(کردار کے غازی (سید سلیمان ندوی)

222

جب اسکندریہ فتح ہوا تو سالارِ لشکر عمرو بن العاصؓ نے معاویہؓ بن خدیج کو قاصد بنا کر مدینہ بھیجا اور کہا کہ جس قدر جلدی جا سکتے ہو جاؤ اور امیر المومنین کو مژدۂ فتح سناؤ۔ حضرت معاویہؓ ٹھیک دوپہر کے وقت مدینے میں داخل ہوئے اور اس خیال سے کہ آرام کا وقت ہے، امیر المومنین کے گھر نہیں گئے بلکہ مسجد نبویؐ کا رخ کیا۔ راستہ میں امیر المومنین کی لونڈی ملی، اس نے حضرت عمرؓ کو جا کر اطلاع دی کہ اسکندریہ سے قاصد آیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ جاؤ فوراً قاصد کو یہاں بلا لاؤ۔ لونڈی نے جا کر قاصد سے کہا کہ تم کو امیر المومنین بلاتے ہیں، لیکن حضرت عمرؓ حالات جاننے کی جلدی میں قاصد کے آنے کا انتظار بھی نہ کر پائے بلکہ خود چادر سنبھال کر چلنے کے لیے تیار ہوئے، اسی وقت معاویہؓ آگئے۔ حضرت عمرؓ نے فتح کا حال سنا تو زمین پر گر پرے۔ سجدہ ریز ہو کر خدا کا شکر ادا کیا۔ منادی کر کے تمام لوگوں کو مسجد میں جمع کیا۔ حضرت معاویہؓ نے فتح کے حالات بیان کیے۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ ان کو اپنے گھر لائے، کھانا کھلایا۔ کھانے سے فراغت کے بعد امیر المومنین نے پوچھا کہ تم مدینے میں داخل ہو کر سیدھے میرے پاس کیوں نہ چلے آئے۔ حضرت معاویہؓ نے جواب دیا، چونکہ یہ آرام کا وقت ہے اس لیے میں نے خیال کیا کہ شاید آپ سوئے ہوں اور میری وجہ سے آپ کے آرام میں خلل واقع ہو۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا، ’’افسوس تم میرے بارے میں یہ خیال رکھتے ہو(اگر میں دن کو سویا کروں) تو خلافت کا بار کون سنبھالے گا۔
آئیڈیل لائف
بہتر سے بہتر فلسفہ، عمدہ سے عمدہ تعلیم، اچھی سے اچھی ہدایت زندگی نہیں پا سکتی اور کامیاب نہیں ہو سکتی اگر اس کے پیچھے کوئیایسی شخصیت اس کی حامل اور عامل قائم نہیں ہے جو ہماری توجہ، محبت اور عظمت کا مرکز ہو۔
کسی انسانی سیرت کے دائمی نمونہ عمل بننے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے صحیفۂ حیات کے تمام حصے ہمارے سامنے ہوں۔ جس سیرت کا عملی حصہ سامنے نہ ہو اس کو ’’آئیڈیل لائف‘‘ اور قابل تقلید زندگی کا خطاب نہیں دیا جا سکتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا کوئی لمحہ پردہ میں نہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق طاہرہ، اوصاف عالیہ اور آدابِ فاضلہ کے بیان اور تفصیل سے احادیث کی تمام کتابیں معمور ہیں۔ ایک انسان کی زندگی کے جس قدر پہلو ہو سکتے ہیں وہ سب محفوظ اور مذکور ہیں۔
ہمارے محدثین کرام نے اپنے پیغمبر کے متعلق صحیح اور غلط سارا مواد سب کے سامنے رکھ دیا ہے اور ان دونوں کے درمیان فرق بتا دیا ہے۔
(سید سلیمان ندوی)
شیطانی وسوسہ
ایک نیاز مند کثرت سے ذکرِ الہٰی کرتا رہتا تھا۔ حتیٰ کہ ایک دن اس پر خلوص ذکر سے اس کے لب شیریں ہو گئے۔۔۔ شیطان نے اسے وسوسے میں مبتلا کر دیا۔ بے فائدہ ذکر کی کثرت کر رہا ہے تو اللہ اللہ کرتا رہتا ہے جب کہ اللہ کی طرف سے لبیک کی آواز ایک بار بھی نہیں آئی اور نہ ہی اللہ کی طرف سے کوئی جواب ملتا ہے، پھر ایک طرفہ محبت کی پینگ بڑھانے سے کیا فائدہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تیرا ذکر الہٰی اللہ کے ہاں مقبول نہیں۔۔۔ شیطان کی ان پر فریب باتوں سے صوفی نے ذکر کرنا چھوڑ دیا شکستہ دل اور افسردہ ہو کر سو گیا۔ آنکھ سو گئی اور قسمت جاگ گئی۔
عالم خواب میں دیکھا کہ حضرت خضر علیہ السلام تشریف لائے اور انہوں نے دریافت کیا کہ ذکر الہٰی سے غفلت کیوں۔ اے نیک بخت! تو نے ذکرِ حق کیوں چھوڑ دیا۔ آخر تو اس ذکرِ پاک سے پشیمان کیوں ہو گیا ہے۔۔۔؟ اس نے کہا بارگاہِ الہٰی سے مجھے کوئی جواب ہی نہیں ملتا۔ اس سے دل میں خیال آیا کہ میرا ذکر قبول ہی نہیں ہو رہا ہے۔
حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا ’’تمہارے لیے اللہ عزوجل نے پیغام پھیجا ہے کہ تمہارا للہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہونا اور دوسرا تمہارا پہلی دفعہ اللہ کہنا قبول ہوتا ہے تب دوسری بار تجھے اللہ کہنے کی توفیق ملتی ہے اور تمہارے دل میں یہ سوزو گداز ہے اور میری چاہت، محبت اور تڑپ ہے۔ یہی تمہارے ذکر کی قبولیت کی نشانی ہے۔ اے بندے! میری محبت میں تیری یہ تدبیریں اور محنتیں سب ہماری طرف سے جذب و کشش کا ہی عکس ہیں۔ اے بندے! تیرا خوف اور میری ذات سے تیرا عشق میرا ہی انعام ہے اور میری ہی مہربانی و محبت کی کشش ہے کہ تیری ہر بار یا اللہ کی پکار میں میر البیک شامل ہوتا ہے۔
تمہارے ذکر کی قبولیت کی نشانی یہی ہے کہ تمہیں ذکر حق میں مشغول کر دیا ہے۔
جان جاھل زین دعا جز دور نیست
زانکہ یا رب گفتش دستور نیست
ایک جاہل اور غافل ذکر حق اور دعا مانگنے کی توفیق سے محروم رہتا ہے۔
اللہ عزوجل کے ذکر کا اجر خود اس ذکر میں ہی پوشیدہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے ذکر کی اور یاد کی توفیق اسی کو عطا کرتے ہیں جس ے خوش ہوتے ہیں اور یہی اس کی قبولیت کی دلیل ہے۔
درس حیات: نیکی کرنے کی توفیق بھی اللہ ہی دیتا ہے۔ شیطان ہر دم اس کوشش میں رہتا ہے کہ کسی طرح انسان اللہ تعالیٰ کے ذکر سے باز آجائے۔

حصہ