(وہ مشین درس کرنے گیا اور بھاپ کا انجن بنا ڈالا(محمد شبیر احمد خان

319

ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ معمولی مشینوں کی مرمت کرنے والا کوئی شخص اپنے کسی عجیب و غریب کارنامے سے تاریخ کا رُخ بدل دے۔ 1764میں گلاسگو، اسکاٹ لینڈ میں ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔
بھاپ کے انجن کا خیال یا خود انجن کوئی انوکھی چیز نہ تھی، ایسی مشینیں بن چکی تھیں، جو کوئلے کی کانوں سے پانی باہر نکالنے کے کام آتی تھیں اور بھاپ سے چلتی تھیں۔ ایک مرتبہ یوں ہوا کہ ایک مشین میں کچھ خرابی پیدا ہوگئی، جیمز واٹ (1736۔ 1819) سے کہا گیا کہ خرابی دُرست کردے۔ اس وقت واٹ کی عمر 28 برس تھی اور وہ لندن میں اوزار بنانے کے کام سیکھ چکا تھا۔
واٹ کو مشین درست کرنے میں کوئی مشکل تو پیش نہ آئی، لیکن مشین دیکھ کر اس کے دماغ میں بھاپ کے انجن کا وہ خیال تازہ ہوگیا جو تین برسوں سے آرہا تھا۔ مشین کا معائنہ غور سے کیا تو واٹ کو اندازہ ہوگیا کہ اس میں بھاپ بہت زیادہ خرچ ہوتی ہے، لہٰذا اسے کفایت شعاری سے نہیں چلایا جا سکتا۔ وہ مشین میں نئی نئی ترمیمیں سوچتا رہا تاکہ خرچ میں کمی کی صورت نکل آئے۔ سوچتے سوچتے اس پر حقیقت منکشف ہوئی کہ جو انجن اب تک بنائے گئے ہیں، ان میں سلنڈر (ابیلن) کے ذریعے ایک غیر ممکن کام انجام دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوگیا تھا کہ جمع شدہ بھاپ کا درجۂ حرارت بہ حالتِ عمل کم ہونا چاہیے البتہ سلنڈر کو اتنا ہی گرم ہونا چاہیے جتنی اس میں داخل ہونے والی بھاپ گرم ہوتی ہے۔ غرضیکہ اس نے ایک نئی چیز تیار کردی جس کا نام آلۂ تکثیف (کنڈنسر) ہے۔ اس نے پانی ٹھنڈا ہوتے رہنے کا انتظام کردیا، جب کہ سلنڈر کو بدستور گرم رہنے دیا۔
بعد میں اسی اصول کے مطابق جیمز واٹ نے نیا انجن بنایا۔ اس کا انجن کام یاب ہوگیا، کیوں کہ اس میں پہلے انجن سے ایک چوتھائی یا اس سے بھی کم بھاپ خرچ ہوتی تھی۔ واٹ نے اپنے انجن میں بعد ازاں مزید اصلاحات کیں اور بھاپ کے انجن کا موجد مانا گیا۔ اسی کے بنائے گئے انجن سے آگے چل کر بڑے کام لیے گئے۔
n n

حصہ