علم والوں کی شان (حافظ فضیل احمد خان)

285

پیارے ساتھیو! مسلمانوں نے علم اور عمل کے میدان میں ایسے کارنامے دکھلائے کہ دنیا حیران رہ گئی۔ جس کام کو اپنے ذمّے لیا، اسے بہت زیادہ ترقی دی۔ وہ علم کے بہت زیادہ چاہنے والے تھے۔ سلمان بن حربؒ ایک بڑے عالم گزرے ہیں۔ وہ بغداد کے ایک بڑے مقام پر علم کے متلاشیوں کو حدیثیں لکھوایا کرتے تھے۔ حدیث اس بات کو کہتے ہیں، جو ہمارے پیارے نبیؐ کی مبارک زبان سے نکلی ہو۔ اس محفل میں عام لوگوں کے علاوہ اُمرا اور رؤسا بھی شریک ہوتے تھے۔ ان کے شاگردوں کے علاوہ اور دیگر مہمانان کی تعداد ملاکر لگ بھگ 40 ہزار تک پہنچ جاتی تھی، جب کہ امام احمد بن حنبلؒ کے اُستاد یزید بن ہارونؒ کے درس میں 70 ہزار کے قریب حاضری ہوا کرتی تھی۔ مشہور ہے کہ ایک بار خلیفہ معتصم باللہ نے امام عاصم بن علیؒ کی جماعت کا اندازہ لگانے کے لیے اپنا ایک خاص نمائندہ بھیجا، جس نے وہاں پہنچ کر انہیں اطلاع بھجوائی کہ درس میں ایک لاکھ بیس ہزار افراد شریک ہیں۔ تیسری صدی ہجری میں یہ حالت تھی کہ ایک علمی مجلس میں دس دس ہزار دواتیں رکھی جاتی تھیں اور ایک ایک دوات سے کئی افراد فائدہ اٹھاتے۔
ایک دفعہ جنید بغدادیؒ نے فرمایا: ’’علم کی قیمت ہے، اس لیے قیمت لیے بغیر علم کسی کو نہیں دینا چاہیے‘‘۔ لوگوں نے پوچھا کہ بھلا علم کی قیمت کیا ہے؟ جنید بغدادیؒ نے فرمایا: ’’اس کا اُس شخص کے پاس رکھنا، جو خوبی کے ساتھ اس کا بوجھ اٹھائے، حفاظت سے رکھے اور اسے ضائع نہ کرے‘‘۔
ہارون الرشید کے زمانے میں حدیث کے ایک بہت بڑے عالم تھے، جن کا نام تھا عبداللہ بن عبدالمالکؒ ۔ امام سفیانؒ کے قول کے مطابق، وہ شرق و غرب کے عالم تھے۔ ان کے فضل، کمال اور پرہیزگاری کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ لوگوں میں ان کی اتنی عزت تھی کہ بڑے بڑے امیروں اور بادشاہوں کو بھی نصیب نہ تھی۔ ایک مرتبہ ایک مقام’’رقہ‘‘ پر تشریف لائے تو ہزاروں لوگ استقبال کے لیے جمع ہوگئے۔ اتفاق سے ان ہی دنوں ہارون الرشید بھی رقہ پہنچے ہوئے تھے۔ ان کی بیگم ملکہ زبیدہ برج کے جھروکے سے یہ سارا منظر دیکھ رہی تھیں۔ انہوں نے حیران ہوکر پوچھا: ’’اتنا ہجوم کس کے لیے جمع ہے؟‘‘ خادموں نے ادب سے بتایا کہ خراسان سے ایک عالم آئے ہوئے ہیں اور یہ سب لوگ ان کے احترام میں جمع ہیں۔ ملکہ زبیدہ بولی: ’’حکومت، حقیقت میں اسی کا نام ہے۔‘‘
پھولوں کی دنیا کے پیارے ساتھیو! اُس زمانے میں آج کی طرح پریس نہ تھا، اس لیے کتابیں سستی نہیں تھیں۔ ہر ایک کے پاس کتابوں کا اپنا ذخیرہ ہوتا تھا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ علم سے کتنی محبت کرتے تھے۔ ان کا سب سے اچھا ساتھی اور سب سے عمدہ لباس علم ہی تھا۔ اُس زمانے میں سفر کی اچھی سہولتیں بھی میسر نہ تھیں۔ مختلف علوم حاصل کرنے کے لیے دور دراز جگہوں کا سفر کرنا پڑتا تھا، مگر علم کے متلاشیوں کو ہزاروں میل کا سفر بھی مشکل نہ لگتا۔ ابوالعباس رازیؒ پیدائشی نابینا تھے، مگر انہیں علم سے لگاؤ گھر بیٹھنے نہ دیتا تھا، چناں چہ حدیثوں کے سننے کے شوق میں گھر سے روانہ ہوئے اور بلخ، بخارا، نیشاپور اور بغداد کا مشکل سفر طے کیا ۔ آخرکار حدیث کے عالم بن کر وطن لوٹے۔
علم کے شوق کے ساتھ ساتھ استاد کے مقام کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جاسکتا ہے، جب امام نصر بن شمیلؒ بصرہ سے خراسان کی طرف روانہ ہونے لگے تو لُغت عروض اور حدیث کے تین ہزار عالموں نے انہیں الوداع کہا۔ یہ سب ان کے شاگرد تھے ۔
nn

حصہ