(اہل سندھ ترقی کے منصوبوں سے کیوں خوفزدہ ہیں؟ سندھی تحریر: (نصیر میمن

279

ترجمہ: اسامہ تنولی
feb-10-ot Com-11-D:Fridaysp-
بروز جمعرات 12 جنوری 2017ء کو معروف دانش ور اور کالم نگار نصیر میمن نے اپنے زیرنظر کالم میں کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحہ پر سندھ میں میگا پروجیکٹس کے حوالے سے اہل سندھ کے خدشات اور تحفظات کو دور کرنے کے لیے جو سنجیدہ تجاویز پیش کی ہیں بادی النظر میں وہ صائب بھی ہیں اور قابل عمل بھی وفاقی اور صوبائی حکومت (سندھ) کے ذمہ داران کے لیے یہ تحریر اور اس میں پیش کردہ آراء اور تجاویز غوروفکر کی متقاضی ہیں تا کہ ان پر عمل پیرا ہو کر اہل سندھ کے اندیشہ ہائے دور دراز کا خاتمہ ممکن بنایا جا سکے۔
گزشتہ مضمون میں ہم نے اس حوالے سے بحث کی تھجی کہ اہل سندھ ماضی کے کن تجربات کی بنا پر بڑی ترقیاتی اسکیموں کے متعلق خدشات کا شکار ہیں۔ اس مضمون میں ہم نے دبئی اور ملائشیا کے ان ترقیاتی ماڈلز کا ذکر بھی کیا تھا، جن میں ترقی کے جدید تقاضوں کے ساتھ ساتھ وہاں کے اصل باشندوں کے حقوق کا بھی آئینی اور عملی طورپر تحفظ کیا گیا ہے۔ اکیسویں صدی کے اس مرحلہ پر سندھ کا کوئی بھی صاحب شعور فرد بڑی ترقیاتی اسکیموں کی بلاجواز مخالفت کرنا پسند نہیں کرے گا۔ ایک طرف جہاں پنجاب اور کے پی کے میں جدید انفراسٹرکچر اور سماجی خدمات کا جال بچھایا جا رہا ہے وہاں اہل سندھ بھی ترقی کی اس دوڑ میں دیگر صوبوں سے پیچھے رہنا گوارا نہیں کریں گے۔ البتہ ماضی کے تجربات کی روشنی میں ایک حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ محض ترقی کے خوش نما نعرہ کے نام پر سندھیوں کا رومال چرانے کا میلہ اب نہیں سجنا چاہیے۔ میری نظر میں اہل سندھ کو نئے میگا ترقیاتی پراجیکٹس کے بارے میں مندرجہ ذیل خدشات لاحق ہیں۔ جن کے چند حل یہاں پیش کیے جاتے ہیں۔ سندھ اور وفاقی سرکار انہیں پیش نظر رکھتے ہوئے یا اس طرح کے دیگر حل پیش کرکے اہل سندھ کو ترقی کے مرکزی دھارے میں شامل کر سکتی ہے۔
سندھ میں آئندہ کے نئے ترقیاتی منصوبوں میں اہم پیکج پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ (تھر میں کوئلہ کی دریافت، بجلی گھروں کا جال، کیٹی بندر پورٹ، نئےء کاروباروی زون وغیرہ) سے منسلک ہے۔ نیز ذوالفقار آباد کا نیا شہر تعمیر کرنا اور کراچی کی میگا رہائشی منصوبہ جات بحریہ ٹاؤن، ڈی ایچ اے وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں۔ ان تمام منصوبوں کے جو ضمنی اثرات سامنے آئیں گے وہ ترقی کے عمل کے روایتی معاملات ہیں اور ان امور کو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہتر کیا جا سکتا ہے۔ لیکن سندھیوں کے لیے سب سے اہم مسئلہ غیرمقامی آبادی کی (سندھ پر) یلغار اور سرزمین سندھ اور یہاں کے املاک کے حقوق ملکیت کو غیرمقامی لوگوں کے حوالے کیے جانے کا ہے۔ جو دوست سندھ میں دبئی جیسی ترقی کے خواہاں ہیں انہیں ضرور علم ہو گا کہ 85 فیصد غیرمقامی افرا دکی آبادی کا حامل ہونے کے باوصف حکومت دبئی نے حد درجہ سختی کے ساتھ غیرملکیوں ں کو سیاسی اور معاشی حقوق سے محروم کر رکھا ہے۔ اہل سندھ گزشتہ ایک عرصہ سے اپنی ہی دھرتی پر عددی اعتبار سے اقلیت میں تبدیل ہو جانے کے خدشہ سے دوچار ہیں۔ 1988ء میں سندھی اپنے ہی صوبہ میں بہ مشکل 60 فیصد تھے۔ اتنے بڑے نئے شہروں کی تعمیر اور جدید ترقیاتی اسکیموں کے آنے سے یقینی طور پر بیرون علاقہ کے افراد کی ایک معتدبہ تعداد سندھ کا رخ کرے گی۔ تھر جہاں کوئلہ کے وسیع ترین ذخائر پائے جاتے ہیں وہاں ابھی سے ہی کالا دھن رکھنے والے غیر مقامی افرادنے زمینیں خریدنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ ذوالفقار آباد جیسے دبئی کا منظر پیش کرنے والے شہر جب تعمیر ہوں گے تو یہاں اربوں میں روپے بکنے والی جائیدادیں کتنے مقامی افراد خرید سکیں گے۔ جس قوم کی ایک قابل ذکر تعداد ہمہ جہت غربت کی زندگی بسر کرتی ہو (دیکھیے یو این ڈی پی کی ہمہ جہت غربت کے بارے میں حالیہ رپورٹ) ایسی صورت حال میں مقامی آباد کے حقوق اور دھرتی کی مالکی (حق ملکیت) کے لیے سندھ سرکار کو وفاق سے صوبہ کے لیے خصوصی قانون سازی کے حوالے سے اسے قائل کرنا چاہیے۔ دیگر صوبوں کے مقابلہ میں سندھ کی صورت حال اس لیے مختلف ہے کہ صوبہ کے اصل باشندے اقلیت میں تبدیل ہو جانے کے خطرہ سے دوچار ہیں۔ یہ کوئی انہونی پر مبنی مطالبہ نہیں ہو گا۔ اس بارے میں ایک حوالہ سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے بلوچوں کو گوادر سے متعلق دی جانے والی ایسی یقین دہانی ہے۔ خان آف قلات آغا سلیمان داؤد کی طرف سے ان کے گھر پر قبائلی معززین کے منعقدہ ایک اجلاس سے دورانِ خطاب مشرف نے کہا تھا: ’’وہ گوادر میں زمین کی حق ملکیت کے متعلق قانون سازی کرنے کے حق میں ہیں‘‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’اگر چہ دیگر صوبوں کے افراد گوادر میں آسکتے ہیں لیکن وہ مقامی افراد کو بے دخل نہیں کر سکیں گے۔ اسی طرح 10 جنوری 2017ء کو بلوچستان کی صبوائی کابینہ کے اجلاس میں یہ فیصلہکیا گیا کہ ’’گوادر کے مقامی باشندوں کے سیاسی، معاشی اور سماجی حقوق کے تحفظ کے لیے ضروری قانون سازی کی جائے۔ صوبائی وزیراعلیٰ ثنا اللہ زہری کی زیرصدارت منعقدہ اس اجلاس میں ایک کمیٹی قائم کی گئی جو آئینی اور قانونی ماہرین سے مشورہ کر کے اس بارے میں مطلوبہ قانون سازی کے لیے اپنی سفارشات پیش کرے گی۔ اس کمیٹی سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ سنگاپور، ہانگ کانگ اور دبئی سمیت دیگر ممالک کے ماڈل کا مطالعہ بھی کرے۔ اگر بلوچستان کی صوبائی حکومت ایسے اقدامات کر سکتی ہے تو پھر سندھ حکومت اس طرح کے اقدامات کیوں نہیں اٹھا سکتی؟ اس حوالے سے مخالف، حوالہ جات آئین کے آرٹیکل 15 اور 23 کے دیے جاتے ہیں جن میں ملک کے اندر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے، رہنے اور جائیداد خریدنے کا حق دیا گیا ہے۔ البتہ آئین کی ان دونوں شقوں میں دی گئی ایک شرط کا حوالہ جان بوجھ کر نہیں دیا گیا۔ دونوں شقوں میں دیا گیا یہ جملہ دھیان سے پڑھنے کی ضرورت ہے۔ Subject the constitution and reasonable restrictions imposed by law in the public interrest.
بہ الفاظ دیگر: یہ حق عوامی مفادات کے لیے کسی بھی قانون کے تحت عائد ہونے والی معقول پابندیوں (یا بندشوں) سے مشروط ہے۔ سندھ سرکار صوبہ کے اندر بڑھتی ہوئی بیرونی افراد کی آبادی کے دباؤ اور مقامی آبادی کے خدشات کو بنیاد بنا کر ان دونوں حقوق کو آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے مشروط کر سکتی ہے۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ دیگر صوبوں سے لوگوں کی آمد کو کسی رجسٹریشن اور ورک پرمٹ سے مشروط کیا جائے۔ اسی طرح سندھ کے اندر کسی بھی غیر مقامی فرد کے لیے زمین کی منتقلی پر بندش عائد کی جائے۔ البتہ کسی صنعتی یا کاروباری مقصد کے لیے ضروری ہو کہ 30 برس کی لیز پر یہ زمین مخصوص شرائط کے تحت دی جائے۔ اس سے ترقی کا عمل بھی نہیں رکے گا اور مقامی آبادی کی زمین نہ صرف ان کی ملکیت رہے گی بلکہ انہیں لیز یا کرایہ کی مد میں آمدنی بھی ہو گی۔ دیگر صوبوں سے آنے والی آبادی کو محدود کرنے کا ایک طریقہ خصوصی ورک پرمٹ کا ہو سکتا ہے۔ اسے مزید مضبوط بنانے کے لیے صوبہ میں نجی شعبہ کے سرمایہ کاروں کو ملازمتوں میں مقامی آبادی کو اولیت دینے کے لیے پالیسی تشکیل دی جائے یا پھر ضروری قانون سازی کی جائے۔ سندھ کے مخصوص حالات کو بنیاد بنا کر ایسی پالیسی بنائی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے مندرجہ ذیل نکات تجویز کیے جاتے ہیں۔
(1) ہنر مند یا نیم ہنر مند امور (کاموں) یعنی مزدوری، ڈرائیوری، بیراگیری وغیرہ کی تمام تر ملازمتوں اسی ضلع کے افرادکو دی جائیں۔ جہاں پر ترقیاتی منصوبہ جاری اور زیر عمل ہو۔ (2) ہنرمند ملازمتیں (انجینئر، ماہر امور کمپیوٹر اور مشین وغیرہ کے ماہرین) اگر اس ضلع میں نہ ہوں تو صوبہ کے دیگر اضلاع کو اہلیت کی بنیاد پر اولیت دی جائے کوئی ایسا ہنر، جوصوبہ کے اندر موجود ہی نہ ہو تو پھر بے شک ایسی نوکری بیرون صوبہ یا ملک کے باشندوں کو پیشکش کی جائے۔ (3) صوبائی حکومت ان منصوبوں کے روبہ عمل ہونے کے مختلف مراحل کے دوران پید اہونے والی ملازمتوں کے مختلف مواقع کی فہرست بنائے تا کہ آئندہ آنے والے برسوں میں مطلوبہ ہنر/ مہارت کا تعین کیا جا سکے۔ صوبائی حکومت ان مطلوبہ ہنروں/ مہارتوں کے لیے مقامی آبادی کو تیار کرنے کے لیے بلا تاخیر راستہ ہموار کرے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے سندھ کے مختلف اضلاع میں نجی شعبہ کی مدد سے ہنر سکھانے کے ادارے قائم کر کے ہنگامی بنیادوں پر مقامی آبادی کو مطلوبہ ہنری تربیت اور تعلیم فراہم کرے تا کہ ملازمتوں کے مواقع پر مقامی آبادی کو ترجیح مل سکے۔ اس سے نہ صرف مقامی آبادی کو روزگار کا موقع حاصل ہو گا بلکہ غیر مقامی آبادی کی آمد بھی کم سے کم ممکن ہو سکے گی۔
ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ ساتھ نئے کاروباروں کے لیے بے شمار دروازے وا ہوں گے۔ ان کاروباروں میں اولیت کی بنیاد پر فوائد حاصل کرنے کے لیے مہارتوں اور قانونی ضمانتوں کے ساتھ سرمایہ کاری کی ضرورت بھی پڑے گی۔ مقامی متوسط طبقہ کے پاس سرمایہ کی کمی کے باعث اندیشہ ہے کہ یہ سرمایہ کاری بیرون صوبہ سے آنے والے افراد کریں گے۔ سندھ سرکار کو چاہیے کہ سندھ بینک کی طرف سے بلاسود یا رعایتی شرح سودپر مقامی افراد کو خصوصی قرض فراہم کرے۔ اس مقصد کے لیے سیاسی مداخلت کے بجائے بینک کے مطلوبہ تقاضوں کو پورا کرنے کی ہدایت کی جائے تا کہ یہ سرمایہ صحیح مقصد کے لیے ہی استعمال ہو سکے اور غلط ہاتھوں میں نہ جائے۔ اگر سندھ بینک ہر سال 150 ارب روپے بھی اس مقصد کے لیے وقف کرے تو نہ صرف سود کی رقم سے بینک کو مالی استحکام ملے گا بلکہ اہل سندھ سرکاری ملازمتوں کے لیے اپنے مال مویشی فروخت کرنے کے بجائے باعزت روزگار کے لیے سرمایہ کاری بھی کر سکیں گے۔ ویسے بھی اس دور میں جو قوم کاروباری اور واپاری معیشت کا حصہ نہیں اس کے لیے ترقی میں حصہ حاصل کرنا ناممکن ہے۔
جدید بڑے ترقیاتی منصوبے اپنی معیشت میں ایک اہم مسئلہ بھی لایا کرتے ہیں۔ وہ ہے مقامی آبادیوں کا اپنے ہی علاقوں سے بے دخل ہونا، نیز انہیں ان کی گزراوقات کے وسائل سے محروم کیا جانا۔ دنیا میں شاید ہی کوئی بڑی ترقیاتی اسکیم ہو گی جس کی وجہ سے مقامی افراد کی بے دخلی عمل میں نہ آئی ہو اور ان کے وسائل متاثر نہ ہوئے ہوں۔ مہذب اور ترقی یافتہ دنیا میں اس مقصد کے حصول کے لیے مقامی آبادی سے بذریعہ بات چیت ان کی بحالی کے لیے پروگرامات تشکیل دیے جاتے ہیں۔ جن میں انہیں متبادل بستیاں اور وسائل بہم پہنچائے جاتے ہیں۔ ترقی کے عمل سے متاثرہ افراد کی بحالی کے لیے ایسے منصوبہ جات مقامی سطح پر تیار کیے جاتے ہیں۔ جو مقامی حالات سے بھی مطابقت رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے اربوں ڈالرز کے ترقیاتی منصوبوں میں اس مقصد کے لیے چند ملین ڈالرز کو بچانے کی خاطر حکومت اور نجی کمپنیاں اس حوالے سے بے توجہی اور اغماض کا رویہ اپناتی ہیں۔ مقامی آبادی کو اس حق سے محروم کرنے کے لیے ان کی املاک اور وسائل پر حق ملکیت (سے دستبرداری) کے دستاویز سے اسے مشروط کر دیا جاتا ہے جس سے روایتی سماجی ڈھانچہ کے زیرسایہ زندگی بسر کرنے والے ہزاروں افراد معاوضہ اور بحالی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ جب یہ افراد اپنیجائز انسانی حقوق کی بحالی کے لیے کوئی احتجاج کرتے ہیں تو انہیں ترقی کا دشمن اور مفاد پرستوں کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے۔ اس وقت بھی تھر میں گوڑانوتلاء (تالاب) کے مسئلہ پر سندھ سرکار کے ایسے ہی رویہ کے سبب ہزاروں افراد کی گزراوقات کا ذریعہ داؤ پرلگا ہوا ہے۔ اس وقت جب پاک۔چائنا اقتصادی راہداری اور ذوالفقار آباد جیسے بڑے ترقیاتی منصوبے ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہیں تو حکومت کو چاہیے کہ قانونی ماہرین/ فنی ماہرین/ ٹیکنوکریٹس، سول سوسائٹی اور منتخب نمائندوں پر مبنی ایک اسٹیئرنگ کمیٹی قائم کر کے سندھ میں آئندہ دہائیوں کے تمام ترقیاتی منصوبوں کے لیے ایک جامع ماسٹر پلان تیار کروائے۔ یہ کمیٹی حسب ذیل معاملات پر سرکار کو پالیسیاں بنانے اور قانون سازی کرنے کی غرض سے رہنما اصولوں پر مبنی پیکج تیار کر کے دے۔
1۔ غیر مقامی آبادی کی آمدکے حوالے سے شرائط و ضوابط کی تشکیل۔
2۔ زمینوں اور جائیدادوں کی خریداری کے بارے میں پالیسی بنانا۔
3۔ ملازمتوں اور کاروباروں میں مقامی افراد کو اولیت دینے کے لیے پالیسی تیار کرنا۔
4۔ صوبہ میں انسانی وسائل کیت یاری کے لیے منصوبہ بندی کرنا۔
5۔ بے دخل یا وسائل سے محروم ہونے والی آبادیوں کی بحالی کے لیے منصوبہ بندی کرنا۔
6۔ سرمایہ کاروں کے لیے ضابطہ تیار کرنا۔
7۔ مندرجہ بالا تمام پالیسیوں پر عمل درآمد کرانے کے لیے مانیٹرنگ کا سلسلہ تشکیل دینا۔
اگر حکومت واقعتا یہ چاہتی ہے کہ مقامی لوگوں کو ترقی کی آئندہ آنے والی لہر سے درست طور پر ثمرات حاصل ہو سکیں تو اسے محض خالی خولی اعلان کرنے کے بجائے اس نوع کا جامع لائحہ عمل ترتیب دینا چاہیے۔ ترقی کے عمل کو مقامی آبادی کے حقوق اور ان کے بہتر مستقبل سے وابستہ یا منسلک کرنے کے لیے اس مرحلہ پراس منصوبہ بندی کی ہنگامی بنیادوں پر ضرورت ہے۔ اس نوع کے اقدامات کرنے سے نہ صرف مقامی افراد ترقیاتی عمل کی مخالفت نہیں کریں گے بلکہ اسے کشادہ دلی کے ساتھ خوش آمدید بھی کہیں گے۔

حصہ