(گلبدین حکمت یار پر اقام متحدہ کا پابندی کا خاتمہ (عالمگیر آفریدی

143

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے گزشتہ جمعۃ المبارک کو حزبِ اسلامی افغانستان کے سربراہ انجینئر گلبدین حکمت یار پر عائد پابندیاں اٹھانے سے حزبِ اسلامی اور افغان حکومت کے درمیان وہ معاہدہ مؤثر ہوگیا ہے جس پر گزشتہ سال ستمبر میں حزبِ اسلامی افغانستان کے سربراہ انجینئر گلبدین حکمت یار اور افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کے دیگر تمام نکات چونکہ گلبدین حکمت یار پر اقوام متحدہ کی عائد کردہ پابندیوں کے خاتمے سے مشروط تھے اس لیے جب سے اس معاہدے پر دستخط ہوئے تھے تب سے حزب اسلامی مسلسل افغان حکومت پر گلبدین حکمت یار پر عائد پابندیوں کے خاتمے کے لیے دباؤ ڈال رہی تھی۔ متذکرہ معاہدے کی کامیابی اور اس کے مؤثر ہونے کا تمام تر انحصار چونکہ گلبدین حکمت یار پر عائد پابندیوں کے خاتمے پر تھا، اور ان پابندیوں کی موجودگی میں چونکہ حکمت یار کے لیے افغان امن عمل، نیز مستقبل کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا ممکن نہیں تھا، اس لیے سیاسی مبصرین کا شروع دن سے یہ خیال تھا کہ جب تک گلبدین حکمت یار پر عائد پابندیاں نہیں اٹھائی جائیں گی اُس وقت تک اس معاہدے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ لہٰذا اب جب سلامتی کونسل نے ان پابندیوں کے خاتمے کا اعلان کردیا ہے تو اس سے ان آراء کو تقویت ملنے لگی ہے کہ اب حزبِ اسلامی اور افغان حکومت کے درمیان حقیقی معنوں میں برف پگھلنے لگے گی۔
پابندیاں اٹھانے کے حوالے سے یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ روس نے شروع میں سلامتی کونسل کے متذکرہ اجلاس میں یہ پابندیاں اٹھانے کی مخالفت کی تھی، لیکن بعد ازاں روس کے نمائندے نے اپنی مخالفت پر زور نہیں دیا جس سے پابندیاں اٹھانے کی افغان حکومت کی درخواست کو منظور کرلیا گیا۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ فرانس نے بھی شروع میں ان پابندیوں کے اٹھانے کی مخالفت کی تھی اور اس مخالفت کی وجہ پچھلے سال کابل کے جنوب مشرق میں حزبِ اسلامی کے مجاہدین کے ہاتھوں دس فرانسیسی فوجیوں کی ہلاکت کو قرار دیا جا رہا تھا، لیکن بعد میں فرانس نے بھی اپنی مخالفت واپس لے کر گلبدین حکمت یار پر عائد پابندیاں اٹھانے کی منظوری دینے میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔
واضح رہے کہ حزبِ اسلامی کا شمار سوویت جارحیت کے خلاف افغان جہاد میں حصہ لینے والی سات نمایاں جہادی تنظیموں میں ہوتا رہا ہے، اور اس کے سربراہ گلبدین حکمت یار کے، افغان جہاد میں سب سے بڑی جہادی تنظیم کے سربراہ کے طور پر، جہاں جہاد کی حامی عالمی قوتوں بشمول امریکہ، یورپ اور عرب ممالک کے ساتھ قریبی دوستانہ تعلقات رہے ہیں وہاں ان کا شمار پاکستان کے انتہائی قریب سمجھے جانے والے جہادی لیڈروں میں بھی ہوتا رہا ہے۔ گلبدین حکمت یار کی رومانوی اور ہردلعزیز جہادی شخصیت اُس وقت متنازع ہوگئی تھی جب 1992ء میں ڈاکٹر نجیب اللہ حکومت کے خاتمے کے بعد کابل پر قبضے کے لیے حزب اسلامی اور جمعیت اسلامی کے درمیان شدید ترین خانہ جنگی چھڑ گئی تھی جس میں دونوں جانب کے جانی ومالی نقصان کے علاوہ کابل کے شہریوں کو نہ صرف بہت بڑی تعداد میں جانی اور مالی نقصانات اٹھانا پڑے تھے بلکہ انہیں افغان جہاد کے دوران پہلی دفعہ گھر بار چھوڑ کر اندرون افغانستان کے علاوہ پاکستان اور ایران میں پناہ بھی لینی پڑی تھی۔گو کہ اس خانہ جنگی میں بعد میں تمام دھڑے شامل ہوگئے تھے اور اس کے آغاز کی ذمہ داری شورائے نظار کے کمانڈر احمد شاہ مسعود پر عائد کی جاتی ہے جنہوں نے پشاور معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کابل میں ڈاکٹر نجیب حکومت کے خاتمے سے پیدا ہونے والے خلاء کو طاقت کے زور پر کابل پر قبضے کے ذریعے پُر کرنے کی کوشش کی تھی، جس پر حزب اسلامی جیسی بڑی جہادی تنظیم کا حرکت میں آنا ایک فطری امر تھا، کیونکہ اگر ایک جانب وہ خود کو افغان جہاد کی سب سے بڑی تنظیم کی حیثیت سے سوویت یونین کو مار بھگانے کا چیمپئن سمجھتی تھی تو دوسری جانب اس کے ہزاروں مجاہدین چونکہ بہت عرصے سے کابل کے نواح سروبی میں کابل کا محاصرہ کیے ہوئے تھے اور ان کا دعویٰ تھا کہ ان کے دباؤ کے نتیجے ہی میں ڈاکٹر نجیب حکومت کا خاتمہ ممکن ہوسکا تھا، لہٰذا اس کے لیے کابل پر جمعیت اسلامی اور احمد شاہ مسعود کے قبضے کو کسی بھی صورت قبول کرنا ممکن نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب جمعیت اسلامی کابل میں بزور داخل ہوگئی تھی تو اس کے ردعمل میں حزبِ اسلامی بھی کابل پر چڑھ دوڑی تھی، جس کے نتیجے میں خونریز خانہ جنگی شروع ہوگئی تھی جس کا زیادہ تر ملبہ گلبدین حکمت یار اور اُن کی جماعت پر ڈالا جاتا رہا ہے، حالانکہ ایسا کہنا قرین انصاف نہیں ہے۔ بعد میں محترم قاضی حسین احمد مرحوم کی کوششوں سے ان دونوں بڑی تنظیموں میں جب جنگ بندی اور صلح ہوگئی تھی اور دونوں جماعتیں کابل میں ایک عبوری سیٹ اپ کے قیام پر متفق ہوگئی تھیں تو اس موقع پر تحریک طالبان نے جنم لے کر ان دونوں جماعتوں کا نہ صرف کابل اور باقی ماندہ افغانستان سے صفایا کردیا تھا بلکہ طالبان نے کابل پر قبضہ کرکے افغانستان میں اپنی حکومت بھی قائم کرلی تھی۔ یہی وہ موقع تھا جب گلبدین حکمت یار پہلی دفعہ پاکستان سے ناراض ہوکر ایران میں خودساختہ جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ کچھ عرصہ ایران میں قیام کے بعد جب اُن کے تعلقات ایران سے خراب ہونا شروع ہوئے اور اسی اثناء جب اُن کے رابطے دوبارہ پاکستان سے بحال ہوئے تو وہ پاکستان میں خاموشی سے خفیہ پناہ لینے میں کامیاب ہوگئے تھے، اور بعد ازاں جب افغانستان میں امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کے خلاف طالبان کی تحریکِ مزاحمت میں شدت پیدا ہوئی تو حزب اسلامی بھی میدان میں نکل آئی تھی۔ البتہ یہ وہ موقع تھا جب حزبِ اسلامی پُرامن سیاسی وجمہوری جدوجہد اور جہاد کے ذریعے غیر ملکی قوتوں کے انخلاء کے ایشو پر دو واضح دھڑوں میں بٹ گئی تھی۔ وہ دن اور آج کا دن، پچھلے پندرہ سالوں کے دوران حزبِ اسلامی کا ایک دھڑا گلبدین حکمت یار کی قیادت میں افغانستان کے بعض مشرقی اور شمالی علاقوں میں مسلح جدوجہد کررہا تھا اور اسی جدوجہد کے نتیجے میں فروری 2003ء میں امریکہ اور افغان حکومت کی شہہ پر اقوام متحدہ نے حزب اسلامی اور اس کے قائد گلبدین حکمت یار پر پابندیاں عائد کرتے ہوئے نہ صرف اُن کے تمام اثاثے منجمد کردیئے تھے بلکہ ان کو القاعدہ اور اسامہ بن لادن کے ساتھ تعلقات کے الزامات کے تحت دہشت گرد تنظیموں اور شخصیات کی فہرست میں شامل کرکے ان کی آزادانہ نقل و حرکت پر بھی پابندیاں عائد کردی تھیں۔ تب سے وہ روپوش چلے آرہے تھے۔ جب کہ دوسری جانب حزب اسلامی کے سیاسی دھڑے نے نہ صرف سرکاری سطح پر اپنے آپ کو حکومت کے ساتھ رجسٹرڈ کرا لیا تھا بلکہ وہ انتخابی عمل کا حصہ بن کر سیاسی طور پر اپنا وجود بھی منوانے میں کامیاب ہوچکی ہے۔ گزشتہ صدارتی انتخابات میں اس دھڑے نے اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف جمعیت اسلامی کے ساتھ صدارتی امیدوار ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے ساتھ اتحاد قائم کرکے پوری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا تھا۔ یاد رہے کہ انتخابات میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ چونکہ ناکام ہوگئے تھے اس لیے اس موقع پر حزب اسلامی کو بھی سیاسی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا، البتہ بعد میں جب ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ ایک معاہدے کے تحت افغانستان کے چیف ایگزیکٹو بن گئے تھے تو انہوں نے ڈاکٹر اشرف غنی کے ساتھ مخلوط اتحادی حکومت بنانے کے بعد اس مخلوط حکومت میں حزب اسلامی کو بھی اپنے اتحادی کے طور پر مناسب حصہ دے دیا تھا۔
حزبِ اسلامی کے ساتھ افغان حکومت کے طے پانے والے امن معاہدے کے بارے میں اب تک یہ تاثر دیا جاتا رہا ہے کہ اس معاہدے کے ذریعے دراصل ڈاکٹر اشرف غنی نے خود کو مضبوط کرنے اور اپنے مخالف ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو کاؤنٹر کرنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کے پیچھے اصل محرک جمعیت اسلامی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ ہیں جو اس معاہدے کے ذریعے ایک طرف طالبان کی بڑھتی ہوئی مزاحمتی قوت کو کمزورکرنا چاہتے ہیں اور دوسری جانب ان کا مقصد افغانستان کی دو سابق بڑی جہادی تنظیموں حزب اسلامی اور جمعیت اسلامی کو مرکزی دھارے سیاست کا حصہ بناکر افغانستان میں پُرامن سیاسی جمہوری نظام کو استحکام بخشنا ہے۔ اسی طرح افغان امور کے ماہرین کا گلبدین حکمت یار کے ساتھ طے پانے والے معاہدے اور ان پر سے اٹھائی جانے والی پابندیوں کے بارے میں یہ بھی کہنا ہے کہ اس اقدام کے ذریعے
(باقی صفحہ 41پر)
امریکہ جہاں افغانستان میں مسلح مزاحمتی قوتوں کو سیاسی دھارے میں لانے کا خواہش مند ہے وہاں اس پیش رفت کے ذریعے پاکستان کے قریب سمجھے جانے والے سابق جہادی راہنما گلبدین حکمت یار کو افغانستان کے مستقبل کے سیاسی عمل میں اہم کردار دے کر افغانستان میں بڑھتے ہوئے بھارتی اثر رسوخ کو کم کرتے ہوئے ایسی قوتوں کو سامنے لانا مقصود ہے جن کے ذریعے پاکستان کے تحفظات کو کم کرنے میں بہت حد تک مدد مل سکتی ہے۔ دراصل یہی وہ عوامل اور پس منظر ہے جن کی روشنی میں حزبِ اسلامی کے سربراہ انجینئر گلبدین حکمت یار پر عائد پابندیوں کے خاتمے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ لہٰذا اب جب وہ عنقریب کابل میں جلوہ افروز ہوں گے تو دیکھنا یہ ہے کہ ان کی اس حیرت انگیز اور غیر متوقع پُرامن واپسی کے افغانستان کی سیاست اور مستقبل پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر افغانستان کے معاملات میں دلچسپی رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ خود افغان عوام کی نگاہیں مرکوزہیں۔
nn

حصہ