(حکومت پاکستان کو طے شدہ کشمیر پالیسی پر عمل کرنا چاہئیے(میاں منیر احمد

165

فرائیڈے اسپیشل: آپ ایک کشمیری رہنما کی اہلیہ ہیں اور خود ایک تنظیم کی چیئرپرسن ہیں، یہ فرمائیں کہ کشمیر کا مقدمہ آپ کی نظر میں کیا ہے اور اسے کیسے حل ہونا چاہیے؟
مشعال ملک: بہت شکریہ آپ نے اظہارِ خیال کا موقع دیا۔ کشمیر کا مقدمہ بہت ہی سادہ سا ہے، اس میں کوئی ٹیڑھ پن نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں جن میں وعدہ کیا گیا کہ کشمیری قوم کو آزادانہ رائے شماری کے ذریعے یہ حق دیا جائے گا کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں۔ کشمیر میں اس وقت تحریکِ مزاحمت جاری ہے۔ بھارتی فوج کشمیر کے ہر گلی، کوچے اور بازاروں میں طاقت کے زور پر کشمیریوں کی اس تحریک کو کچلنے کی کوشش کررہی ہے لیکن اسے کامیابی نہیں مل رہی۔ ہر روز وہاں کا نوجوان برہان مظفر وانی بن کر اپنا سینہ کھول کر بھارتی فوج کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور شہادتوں کا یہ سفر پورے جذبے کے ساتھ جاری ہے، اس میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ بھارتی فوج اور ریاستی طاقت دونوں مل کر کشمیری عوام اور کشمیری قیادت کو جذبۂ حریت ختم کرنے پر مجبور کررہے ہیں لیکن یہ جذبہ بڑھتا چلا جارہا ہے۔ آپ نے پوچھا کہ اس کا حل کیا ہے؟ میں سمجھتی ہوں کہ اس کا حل یہ ہے کہ کشمیر کی تحریکِ آزادی کی قیادت کشمیریوں کے حوالے کی جائے اور پاکستان میں کشمیر پالیسی حادثاتی بنیاد کے بجائے ریاست کی پالیسی کے طور پر آگے بڑھائی جائے۔ اب تک یہی ہوتا آیا ہے کہ جب بھی کوئی بڑا حادثہ ہوتا ہے کشمیر کی آزادی کی تحریک میں ایک نیا دم آجاتا ہے لیکن اسے دھیرے دھیرے کم کرنے کی کوشش بھی ساتھ ساتھ ہوتی رہتی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آج کشمیر کے حالات کیا ہیں اور کشمیری قوم پاکستان سے کس طرح کی توقعات باندھے ہوئے ہے؟
مشعال ملک:: کشمیر میں آج حالات بہت ہی خراب ہیں، ظلم کا بازار گرم ہے، فوج چن چن کر مار رہی ہے، حریت قیادت قید میں ہے، نظربند ہے، انہیں علاج کی سہولت بھی میسر نہیں ہے، ان پر ہر طرح کی پابندیاں ہیں، وہ لوگوں سے مل نہیں سکتے، اظہارِ رائے پر پابندی ہے اور جمہوری عمل سے انہیں دور رکھا گیا ہے۔ ہر بچہ، نوجوان اور بوڑھا بھارتی فوج کی بندوق کے نشانے پر رہتا ہے۔ ہمیں اپنا مقدمہ دنیا کے سامنے رکھنا ہے اور خواتین کی عصمت دری، پیلٹ گن کے استعمال اور بچوں کی شہادتوں کے واقعات کو عالمی برادری کو اہمیت دینا ہوگی۔ ہمیں بتانا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیراعظم مودی دونوں اس خطہ میں انتشار پھیلا رہے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کا واحد حل اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد ہے۔ پاکستان کا میڈیا اور سوسائٹی کشمیریوں کی حمایت کررہے ہیں اور کشمیری ثقافت کو پروان چڑھا رہے ہیں، تاہم لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی جارحیت اور بلا اشتعال فائرنگ عالمی برادری کی توجہ چاہتی ہے جس میں میڈیا اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ بھارتی فوج کی فائرنگ سے اسکول بس تباہ ہوئی، بچے زخمی ہوئے، گھروں کو مسلسل نقصان پہنچایا جارہا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: عالمی برادری اسے انتہا پسندی کا نام دے رہی ہے، اس پر آپ کی رائے کیا ہے؟
مشعال ملک: بھارت کی تنظیم شیوسینا اور آر ایس ایس کھل کر دہشت گردی کررہی ہیں اور انتہا پسندی کا کھلا مظاہرہ کرتی ہیں۔ دنیا میں ان سے بڑی کوئی دہشت گرد تنظیم نہیں ہوگی۔ میں ذاتی طور پر اس تجربے سے گزری ہوں۔ ان لوگوں نے مجھے اور میری بیٹی کو نہیں چھوڑا اور ہمیں تشدد اور اذیت کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ بھارتی تنظیم آر ایس ایس دہشت گرد تنظیم ہے اور شیوسینا اس سے بھی بڑی ہے، جبکہ عالمی برادری پاکستان پر دباؤ بڑھا رہی ہے کہ دہشت گردی کو کنٹرول کیا جائے۔
فرائیڈے اسپیشل: ابھی حال ہی میں حافظ محمد سعید کو نظربند کیا گیا ہے، اس بارے میں کیا کہیں گی؟
مشعال ملک:: مجھے تو اس فیصلے کی سمجھ نہیں آئی۔ اگر یہ فیصلہ حکومت نے خود نہیں کیا، بیرونی دباؤ میں کیا ہے تو پھر یہ کہوں گی کہ حافظ محمد سعید کو نظربندکرنا غلط ہے، بیرونی دباؤ میں یہ فیصلہ اچھا نہیں ہے اور اس کے اثرات بھی اچھے نہیں ہوں گے۔ دیکھیں دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں جس کی پالیسی نہ ہو۔ ہر ملک کی اپنی پالیسی ہوتی ہے۔ پاکستان کو بھی اپنی خارجہ پالیسی پر عمل کرنا چاہیے۔ کسی دباؤ میں آکر اپنی خارجہ پالیسی نہیں بدلنی چاہیے بلکہ کھل کر قومی مفاد کی بات کرنی چاہیے اور اپنی طے شدہ کشمیر پالیسی پر عمل کرنا چاہیے۔
فرائیڈے اسپیشل: پاکستان کو عالمی برادری کی جانب سے بھی دباؤ کا سامنا ہے۔ اس صورت حال میں کس طرح کشمیر کاز کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے؟
مشعال ملک: اس وقت عالمی برادری دہرے معیار کا شکار ہے۔ کبھی وہ نیلسن منڈیلا کو دہشت گرد کہتی تھی اور اب مجاہدین کو بھی دہشت گرد کہا جارہا ہے، جب کہ کشمیری تو صرف اور صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل چاہتے ہیں اور ان کی روشنی میں بات کررہے ہیں اور سیاسی حق مانگ رہے ہیں، اور وہ حریت کی تحریک کے ذریعے بھارت سے آزادی چاہتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: اور جو عالمی برادری کا لیبل ہے کہ دہشت گردی ہے؟
مشعال ملک: نہیں، حریت پسند کبھی دہشت گرد نہیں ہوتا۔ امریکہ نے انہیں یہ نام نائن الیون کے بعد دیا ہے۔ بھارت اور امریکہ اپنے مفاد کی بات کرتے ہیں اور پاکستان کو بھی اپنے مفاد کی بات کرنی چاہیے۔
فرائیڈے اسپیشل: اس خطہ میں بہت سی تبدیلیاں آرہی ہیں جن کے اثرات براہِ راست کشمیر کاز پر بھی پڑتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ان میں سی پیک کا منصوبہ بہت اہم سمجھا جارہا ہے۔ اس بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟
مشعال ملک: بلاشبہ سی پیک کا منصوبہ ایک بڑا منصوبہ ہے جو معاشی پیکیج لے کر آیا ہے، اور اُس نے اس خطہ کی تین ارب کی آبادی کے معاشی مسائل کے حل کی بات کی ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ سی پیک اہم منصوبہ ہے، اس پر عملدرآمد سے خطہ میں حالات تبدیل ہوجائیں گے، اور پاکستان کو بھی ان بدلتے ہوئے حالات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ استحکام کے لیے ترقی کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
فرائیڈے اسپیشل: بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بھی بہتر بنانا ہوں گے؟
مشعال ملک:ہم بھی چاہتے ہیں کہ تعلقات بہتر ہوں، مگر دیکھنا ہے کہ یہ کس قیمت پر ہوں گے؟ یہ کام کشمیر کی قیمت پر نہیں ہونا چاہیے۔
فرائیڈے اسپیشل: بھارتی لیڈرشپ کہتی ہے کہ کلچر کی مار دی جائے۔ اور اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے کلچر کی مار دے کر پاکستان میں جذبہ ٹھنڈا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
مشعال ملک:بھارتی کوشش کے جواب میں کشمیری ثقافت اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ میں خود بھی اس کے لیے کام کررہی ہوں اور خواتین کی ایک تحریک اور تنظیم بنانا چاہتی ہوں جو اس حوالے سے بہت کام کرے گی۔
فرائیڈے اسپیشل: پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کا تنازع بھی بڑھ رہا ہے، بھارت پاکستان کو واٹر دباؤ میں رکھنا چاہتا ہے؟
مشعال ملک: نہیں، پانی کے معاملے میں بھارت اپنا مقدمہ ہار چکا ہے، وہ صرف عوام کو کنفیوژ کررہا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: نوازشریف حکومت سے آپ کی توقعات کیا ہیں؟
مشعال ملک: حکومت کشمیر کی آزادی کے لیے سنجیدہ ہے، وزیراعظم نوازشریف خود بھی کشمیری ہیں، انہوں نے اقوام متحدہ میں بہت اچھی تقریر کی، اب ہمیں بیرونِ ملک اپنے سفارت خانوں کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت جان بوجھ کر کشمیر کا مسئلہ وہاں کے پنڈتوں کے ذریعے عالمی برادری کے سامنے رکھتا ہے، ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی حریت قیادت کو کشمیر کا مسئلہ عالمی برادری کے سامنے رکھنے کے لیے آگے کریں۔ حریت قیادت تو پوری طرح متحد ہے اور اس میں کوئی اختلافات نہیں ہے، لہٰذا پاکستان میں ایک متحد سوچ پیدا ہونی چاہیے۔
nn

حصہ