(فسانہ رزق حڑام اور بانو قدسیہ (ڈاکٹرطاہر مسعود

259

 سن اسّی کی دہائی میں اپنی انٹرویو کی کتاب کو اور دلچسپ اور متنوع بنانے اور مزید ادیبوں سے ملاقات اور ان سے بات چیت کو محفوظ کرنے کے لیے لاہور جانا ہوا تھا۔ وہاں پہنچ کر سب سے پہلے اشفاق احمد کو فون کیا۔ تب وہ اردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹر تھے۔ ان کی کہانیوں اور ٹیلی وژن ڈراموں نے یوں سمجھیے کہ مجھے پہلے ہی مجروح کررکھا تھا۔ ٹیلی وژن ایوارڈ کی کسی تقریب میں انہیں اور آپا بانو قدسیہ کو بھی ساتھ ساتھ دیکھا تھا۔ بانو آپا ٹھیٹھ دیہاتی عورتوں کا تاثر دیتی تھیں۔ اپنے کپڑوں سے، چہرے مہرے سے، بات چیت سے ادیبہ تو کہیں سے لگتی ہی نہ تھیں۔ ذہن میں خیال کچھ ایسا تھا کہ اشفاق صاحب سے انٹرویو کے بعد بانو قدسیہ سے ملوں گا کہ ان کا ناول ’’راجہ گدھ‘‘ پڑھ کر اس پر ایک مضمون بھی لکھا تھا۔ مضمون کا پہلا فقرہ غالباً یہ تھا:
’’راجہ گدھ‘‘ اردو کا پہلا اسلامی ناول ہے۔
یہ بات کیوں لکھی تھی؟ اسے چھوڑیے، لیکن اتنا بتادینے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ’’راجہ گدھ‘‘ کے مطالعے نے کئی دن تک شدید ڈپریشن میں مبتلا کیے رکھا۔ ناول ختم کرکے حالتِ اضطراب میں گھر سے نکل کھڑا ہوا تھا۔ بازاروں میں، پارکوں میں، بھیڑ بھڑکے میں گھومتا پھرا تھا۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کہاں جاؤں، کس سے جاکر ملوں اور بتاؤں مجھے کچھ ہوگیا ہے۔ شدید اداسی سی مسلط ہوگئی ہے، اس کا مداوا کیسے کروں، سمجھ میں نہیں آرہا۔ تو یوں بہ مشکل اس کیفیت سے نکلا۔ ایسی کیفیت تو اشفاق احمد کی کہانیوں کی کتاب ’’ایک محبت سو افسانے‘‘ جو مجھے بہت محبوب ہے، پڑھ کر بھی نہ ہوئی تھی۔ خیر، اشفاق احمد کو فون کیا، حرفِ مدعا بیان کیا تو انہوں نے اسی وقت ملاقات کا وقت عنایت کردیا۔
سائنس بورڈ کے دفتر میں اشفاق صاحب سے بہت دلچسپ اور یادگار ملاقات رہی۔ ان کا انٹرویو جو ’’یہ صورت گر‘‘ میں شامل ہے، چند اچھے انٹرویو میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ جب گفتگو مکمل ہوئی تو میں نے اُن سے بانو آپا سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اشفاق صاحب نے کسی توقف کے بغیر اُسی وقت فون ملایا، بانو آپا کو میری آمد سے مطلع کیا اور پھر اپنی ہی گاڑی پر گھر بھجوانے کا اہتمام بھی کردیا۔
گھر پہ نوکر نے مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ تھوڑی ہی دیر بعد بانو آپا سادگی سے آکے بیٹھ گئیں۔ انٹرویو شروع ہوا تو میں نے اپنی گفتگو زیادہ تر ’’راجہ گدھ‘‘ ہی پر مرکوز رکھی۔ ’’راجہ گدھ‘‘ پر میں نے جو مضمون لکھا تھا، وہ ’جسارت‘کے ادبی صفحے پر شائع ہوا تھا۔ اس مضمون میں اپنے ایک شک و شبہ کا اظہارکیے بغیر میں نہ رہ سکا تھا۔ وہ شک یہ تھاکہ ناول کا فلسفیانہ نقطۂ نظر بانو قدسیہ کا نہیں، اشفاق احمد کا ہے۔ اس کا ایک کردار جو پروفیسر ہے اور مغرب کا کڑا نقاد ہے، اس کی بابت بھی یہ لکھا تھا کہ یہ اصل میں خود اشفاق احمد ہیں، اور یہ ثابت کرنے کے لیے اس کردار کے مغرب اور مغربی علوم کے خلاف دلائل اور مختلف تقریبات میں اشفاق احمد اسی موضوع پر جو کچھ اظہارِ خیال کرتے رہے تھے اور اخبارات و رسائل میں رپورٹ بھی ہوچکے تھے، ان دونوں نقطہ ہائے نظر کے اقتباسات نقل کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ پروفیسر سہیل اور اشفاق احمد اصل میں ایک ہی وجود کے دو نام ہیں۔ ایک نام اصلی اور دوسرا فرضی ہے۔ ایک جیتا جاگتا وجود، دوسرا افسانوی کردار۔ کچھ اس قسم کی الٹی سیدھی تنقید لکھ کر دانش وری بگھار کر میں خوش تھا کہ ایک معرکہ سر کرلیا۔ ظاہر ہے اس تنقید سے بانو قدسیہ کا توکیا بگڑنا تھا، ہاں میرے اندر کا نقاد جو کچھ ایسا بڑا اور توانا بھی نہ تھا، مگر اس نقاد کی انا کو تسکین مل گئی تھی۔ اس سہ پہر جب میں بانو قدسیہ سے مل کر باہر نکلا تو کچھ نادم سا تھا۔ جو احساس قلب و ذہن پر طاری تھا، وہ یہی تھا کہ اشفاق احمد جتنے بڑے ادیب ہوں، بانو قدسیہ ان سے کسی طرح کم نہیں۔ یہ الگ بات کہ بانو قدسیہ نے ایک سوال کے جواب میں نہایت آسانی سے اعتراف کیا تھا کہ اگر میری شادی اشفاق احمد سے نہ ہوتی تو میں بھی ایسی ہی لکھنے والی ہوتی جیسی خواتین ڈائجسٹ کی لکھنے والیاں ہوتی ہیں، مجھے صحیح معنوں میں ادیبہ اشفاق احمد کی صحبت اور تربیت نے بنایا ہے، انہوں نے مجھے بتایا اور سمجھایا ہے کہ چیزوں کے ظاہر پہ، سطح پہ نہ جاؤ‘ گہرائی میں اترو۔ حقیقت اوپر سے کچھ اور اندر سے کچھ اور ہوتی ہے۔ نیا غواصی کیے تہہ سے نہ کچھ نکلتا ہے اور نہ کچھ نکالا جاسکتا ہے۔
بات معقول تھی۔ تو جو کچھ میں نے لکھا، جو قیاس آرائی کی تھی، وہ بھی کچھ ایسی غلط نہ تھی۔ کہتے ہیں شاگرد کے قد میں، اُس کے علم میں استاد کا قد، استاد کا علم شامل ہوتا ہے۔ تو بانو قدسیہ کے استاد اگر ان کے میاں، ان کے مربی(Mentor) اور گرو اشفاق احمد تھے تو ان کی تخلیقات کے پس پردہ جو سوچ اور فکر پوشیدہ رہی، ان سے اشفاق احمد کو کیسے علیحدہ کرنا ممکن تھا؟
مجھے اعتراف ہے کہ میں نے بانو قدسیہ کو اچھی طرح نہیں پڑھا۔ میرے حواس پر قرۃ العین حیدر ابتدا سے ایسی چھائی رہی ہیں کہ کسی اور ادیبہ کو پڑھنے کا کبھی دل ہی نہیں چاہا۔ بہت پہلے الطاف فاطمہ کا ناول ’’دستک نہ دو‘‘ پڑھا، اچھا لگا۔ پھر خدیجہ مستور کا ’’آنگن‘‘۔۔۔ اس نے بھی متاثر کیا۔ نثار عزیز بٹ کا معاملہ پسندیدگی کا بین بین رہا۔ عصمت چغتائی ایسی رنگین و رواں زبان لکھتی ہیں (بولتی بھی ایسی ہی تھیں) کہ ان کے اسلوبِ نثر کی رفتار کا ساتھ دینا ممکن نہ رہا۔ ’’ٹیڑھی لکیر‘‘ پڑھنے کے لیے جب بھی اٹھائی چند صفحات کے بعد ہی ہانپنے لگا، سانس اکھڑنے لگی۔ ناول بند کرکے شیلف پر دھر دیا۔ ہاں مگر قرۃ العین کے بعد اگر کسی نے، کسی خاتون ناول نگار نے اپنی گرفت میں لیا تو بانو قدسیہ اور وہ بھی ان کے فقط ایک ’’راجہ گدھ‘‘ نے۔
’’راجہ گدھ‘‘ ہمارے ہی معاشرے کا آئینہ ہے، جس میں ہمارے لوگ اور ہمارا معاشرہ اپنی تمام بوالعجبیوں، منافقتوں، حماقتوں اور تشنہ کام محبتوں کے ساتھ دکھائی دیتا ہے۔ مرکزی خیال اس کا ’’رزقِ حرام‘‘ ہے جو ہمارے معاشرے میں اس درجہ عام ہوگیا ہے کہ حرام و حلال میں تمیز ہی مٹ گئی ہے۔ بانو قدسیہ بتاتی ہیں کہ رزقِ حرام باطن میں، آدمی کے لہو میں اور پوری معاشرتی زندگی میں فساد پیدا کرنے کا سبب ہے، اور رزقِ حرام کا فلسفہ بھی محض معاشی بدعنوانی اور بدمعاملگی تک محدود نہیں۔ ہر وہ چیز جو آپ کی نہیں ہے اُسے ہتھیانا اور اُس سے فائدہ اٹھانا یا لذت کشید کرنا رزقِ حرام ہی ہے۔ اگر ایک مرد کسی ایسی عورت سے جو اُس کے لیے مباح نہیں ہے‘ تعلقِ جسمانی قائم کرتا ہے تو اس عورت سے کشید کی گئی لذت بھی حرام رزق ہی کی مکروہ صورت ہے۔
’راجہ گدھ‘ میں اس فلسفے کو بانو قدسیہ نے نہایت چابک دستی سے کہانی اور کرداروں کی شکل میں پیش کیا ہے۔ کہا جاتا ہے ناول زندگی اور مخصوص فلسفۂ زندگی کو پیش نہ کرسکے تو وہ اچھا ناول مشکل ہی سے کہلا سکتا ہے۔ کہانی یا افسانہ بہتے دریا کی موجوں میں سے ایک لہر کو اٹھا لینا ہے، اور ناول پورے دریاکو، موجوں کی کشمکش اور اضطراب اور خود یہ سوال کہ دریا بہتا بہتا کدھر نکل جائے گا؟ اس کی تقدیر کیا ہے؟ اس کی ابتدا اور انتہا کیا ہے؟ یہ ساری باتیں کہ یہ زندگی کا دریا ہے، جو بہتا ہے اور بہے جاتا ہے، یہ وقت کا دریا ہے جس میں سب کچھ قید ہے۔ حکایتِ ہستی کی ابتدا و انتہا کسے معلوم! جو کچھ سنا، جو کچھ بتایا گیا، درمیان ہی ہے۔ یہ دنیا اور خود دنیا کی یہ زندگی بھی درمیان ہی درمیان ہے۔ آغاز و اختتام کی کس کو خبر ہے۔
جو ایمان رکھتے ہیں وہ مخبرِ صادق کی دی گئی خبر پر ایمان رکھتے ہیں، اور وہاں قیل و قال اور سوال و جواب کی اجازت نہیں۔ فقط ماننے اور اطاعت کرنے ہی میں نجات کی امید ہے۔ مگر انسان کوئی جامد نہیں، متغیر حقیقت ہے۔ آپ کتے، ہاتھی اور شیر کو تربیت دے کر، سدھاکر اپنے قابو میں رکھ سکتے ہیں، پھر وہ آپ کے اشاروں پر ناچے گا۔ مگر انسان تو ایک بے قابو سی مخلوق ہے۔ اسے تو انبیاء اور مصلحینِ اخلاق کی فوج در فوج آج تک قابو میں نہ کرسکی۔ تو اصل بات انسان کو سمجھنے کی ہے۔
یہ ہے کیا چیز؟ ہر آن بدلتی، تبدیل ہوتی، نہ ٹھیرنے، نہ رک کر سانس لینے والی مخلوق کہ جسے اشرف المخلوقات کا نام دیا گیا۔ یہ اپنے ساتھ ساتھ دنیا کو بھی بدلتا جارہا ہے۔ خدا جانے اورکتنا بدلے گا۔ عروجِ آدم سے انجم جو سہمے جاتے ہیں وہ بلاوجہ تو نہیں، کوئی خطرہ ہوگا انہیں بھی اس پُرخطر مخلوق سے۔ لیکن ماہ و انجم سے زیادہ انسان کو خطرہ انسان سے ہے۔ جیسا کہ وجودی فلسفیوں نے کہا تھا: ’’دوسرا شخص میرا جہنم ہے‘‘۔ بات دور جا پڑی۔
میں رات کے سمے کچھ نہ کچھ لکھنے پڑھنے کے کام میں خود کو مگن رکھتا ہوں کہ موبائل سے برادرم عامر اشرف نے بانو قدسیہ آپا کی رحلت کی اطلاع دی۔ صبح سویرے ہی سے میں بہت خوش تھا، کئی بار آسمان پر چمکتے ہوئے مہربان سورج کی نرم نرم کرنوں سے لطف اندوز ہوکے سر اٹھا کے اسے دیکھ چکا تھا۔ یہ بھی دیکھ کر حیران تھا کہ آج درختوں کے سبز پتّے معمول سے زیادہ سبز کیوں دِکھ رہے ہیں۔ آخری پہر رات کو آنکھ کھلی تو بوندا باندی اور سرد ہواؤں نے مجھے اور حیران کیا۔ یہ کب معلوم تھا کہ قدرت نے رزقِ حرام والے معاشرے سے ایسی ادیبہ کو واپس بلانے کا اہتمام کیا ہے جس نے اپنے فلسفۂ رزقِ حرام سے اس کی کراہیت و حقیقت کو فاش کردیا تھا۔
آج نہیں تو کل، کل نہیں تو آئندہ کل یہ معاشرہ پاکیزہ ہوگا، باطنی نہ سہی ظاہری طور پر سہی۔ کہ دونوں حقائق الگ الگ ہیں۔ اور یہ جو بھی ٹوٹی پھوٹی پاکیزگی آئے گی وہ اسی ناول، اسی مصنفہ کی برکت سے آئے گی، دنیا جسے بانو قدسیہ پکارتی ہے۔ اشفاق احمد کی اہلیہ، ان کی شاگرد بانو قدسیہ!
nn

حصہ