انتشار اور شکست خوردگی سے دوچار عالم اسلام

151

عالم اسلام زبردست انتشار اور شکست خوردگی سے دوچار ہے، آپ کی نظر میں اس کے بڑے بڑے اسباب کیا ہیں؟
’’یہ تو ایک بڑی طویل داستان ہے جو شاید اس موقع پر پوری طرح بیان نہ کی جا سکے‘‘۔
لمحہ بھر توقف کے بعد کہنے لگے:
’’دراصل انتشار کی بڑی وجہ ایک ہی ہے کہ مسلم سوسائٹی کی قیادت مدتِ دراز سے ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو اپنے آپ کو اسلام کے حدود میں رکھنے کے لیے تیار نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ قیادت کا ایک حصہ علماء، فقہا اور صوفیہ کے ہاتھ میں بھی رہا ہے، مگر اس نے محض ’بریک‘ کا کام دیا ہے، جب کہ گاڑی چلانے والی لیڈرشپ دنیا پرستوں کے تصرف میں رہی ہے جس نے بگاڑ انتہا تک پہنچا دیا ہے۔ اب جب تک گاڑی چلانے والی لیڈرشپ دیندار اور خدا ترس لوگوں کے ہاتھ میں نہیں آئے گی، تب تک یہ حالت نہیں بدل سکتی۔ بعض مسلمان ملکوں کا تو یہ عالم ہے کہ بریک ٹوٹ چکا ہے اور ڈرائیور گاڑی کو بگٹٹ نشیب کی طرف لے جارہا ہے‘‘۔
آہ! جن گاڑیوں نے کبھی بلندیاں سر کی تھیں، آج وہ نشیب کی طرف لڑھک رہی ہیں اور ہم تماشائی کی حیثیت سے یہ سارا منظر دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے اندر اتنے بڑے سانحے پر احساس کی ذرہ برابر خلش پیدا نہیں ہوتی۔ میں نے اپنے سوالنامے کا تیسرا ورق الٹتے ہوئے مولانا سے استفسار کیا:
’’کیا صورت حال بدلنے کے لیے کوئی اجتماعی کوشش کی جا سکتی ہے؟‘‘
مولانا نے یاس اور امید کے ملے جلے جذبات کی رو میں کہا:
’’اجتماعی کوشش سردست فقط اس حد تک ہوسکتی ہے کہ دینی روح بیدار کرنے والے لوگ اپنے اپنے ملکوں میں کام کرتے رہیں اور جب کبھی موقع ملے، تب ایک دوسرے کے خیالات اور تجربات سے فائدہ اٹھائیں۔ اس سے زیادہ کچھ کرنے کے لیے بین الاقوامی حالات اس وقت کوئی موقع نہیں دے رہے۔ سبھی مسلمان ممالک پر ایسے لوگ مسلط ہیں جو ایک طرف مغربی نیشنلزم کے تصورات کی پیروی کرکے اپنے ملک مضبوط فولادی سرحدوں میں محصور کیے ہوئے ہیں جس کے سبب کوئی بین الاقوامی تحریک نہیں چل سکتی۔ دوسری طرف وہ مغربی تہذیب و تمدن کی ترویج سے اسلامی تحریکوں کے راستے میں سخت رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔
’’جدہ میں موتمر عالم اسلامی کی تازہ کانفرنس سے کچھ توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ دراصل حج کے دنوں میں پورے عالم اسلام کے مدبرین کے لیے سرجوڑ کر بیٹھنے کا نہایت موزوں موقع میسر آتا ہے، لیکن بدقسمتی سے ہم اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ باہمی رابطے اور مشاورت کے بے شمار فوائد ہیں جن کی بدولت کام کی ان گنت راہیں نکل سکتی ہیں۔ اس وقت عالم اسلام کی سب سے بڑی ضرورت ایسا لٹریچر ہے جو اٹھنے والے مختلف مسائل کا نہایت واضح، معقول اور قابلِ عمل حل پیش کرسکے۔ اس سلسلے میں ہم اپنا لٹریچر عربی میں منتقل کررہے ہیں جس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ کچھ ممالک کی درس گاہوں میں بعض کتابیں نصاب میں شامل کرلی گئیں اور بحیثیتِ مجموعی یہ وہاں کے نوجوانوں، بالخصوص انگریزی تعلیم یافتہ طبقے کو متاثر کررہی ہیں۔ ان کتابوں میں عرب نیشنلزم پر بھرپور تنقید کی گئی ہے، اور شاید یہ اسی کا اثر ہے کہ عرب ممالک میں عرب قومیت کے خلاف تحریک اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ عین ممکن ہے یہی آگے چل کر اسلامی تحریک کے لیے راستہ ہموار کرے‘‘۔
[’’ملاقاتیں کیا کیا‘‘۔ انٹرویو سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ۔ صفحہ نمبر 82]

عالم نو
زندہ دل سے نہیں پوشیدہ ضمیر تقدیر
خواب میں دیکھتا ہے عالمِ نو کی تصویر!
اور جب بانگِ اذاں کرتی ہے بیدار اسے
کرتا ہے خواب میں دیکھی ہوئی دنیا تعمیر!
بدن اس تازہ جہاں کا ہے اسی کی کفِ خاک
روح اس تازہ جہاں کی ہے اسی کی تکبیر!
1۔ جس شخص کا دل زندہ ہو اس سے تقدیر کے راز چھپے نہیں رہ سکتے۔ وہ خواب میں نئی دنیا کی تصویر دیکھتا ہے۔
2۔ صبح کے وقت اذان کی آواز اسے جگاتی ہے تو جس دنیا کا نقشہ اس نے خواب میں دیکھا، اسے بنانے اور تیار کرنے میں لگ جاتا ہے۔
3۔ اس نئی دنیا کا بدن زندہ دل کی مٹی ہوتی ہے اور روح اس کا نعرۂ تکبیر۔

حصہ