شو خیاں ہُما عثمان۔۔۔ ملک الموت آئے تھے

238

 ایک دفعہ شوکت تھانوی سخت بیمار پڑے، یہاں تک کہ ان کے سر کے سارے بال جھڑگئے۔ دوست احباب ان کی عیادت کو پہنچے اور بات چیت کے دوران ان کے گنجے سر کو بھی حیرت سے دیکھتے رہے۔ سب کو متعجب دیکھ کر شوکت تھانوی بولے: ’’اس طرح کیا دیکھ رہے ہو بھائی۔۔۔ ملک الموت آئے تھے، صورت دیکھ کر ترس آگیا، بس سر پر ایک چپت رسید کرکے چلے گئے‘‘۔
**
پان کھانے کی مشین
علامہ کیفی کو مشاعرے کے اختتام پر ایک صاحب نے پان پیش کیا، اُس وقت کیفی صاحب مصنوعی دانت لگائے ہوئے نہیں تھے، انہوں نے پان لینے سے معذرت کی اور کہا:
’’معاف کیجیے گا برادر، اس وقت پان کھانے کی مشین نہیں ہے‘‘۔
ماتحتوں کو ڈانٹنے والے کی زندگی۔۔۔
ایک صاحب اکثر دیر سے گھر آتے، بیگم خوب ڈانٹتیں۔ بیگم کے سامنے تو بس نہیں چلتا تھا۔ دفتر آکر اپنے ماتحتوں پر خوب غصہ نکالتے۔ اسی طرح وقت گزرتا رہا۔ ایک دن ان صاحب کے ایک دوست نے جو خاصے بے تکلف تھے، ان صاحب سے پوچھا: ’’کیا حال ہے؟‘‘
’’ٹھیک ہوں۔۔۔‘‘
’’زندگی کیسی گزر رہی ہے؟‘‘
’’بس ڈانٹ ڈپٹ کے سہارے گزر رہی ہے‘‘۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’ مطلب واضح ہے۔ جب گھر جاتا ہوں تو بیگم ڈانٹ دیتی ہیں اور پھر میں بھی ڈپٹ دیتا ہوں‘‘۔
’’اپنی بیگم کو؟‘‘
’’ارے کہاں، اپنے ماتحتوں کو‘‘۔

حصہ