(جھوٹ کیوں بولا جاتا ہے (تنویر اللہ خان

286

جھوٹ ختم ہوجائے تو دُنیا کیسی ہوجائے گی! پولیس کے تفتیشی محکمے کا کام بہت کم رہ جائے گا، عدالتوں کا کام آسان ہوجائے گا، کیوں کہ کوئی وکیل فیس لے کر جھوٹ کو سچ بنانے کا کام نہیں کرے گا، ریل گاڑی میں ٹی ٹی کو ٹکٹ چیک کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی کیوں کہ جو مسافر ٹکٹ لیے بغیر گاڑی میں سوار ہوگا سچ سچ بتادے گا کہ اُس نے ٹکٹ نہیں لیا اور وہ کہاں سے سوار ہوا ہے اور اُس کی منزل کیا ہے۔۔۔ اور ٹی ٹی صاحب اُسے ٹکٹ جاری کردیں گے۔ بازاروں میں خریداری آسان ہوجائے گی کیوں کہ دکان دار سچ پر چلتے ہوئے، گاہک کو نہ نقص والی چیز دے گا اور نہ زیادہ منافع لے گا۔ سیاست دان عوام سے جھوٹے وعدے نہیں کریں گے اور پاناما جیسے مقدمات میں عدالت اور عوام کا وقت بھی ضائع نہیں ہوگا، کیوں کہ شیطان کے بہکاوے میں آکر مالی بددیانتی کرنے والا سب کچھ سچ سچ بیان کردے گا۔
یہ خیالی باتیں نہیں ہیں اور نہ ہی افسانوی رومانس ہے۔ یہ سب کچھ مسلمانوں کا ماضی ہے اور میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ایک ایسی ہی دُنیا پھر سے بسے گی۔۔۔ اور آج بھی دُنیا میں ایسے خطے موجود ہیں جو بنیادی اخلاقیات پر عمل کرکے معاشی اور سیاسی ترقی کی انتہاء پاچکے ہیں۔
ماضی کی یاد اور مستقبل کے خواب کے علاوہ ایک زمانۂ حال ہے، یعنی وہ لمحۂ موجود جو ہم ابھی گزار رہے ہیں۔ اس لمحے کو کارگر بناکر ہم کچھ پا سکتے ہیں اور اسی لمحے کر بے کار گزار کر ہم تنزلی کے گڑھے میں گرتے جاتے ہیں، اور اسی لمحے کا ہم سے آخرت میں سوال ہونا ہے۔
جھوٹ کب سے شروع ہوتا ہے، جھوٹ کیوں بولا جاتا ہے، جھوٹ کی کیا کیا شکلیں ہوتی ہیں، جھوٹ پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے، ان موضوعات پر حسبِ استطاعت بات کرتے ہیں۔
بچے کا پہلا جھوٹ برتھ سرٹیفکیٹ سے شروع ہوتا ہے جو اُس کے ماں باپ بولتے ہیں۔ ہم اسکول میں داخلے کے لیے اور ملازمت کے معاملات کے لیے بچے کی عمر سال دوسال کم لکھواتے ہیں۔ بچہ ساری زندگی بولتا یا کم از کم یاد ضرور رکھتا ہے کہ میری اصل عمر یہ ہے اور سرٹیفکیٹ میں یہ ہے۔ یعنی ہم نے کچھ اور کیا یا نہ کیا لیکن ہمارے عمل سے یہ تو ہوگیا کہ بچے نے کاغذات میں غلط اندراج کو معمولی سمجھ لیا اور پھر زندگی کے ہر مرحلے پر اسے جھوٹ کے بجائے معمول کی کارروائی سمجھ لیا، اورکہیں اثاثے ڈیکلیئر کرنے کا وقت آیا تو سچ کے بجائے ضرورت کو مقدم بنالیا۔
جھوٹ بچپن کی عادت ہوتی ہے جسے ہم کبھی معمولی سمجھ کر، کبھی مذاق سمجھ کر اور کبھی نادانی سمجھ کر نظرانداز کرتے رہتے ہیں۔ پہلے بچہ اپنی عمر اور ضرورت کے مطابق چھوٹے چھوٹے جھوٹ بولتا ہے، اور جھوٹ کی یہی عادت رفتہ رفتہ پختہ ہوتی جاتی ہے۔
کوئی بھی جھوٹ کیوں بولتا ہے؟
ہم اور ہمارے بچے بعض اوقات ایسی صورتِ حال میں گھِر جاتے ہیں جس کا سامنا کرنا ہمارے لیے مشکل ہوتا ہے، لہٰذا اس مشکل کو آسانی میں بدلنے کے لیے ہم جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ مثلاً کوئی کام کرنے والا کہیں چلا گیا، اس دوران سیٹھ یا مالک آگیا تو جانے والے کا ساتھی بتاتا ہے کہ ابھی ابھی گیا ہے۔ یا کوئی بچہ سگریٹ پیتے ہوئے دیکھ لیا جاتا ہے تو صورتِ حال پر قابو پانے کے لیے کہہ دیتا ہے کہ کوئی اُسے سگریٹ پکڑا گیا ہے۔ کوئی رات رات بھر فیس بک وغیرہ پر لگا رہتا ہے اور کسی دن پکڑا جائے تو کہہ دیتا ہے کہ آج نیند نہیں آرہی تھی لہٰذا پہلی بار میں یہ کررہا ہوں۔ کوئی پیسے چُراتا پکڑا جائے تو کہہ دیتا ہے کہ میں تو پیسے گن کر سنبھال کر رکھ رہا تھا۔ غرض صورت حال پر قابو پانے کے لیے ہم جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔
ہم اپنے آپ کو اچھا ظاہر کرنے کے لیے بھی جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ ہروقت جھوٹ بولنے کے بعد بھی یہ کہنا کہ میں کبھی جھوٹ نہیں بولتا یا بولتی۔۔۔ یا ہر وقت ٹی وی کے سامنے بیٹھے رہنے کے بعد بھی یہ کہنا کہ میں تو ٹی وی دیکھتا یا دیکھتی ہی نہیں۔۔۔ یا رشوت لینے کے بعد یہ کہنا کہ میں تو رشوت کبھی نہیں لیتا یا لیتی۔۔۔ امتحان میں ہمیشہ نقل کرنے والا یا والی یہ کہے کہ میں تو کبھی نقل نہیں کرتا یا کرتی۔۔۔ یا دن رات سونے والا جب سنے کہ کم سونا اچھی بات ہے تو وہ بھی کہہ دے کہ میں تو بہت کم سوتا یا سوتی ہوں۔
ہم آسانی کے لیے بھی جھوٹ بولتے ہیں۔ مثلاً ہمالیہ پہاڑ سر کرنا اور بات ہے لیکن زبان سے یہ کہہ دینا کہ میں نے ہمالیہ سر کیا ہے اور بات ہے۔ میرے ایک دوست ہیں، اللہ نے اُنھیں اچھی زبان، اچھی شکل، اچھے ذہن سے نوازا ہے، لیکن وہ ضعفِ ارادہ اور بے عملی کا شکار اور شاہکار ہیں۔ ایک دن وہ اپنی دفتری کرسی پر براجمان تھے، دفتر کے لوگوں نے نمازِ جمعہ کے وقت اُن سے ساتھ چلنے کو کہا تو انھوں نے جواب دیا کہ میں نے نمازگھر سے آتے ہوئے راستے میں پڑھ لی ہے۔ اُن سے اچھی طرح واقف ایک صاحب نے حاضری کارڈ نکال کر کہا کہ یار تم نے ساڑھے بارہ بجے کارڈ پنچ کردیا تھا، جمعہ کی نماز کہاں پڑھ لی؟ یعنی نماز ادا کیے بغیر نمازیوں میں اپنا شمار کرنے کی کوشش میں اُنھوں نے جھوٹ بولا۔ جھوٹ میں بھی آدمی ترقی کی منازل طے کرتا ہے، مثلاً نمازِ فجر پڑھے بغیر یہ کہنا کہ میں باقاعدگی سے فجر پڑھتا ہوں۔ لیکن جھوٹ کی اگلی منزل یہ ہے کہ ہماری مسجد کے امام نمازِِ فجر میں بڑی اچھی قرأت کرتے ہیں، نماز کا بڑا مزا آتا ہے۔ یعنی نماز پڑھے بغیر نہ صرف نمازی ہوئے بلکہ خشوع و خصوع سے نماز پڑھنے والوں میں شمار بھی ہوگیا۔ پہاڑ پر چڑھے بغیر کوہ پیما بن جانا، نماز پڑھے بغیر نمازی شمار ہوجانا، دیانت داری کیے بغیر دیانت دار بن جانا جھوٹ نے کتنا آسان کردیا۔
کم ہمتی بھی جھوٹ کی وجہ بنتی ہے۔ ہم سے اگر کوئی غلطی ہوجاتی ہے تو ہم اُس کا اعتراف کرنے سے ڈرتے ہیں، اُس کی ذمہ داری قبول کرنے سے گھبراتے ہیں۔ مثلاً برتن دھوتے وقت شیشے کا گلاس پھسل کر ٹوٹ گیا، ہم نے ٹوٹا گلاس ایک طرف رکھ کر کہہ دیا کہ پہلے سے ٹوٹا ہوا تھا۔۔۔ یا ٹوٹے گلاس کو چھپا دیا۔۔۔ اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نقصان کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے۔
ناشکری بھی جھوٹ کی وجہ بنتی ہے۔ مثلاً ’’میرے پاس چار پہیوں والی گاڑی نہیں ہے‘‘۔ اور بعض لوگ جھوٹی شان کے لیے بتاتے ہیں کہ ’’ابھی بیٹا نیچے ڈراپ کرکے گیا ہے‘‘ یا ’’میں اپنا آئی فون گھر بھول آیا ہوں، یہ فون تو ملازم کا ہے۔‘‘
عموماً جھوٹ اور جھوٹے کو نظرانداز کرنا چاہیے۔ پردہ دری، جھوٹ کا پکڑنا، جھوٹے کو گھر تک پہنچانا کوئی اچھا عمل نہیں ہے اور نہ ہی اس سے اصلاح کا کوئی کام ہوسکتا ہے۔ یہاں ہم نے یاددہانی کے لیے جھوٹ کی شکلوں اور کرداروں کو بیان کیا ہے۔ بغیر رکاب کا سہارا لیے ایک ہی جست میں گھوڑے کی پشت پر سوار ہوجانے والے۔۔۔ تاریخ، حال اور مستقبل جن کا ہمیشہ قرض دار رہے گا۔۔۔ وہ حضرت عمرؓ کہتے تھے ’’میں نہ جھوٹ بولتا اور نہ دھوکا دیتا اور نہ فریب سے کام لیتا ہوں لیکن میں جھوٹ، دھوکے مکر وفریب کی ہر شکل سے واقف ہوں۔ آئندہ مضمون میں جھوٹ کے نقصانات اور اس سے جان چھڑانے کے طریقوں پر بات کی کوشش کروں گا۔ اللہ کہنے والے کو بھی عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ بلاشبہ جو کم یا زیادہ خیر ہم میں ہے وہ سب اللہ ہی کی عطا ہے۔
nn

حصہ