زوال اس کا مقدر بن گیا۔ عنانِ حکومت ان سے چھن گئی اور وہ ہر اعتبار سے زبوں حالی اور ادبار کے گرداب میں گر گئے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم عصبیتوں کے زہرِ ہلاہل سے بخوبی آگاہ تھے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبات میں مختلف طریقوں سے اس سے بچنے کی طرف اہلِ ایمان کو متوجہ کرتے رہتے، بالخصوص حجۃ الوداع کے موقع پر فرمائے گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ انسانی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جائیں گے:
’’لوگو! خبردار رہو، تم سب کا خدا ایک ہے۔ کسی عرب کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عرب پر، اور کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ مگر تقویٰ کے اعتبار سے، اللہ کے نزدیک تم میں سب سے عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو‘‘۔ (تفہیم القرآن۔ سورہ الحجرات 13۔بحوالہ بیہقی)
ایک غزوہ سے واپسی پر ایک جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ کیا۔ مہاجرین اور انصار بڑی تعداد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ سوئے اتفاق سے ایک مہاجر اور ایک انصاری کے درمیان پانی پر جھگڑا ہوگیا۔ انصاری نے انصار کو مدد کے لیے آواز دی اور مہاجر نے مہاجرین کو مدد کے لیے پکارا۔ قریب تھا کہ معاملہ بڑھ جاتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کا شور سن کر نکل آئے اور فرمایا ’’یہ جاہلیت کی پکار کیسی؟ تم لوگ کہاں اور یہ جاہلیت کی پکار کہاں؟ اسے چھوڑ دو، یہ بڑی گندی چیز ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن۔ دیباچہ سورہ المنافقون، بحوالہ بخاری، مسلم، احمد، ترمذی و نسائی)
افسوس کہ آج پھر ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو فراموش کرکے مختلف قسم کی عصبیتوں کے جال میں گرفتار ہیں۔ ذات، برادری، قوم، قبیلہ، رنگ، نسل، زبان، علاقہ اور ان کے بطن سے نکلی ہوئی ان گنت عصبیتوں کے عفریت ہمارے رگ و پے میں سرایت کرچکے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے 23 سال کی شبانہ روز محنتِ شاقہ سے امتِ واحدہ کا جو قصر تعمیر کیا تھا، عملاً اس کی اینٹ سے اینٹ بج چکی ہے۔
وطنیت اور فرقہ پرستی نے امتِ مسلمہ کے اتحادکو خوابِ پریشاں بنا کر رکھ دیا ہے۔ اغیار اور کفار اس تقسیم در تقسیم سے فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کو مسلمانوں کے خلاف صف آرا کرکے ان کی رگوں سے زندگی کا آخری قطرہ تک نچوڑ لینے کی سازشوں میں کامیاب ہورہے ہیں۔ عصبیتوں کے ان پجاریوں کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین سے کیا واسطہ؟ جو دینِ محمدی کا ہادم یعنی مٹانے والا ہے اُسے دین کا خادم کیسے کہا جا سکتا ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا کہ اس کی پکار جاہلیت کی پکار ہے، اس کی جنگ جاہلیت کی جنگ ہے اور اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔ اسلام سے ان چیزوں کا کوئی تعلق نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر صاحبِ ایمان کو راہِ ہدایت پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
nn

حصہ