(زندگی امتحان لیتی ہے (صبا احمد

302

ابا جان عمران بھائی کی حرکات سکنات نوٹ کررہے تھے۔ ایک ہفتے سے وہ بہت خاموش اور پریشان تھے۔
ایک دن جب عمران بھائی گھر پر نہ تھے وہ اُن کے کمرے میں گئے، خوب اچھی طرح تلاشی لی، اُن کی موجودگی میں ہم تینوں بہن بھائیوں میں سے کوئی بھی عمران بھائی کے کمرے میں داخل نہیں ہوسکتا تھا اور نہ ابا جان کے کام میں مداخلت کی گستاخی کرسکتا تھا۔
ابا جان سیکرٹریٹ میں ملازم تھے۔ سینئر کلرک تھے، پھر کلرک بازی تو اُن کی طبیعت کا خاصا تھا، تو امی سمیت ابو کے غصے سے سب ڈرتے تھے۔ ابا نے ساری زندگی رزقِ حلال کمایا۔
عمران بھائی جس دن ابا جان کے مولا بخش کی زد میں ہوتے تو جو اس میں چھلانگ لگاتا، آبیل مجھے مار والا حساب ہوتا ہے، اس لیے سب کو ڈر لگتا تھا۔
گھر کرائے کا تھا، ہم تین بہنیں اور اکلوتا بھائی۔ ابا ہماری تعلیم کے ساتھ ساتھ بھائی کی تعلیم کی بہت فکر کرتے تھے۔ علاقہ میڈل کلاس سے نچلا تھا، مگر ابا کہتے کہ کیچڑ میں بھی کنول کھلتا ہے، ہمارا پڑوسیوں کے آنا جانا حسب ضرورت ہی تھا۔
گلی کے نکڑ پر پرچون کی دکان سمجھیں، تکیہ یا ہیڈ کوارٹر تھا نوجوان اور بوڑھوں کا۔ بڑے وہاں سے سگریٹ لیتے اور وہیں سُٹے لگاتے ہوئیسیاسی اور محلّے بھر کی خبروں پر تبصرے کے بعد اپنے گھروں کی راہ لیتے۔ ابا کو یہ سب پسند نہ تھا، وہ عمران بھائی کو وہاں بیٹھنے سے منع کرتے تھے، مگر عمران بھائی کے سر پر جوں نہ رینگتی تھی، وہ ضدی اور ڈھیٹ ہوتے جارہے تھے۔ ابا کو ان کی پڑھائی پر توجہ نہ دینے کی شکایتیں موصول ہورہی تھیں، اس لیے وہ بہت فکرمند تھے۔
آج ابا جب تلاشی کے بعد اُن کے کمرے سے آئے تو کافی پریشان تھے، ان کی الماری سے ہینڈگرنیڈ بم، پستول اور کسی یونیورسٹی کا نقشہ نظر آیا تھا۔ خودکش حملے کی ایک جیکٹ بھی ملی تھی۔ انکل جعفر جو قریبی ہی تھانے میں انسپکٹر تھے، ابا جان کے بہت گہرے دوست تھے، دو دن سے لگاتار ابا کو ملنے آرہے تھے، مگر جب ابا جان اُن سے ملنے تھانے گئے تو واپسی پر بہت پریشان تھے، وجہ پوچھی تو بولے:
لڑکیوں سے ایسی باتیں نہیں کی جاتیں۔
یہ کہتے ہوئے وہ کسی گہرے سمندر کی طرح پُرسکون تھے، لیکن ان کی پیشانی کی لکیریں بتارہی تھیں کہ آگے بڑا خطرہ ہے۔
ہمیں کچھ نہ بتایا، امی کو بتایا تھا اور امی دو تین دن سے نماز پڑھتے روتی، خاموش اور ہر وقت بے چین بے قرار پھرتیں اور عمران کو سمجھاتی کہ بیٹا، تمہیں کیا ہوگیا ہے۔ بھائی پہلے کی طرح امی سے چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے نہ ضد کرتے اور نہ پیسے مانگتے بلکہ پہلے سے زیادہ اچھے کپڑے پہنتے، بائیک بھی لے لی تھی۔ امی نے پوچھا تو بتایا کہ شام میں میڈیکل اسٹور پر پارٹ ٹائم کام کررہا ہوں۔ ہمارے لیے بھی اچھی اچھی چیزیں کھانے کے لیے لاتے اور کہتے کہ اب فکر نہ کرو، ہمارے بھی دن بدلیں گے ہم بھی اچھا سا گھر اچھی جگہ پر لیں گے، اس گندگی سے جان چھڑائیں گے۔
مگر جب منگل کے دن شام میں ابا آئے تو بہت تھکے اور بوجھل قدموں سے گھر میں داخل ہوئے اور امی کے پاس بیٹھے۔ چشمہ اتارا تو آنکھوں سے آنسوؤں کے تار بندھ گئے، میں ابا کے لیے پانی لے کر گئی تو ان کی یہ حالت دیکھ کر پاؤں تلے زمین نکل گئی۔
امی بھی رو رہی تھی میں نے امی سے پوچھا کیا ہوا تو۔۔۔پھر امی نے بتایا کہ اتوار کو تمہارے ابا نے عمران کے کمرے کی تلاشی لی تو اس میں سے بم اور دوسری چیزیں نکلیں، تمہارے انکل جعفر سب جانتے ہیں وہ ابا کی وجہ سے خاموش تھے، مگر اب پانی سر سے اوپر چڑھ گیا ہے۔ عمران بہت حد تک آگے بڑھ چکا ہے بجائے کہ وہ ملک و قوم کے اثاثوں اور بچوں کی زندگیوں سے مزید کھیلے، ماؤں کی گودوں کو اجاڑے، ابا نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ میں اپنی گود اجاڑدوں، جانے وہ کتنی زندگیوں کو دہشت گردوں کے ساتھ مل کر برباد کرے۔ میں خود اس کو پولیس کے حوالے کردوں۔ تمہارے ابا نے نیا گھر کرایہ پر لے لیا ہے، تم سب سامان پیک کرو، کل جارہے ہیں اور پرسوں رینجرز عمران کو پکڑ لے گی۔ تمہاری اور ہم والدین کی ’’سفر زندگی‘‘ اتنی دشوار گزار ہوگئی میں نے نہیں سوچا تھا۔ تم بہنوں کی شادیاں بھی کرنی ہیں، تمہارے ابا کی تربیت میری پرورش میں کیا کمی رہ گئی۔ ہم نے عمران کے لیے کیا کچھ نہیں کیا، آسائشیں دیں، کیا اس لیے کہ آپ اپنے دین و ملک کے خلاف ہوجائیں۔ عمران بھائی اتنے میں کمرے کے دروازے پر پہنچ چکے تھے۔ امی باتیں انہوں نے پوری نہیں سنیں، لڑکیوں کی شادی کی بات سن لی تھی، امی سے بولے کہ میں اپنی بہنوں کی شادیاں بڑے گھر میں بڑی دھوم دھام سے کروں گا۔
امی نے کہا کہ بیٹا ایمان داری اور حلال کی روزی سے عزّت کے ساتھ شادیاں کی جاتی ہیں، دھوم دھام سے نہیں، نہ بڑے گھر میں۔
امی آپ تو غربت میں ہی زندگی عزّت سے گزارنا چاہتی ہیں۔ عمران بھائی نے ناراضی سے کہا۔
بیٹا، تمہارے ابو بہت ناراض ہیں، تم غلط لوگوں میں بیٹھنا بند کرو۔ تمہارے جعفر انکل نے تمہارے ابا سے تمہاری شکایت کی ہے۔
چھوڑیں امی ان کو۔۔۔
عمران بھائی نے کہا اور اپنے کمرے میں چلے گئے۔
دوسرے دن ابا نے دفتر سے چھٹی کی، ٹرک والے کو بلایا اور سامان رکھوا کر دوسرے کرائے کے گھر میں لے گئے۔ سارا دن اسی میں لگ گیا۔ کچن اور گھر کا آخری سامان کا چکر جانا تھا، عمران بھائی نے کہا کہ میرے سامان کو کوئی ہاتھ نہ لگائے، میں اسی گھر میں رہوں گا۔ امی کے تو پاؤں کانپنے لگے۔ ابا بھی ڈگمگائے، مگر ہمت سے امی کو سنبھالا، ٹرک میں بٹھایا، ہم بہنیں بھی بیٹھ گئیں، ٹرک اسٹارٹ ہوگیا، ہم نئے گھر میں آگئے، مگر کھانے پکانے کا دل نہ چاہا۔ ابا نے کہا کہ بازار سے لادوں، مگر کھانے کو بھی دل نہ تھا، سو ہم نے منع کردیا۔ امی جائے نماز پر بیٹھی روئے جارہی تھیں، ابا سر پکڑ کر ایک طرف بیٹھے تھے۔
صبح کو انکل جعفر کا فون آیا کہ انہوں نے عمران بھائی کو گرفتار کرلیا ہے۔ تمام بم ہینڈ گرنیڈ قبضے میں لے لیے ہیں، اگر وہ ایسا نہ کرتے تو بھائی سے جو دہشت گرد حملہ کروا رہے تھے، کام مکمل ہونے کے بعد بھائی کو مروا دیتے۔ بھائی کی جان تو کسی بھی صورت میں جانی تھی۔ ابا نے انجینئرنگ یونیورسٹی کے طالب علموں کو بچالیا ہر وقت انکل جعفر کو اطلاع دے کر۔ ابا رو رہے تھے کہ قیامت کے دن میں اللہ تعالیٰ کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ وہ اکثر کہتے کہ عمران روزِ قیامت خدا کے سامنے مجھے سرخرو کرنا کہ میں نے تمہیں دین و دنیا کی تعلیم دی۔۔۔مگر اب وہ کہہ رہے تھے کہ تم نے مجھے شرمندہ کردیا، ناکام کردیا خدا کے سامنے میری زندگی ناکام ہوگئی، مگر میں نے مستقبل کے معماروں کو تو بچالیا، تمہاری اک جان پر ہزاروں کو ترجیح دی۔ کاش کہ تم انجینئر ہوتے، دہشت گرد نہ ہوتے۔
عمران بھائی کو عمر قید کی سزا ہوئی تو ابا نے کہا کہ باہر بھی تو لوگوں کے لیے خطرہ تھے، مگر جیل میں تو وہ کسی کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے، بھائی سے کبھی ملنے نہیں گئے، ہر نماز میں دُعا کرتے ہیں کہ یا اللہ رحم کر کسی کا بھی زندگی کا امتحان اتنا کٹھن مت لینا مجھے صبر جمیل عطا کر اور نیکی کا راستہ دکھاتے رہنا اور اس پر چلاتے رہنا۔۔۔
nn

حصہ