(گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں جاں لیوا حادثات (اخوند زادہ جلال نورزئی

157

بلوچستان کے ساحلی مقام گڈانی میں واقع شپ بریکنگ یارڈ میں جان لیوا حادثات کوئی نئی بات نہیں۔ اس مقام پر بڑے بڑے جہازوں کی کٹائی کرکے اسکریپ کیا جاتا ہے۔ آئل ٹینکرز اور ایل پی جی کنٹینرز توڑنے کے دوران ہولناک حادثات ہوچکے ہیں جن میں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس صنعت سے وابستہ مزدوروں کے تحفظ کا کوئی معقول بندوبست موجود نہیں۔ اس غفلت اور لاپروائی سے ہمہ وقت مزدوروں کی جان داؤ پر لگی ہوتی ہے، لیکن کمپنیوں اور ٹھیکیداروں کو فقط کمانے کی فکر رہتی ہے۔
بالآخر یکم نومبر 2016ء کے سانحے نے حکومتوں کی توجہ حاصل کرلی۔ شپ بریکنگ یارڈ میں ایک بحری جہاز کو توڑا جارہا تھا کہ اس دوران دھماکے ہوئے اور آگ بھڑک اٹھی، جس نے 27 محنت کشوں کو بھسم کردیا اور درجنوں بری طرح جھلس گئے۔ ستم یہ ہے کہ آگ پر فوراً قابو پانے کا بھی کوئی انتظام نہ تھا۔ اس حادثے کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتیں بیدار ہوئیں۔ لیکن یہ بیداری ہمیشہ وقتی ہوا کرتی ہے۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد سب کچھ فراموش کردیا جاتا ہے۔ بلوچستان حکومت نے متعلقہ محکموں کے چند ذمہ داروں کو معطل کردیا تھا۔ وزیراعلیٰ نے رپورٹ طلب کرلی تھی جو کچھ عرصے بعد پیش کردی گئی تھی۔ وزیراعظم نے وفاقی وزیر رانا تنویر کی سربراہی میں قائم کمیٹی گڈانی بھیجی۔ اس کمیٹی نے رپورٹ وزیراعظم کو پیش کردی۔ یہ معاملہ گرم تھا کہ 21 دسمبر 2016ء کو پھر آتشزدگی ہوئی، کوئی نقصان البتہ نہ ہوا۔ اس کے بعد9 جنوری2017ء کو ایک اور واقعہ ہوا جس میں 5 مزدور جاں بحق ہوگئے۔ چنانچہ 2 فروری 2017ء کو حکومتِ بلوچستان نے گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں آئل ٹینکرز اور ایل پی جی کنٹینرز توڑنے پر عارضی پابندی عائد کردی اور گڈانی شپ بریکنگ ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کا فیصلہ کرلیا۔ اس بابت وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کی موجودگی میں ایک اہم اجلاس ہوا جس میں شپ بریکنگ صنعت سے متعلق مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا اور اس غور کیا گیا کہ حادثات کا تدارک کیسے کیا جائے۔
جیسا کہ ذکر ہوا شپ بریکنگ اہم صنعت ہے۔ سینکڑوں افراد اس صنعت سے روزی روٹی کماتے ہیں۔ لیکن یہاں محنت کشوں کی فلاح و بہبود کے لیے انتظامات موجود نہیں۔ ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے کوئی بندوبست نہیں۔ ماحولیات کا بگڑا ہوا مسئلہ بھی موجود ہے۔ چنانچہ اب حکومتِ بلوچستان نے کچھ جنبش کی ہے۔ اوّل آئل ٹینکرز اور ایل پی جی کنٹینرز کی کٹائی پر تاحکم ثانی پابندی رہے گی۔ تاہم پہلے سے لنگرانداز آئل ٹینکرز اور ایل پی جی کنٹینرز کی مکمل صفائی کے بعد کٹائی کی اجازت ہوگی۔ گڈانی شپ بریکنگ یارڈ ریگولیٹری اتھارٹی کے تحت ون ونڈو آپریشن کی سہولت فراہم کی جائے گی۔ اتھارٹی کے قیام کے لیے ایک ماہ کے اندر قانون سازی کی جائے گی۔ جب تک کمشنر قلات، ڈپٹی کمشنر لسبیلہ اور متعلقہ اداروں کے حکام اور شپ بریکنگ ایسوسی ایشن کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی قائم کی جائے گی۔ یہ کمیٹی گڈانی میں لنگرانداز جہازوں کا ازسرنو جائزہ لے گی۔ بریکرز کو اپنے دفاتر گڈانی یا حب میں قائم کرکے ایف بی آر کے ساتھ رجسٹرڈ کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ جی ایس ٹی کی مد میں بلوچستان کو آمدنی ہوسکے۔ یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ توڑنے کے لیے لائے جانے والے بحری جہاز کھلے سمندر میں لنگرانداز ہوں گے۔ متعلقہ اداروں کی جانب سے معائنے کے بعد این او سی دیا جائے گا۔ یعنی اجازت ملنے کے بعد جہاز ساحل پر لنگرانداز ہوسکیں گے۔ حکومت نے حفاظتی اقدامات اٹھانے پر توجہ دے رکھی ہے جس کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، یعنی شاہراہ اور ٹراما سینٹر کی تعمیر، آر ایچ ای سی کی اپ گریڈیشن، فائر بریگیڈ اسٹیشن کا قیام زیر غور ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے اس اجلاس میں شپ بریکنگ کے لیے نافذالعمل قوانین اور ضوابط کے حوالے سے تفصیلات بتائیں۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ جہاز توڑنے کے دوران آتشزدگی کی صورت میں ہونے والے نقصان کی ایف آئی آر ایکسپلوزیو ایکٹ کے تحت درج کی جائے گی۔ وزیراعلیٰ قرار دے چکے ہیں کہ آئندہ کسی بھی حادثے کی صورت میں این او سی جاری کرنے والے ادارے اور جہاز کے مالک ذمہ دار ہوں گے اور صنعت کار محنت کشوں کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کرنے کے بھی پابند ہوں گے۔ گڈانی شپ بریکنگ کی صنعت سے بلوچستان کو رتی برابر آمدنی ہورہی ہے۔ آمدنی میں بلوچستان کو بڑا حصہ لینا چاہیے۔ نیز اس صنعت پر مافیا کا تسلط قائم ہے جو محنت کشوں کا خون پسینہ چوس کر جائز اور ناجائز طریقوں سے کما رہا ہے۔ مالکوں اور ٹھیکیداروں کے ساتھ ایسوسی ایشن کے کرتا دھرتاؤں کی ملی بھگت قائم ہے۔ آتشزدگی کے مذکورہ بالا بڑے سانحے کے بعد یہ بات بھی کہی گئی کہ اس جہاز میں 200 ٹن تیل موجود تھا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ گڈانی کی اس صنعت کے ذریعے پیٹرول اور ڈیزل کی اسمگلنگ کا دھندا بھی بڑے پیمانے پر ہورہا ہے جس کو روکنے کی ضرورت ہے۔ حکومتِ بلوچستان کو یہ پہلو مدنظر رکھنا چاہیے اور حالیہ آتشزدگی میں مالک، ٹھیکیدار اور باقی وہ لوگ جو کسی نہ کسی طور پر ذمہ دار ہیں، کے خلاف لازمی قانونی چارہ جوئی ہونی چاہیے۔ محض عارضی دھمکیوں اور چند معطلیوں سے حق ادا نہیں ہوگا۔ نواب ثناء اللہ زہری گڈانی کی صنعت پر ہمہ پہلو نگاہ رکھیں تاکہ محنت کشوں کی سلامتی یقینی ہو اور اس صنعت سے بلوچستان کو زیادہ سے زیادہ آمدنی یقینی ہوجائے۔
nn

حصہ