(قومی کی بیٹی عافیہ صدیقی(ربیعہ محمود جامعہ المحصنات کراچی)

205

پولیس نے افغانستان میں ایک مشتبہ خاتون کو گرفتار کیا، جس کے پاس بم بنانے کے طریقوں پرمشتمل کچھ دستاویز اور اہم امریکی مقا مات کے نقشے بھی تھے اور بوتلوں میں دھماکا خیز مواد بھی برآمد ہوا۔۔۔۔۔بعد ازاں اسی خاتون نے ایک امریکی کیپٹن کا اسی کی بندوق سے نشانہ بنایا اور دو فائر کیے، جو خطا ہو گئے ۔۔۔۔!!!!!
یہ وہ اسکرپٹ تھا، جو اس وقت بیا ن کیا گیا جب۔۔۔نو مسلم صحافی ایوان رڈلے نے عافیہ صدیقی کے بلگرام جیل میں ہونے کاانکشاف کیا ۔۔۔۔ امریکا نے خیال کیا کہ اس کہ اس خود ساختہ بیان پر تمام مسلم دنیا آنکھ بند کر کے یقین کر لے گی۔۔۔۔ اپنی طاقت کے نشے میں مست امریکا نے ایک معصوم عورت کو دنیا کی خطرناک ترین انسان اور۱۱/۹ کا اہم محرک قرار دیا۔۔۔۔۔
عافیہ صدیقی قوم کی بہادر اورجّری بیٹی ۱۹۷۲ میں پیدا ہوئی۔۔۔۔ ماسٹرز کی ڈگری جامعہ کراچی سے حاصل کی اور بوسٹن سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، وہی عافیہ صدیقی حکمرانوں کی بے حسی کی بھینٹ چڑھی۔
عافیہ صدیقی کی ذہانت اورٹیلنٹ اس کے لیے سزا کا سرٹیفیکیٹ بن گیا۔ ۲۰۰۳ میں عافیہ صدیقی کو ان کے گھر کے نزدیک سے اغوا کیا گیا اور یہ کام اس وقت کے صدر پرویز مشرف کی ایما پر کیا گیا، جسے انہوں نے اپنی کتاب IN THE LINE OF FIRE میں تسلیم بھی کیا۔ بعد ازاں، اسے کراچی سے بلگرام جیل منتقل کیا گیا۔۔۔ یہ وہ جیل ہے، جہاں اسلام کی امین اور حیا کی پیکر اس بیٹی پر بد ترین ذہنی اور جسمانی تشدد کیا گیا۔۔۔۔۔ کئی بار اسے جنسی زیادتی کا شکار بنایا گیا۔۔۔۔
عافیہ صدیقی پر ڈھائے گئے مظالم کی فہرست اگر بیان کی جائے تو ہر آنکھ اشک بار ہوجائے اور ہر دل درد محسوس کرے، لیکن امریکا جو خود کو انسانی حقوق کا علم بردار کہتا ہے، معصو م وپاکیزہ خاتون پر انسانیت سوز مظالم ڈھاتے ہوئے اپنے خدمت خلق کے دعوے بھول گیا۔۔۔۔
کتاب’’امت کی بیٹی عافیہ صدیقی‘‘ کے مطابق ٹینا فوسڑ نے ۲۰۱۰ میں ریجینٹ پلازہ میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
’’ ڈاکٹر عافیہ پر مقدمے کا امریکی قانون میں کوئی جواز نہیں‘‘۔ جب کہ عافیہ صدیقی کے لیے سب سے پہلے آواز اٹھانے والی صحافی مریم ایوان رڈلے نے کہا تھا کہ حکومت پاکستان نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی واپسی کے لیے امریکی حکومت سے مطالبہ نہیں کیا، پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور حسین حقانی پاکستانی قوم کو بے وقوف بنا رہے ہیں ۔
نو مسلم صحافی کے اس بیان پر بھی پاکستانی حکم رانوں کی غیرت نہ جاگی۔۔۔ بلکہ پاکستانی حکم رانوں کی غیرت نے اپنی معصوم بہن اور قوم کی بیٹی کو اغیار کے انسانیت سوز مظالم سہتے دیکھا اور چپ کی بکل مار لی پرویز مشرف سے لے آصف علی زرداری تک صرف تماش بین کا کردار اداکیا گیا۔۔۔۔۔ پیپلز پارٹی کا دور اپنے اختتام کو تھا، جب نواز شریف نے ۲۰۱۳ میں انتخابات مہم کے دوران یہ وعدہ کیا کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کو واپس لائیں گے۔۔۔۔ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے۔ عافیہ صدیقی، جسے بے بنیاد الزامات لگا کر دس سال کبھی بلگرام جیل اور کبھی گوانتا ناموبے میں دل کو دہلا دینے والی اذیتوں سے دوچار کیا گیا۔
اور آخر کار اس کے ناکردہ جرائم کی سزا۔۔۔۔۸۶ برس قید کے طور پر سنائی گئی۔۔۔ ان تمام مظالم کو ہمارے حکم رانوں نے نہ صرف خندہ پیشانی سے برداشت کیا بلکہ اسی امریکا سے اپنے تعلقات بحال رکھنے کی سر توڑ کوششیں بھی جاری رکھیں ۔۔۔۔
حکم رانوں نے ڈاکٹر عافیہ کے ایشو کو محض ووٹ وصولی کا ذریعہ بنایا اور یوسف رضاگیلانی کے دور سے لے کر نواز شریف حکومت کے چار سالوں میں عملی طور پر کوئی دستاویز سامنے نہ لائی جاسکی، جس میں عافیہ کی رہائی کے حوالے سے کوئی مطالبہ کیا گیا ہو ۔۔۔۔ نواز شریف کی حکومت کا ایک سال باقی رہ گیا ہے۔۔۔ لیکن ان چار سالوں میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نواز شریف یہ بھول چکے ہیں کہ انہیں اسلام پسند طبقے کے ووٹ کا ایک بڑا حصہ اسی وعدے کے سبب ملا تھا کہ وہ۔۔۔۔ قوم کی بیٹی کو پاکستان لائیں گے۔۔۔۲۰۱۳ میں جب شکیل آفریدی کے بدلے عافیہ کی واپسی کا معاہدہ کرنے کی امریکی کوشش کی گئی ۔۔۔تو اس وقت حکومت نے یہ بیان دیا کہ وہ عافیہ کو مجرموں کہ تبادلے میں واپس نہیں لائیں گے، لہٰذا یہ معاہدہ ہمیں منظور نہیں ۔۔۔
اب۲۰۱۷ کا سورج بھی طلوع ہوچکا ہے، لیکن یہ نہ بتایا جاسکاکہ اس کہ بعد حکومت نے عافیہ کو رہائی دلوانے کے لیے کیا کوشش کی۔ جب ڈاکٹر عافیہ کے اہل خانہ میں سے کسی نے حکومت سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو مختلف حیلوں اور بہانوں سے انہیں ٹالنے کی کوشش کی گئی۔۔۔۔کبھی حکومتی عہدے داروں نے وعدہ کیا کہ تین ماہ میں عافیہ کو وطن واپس لایا جائے گا، کبھی خطوط لکھنے کا مشورہ دیا گیا اور کبھی طفل تسلیوں پر پر بہلا دیا گیا۔۔۔۔ لیکن نتیجہ کبھی سامنے نہ آسکا۔ چند دن قبل فوزیہ صدیقی نے سراپا سوال بنے اپنے بیان میں وزیر اعظم سے پوچھا کہ ’’حکومت پاکستان شکیل آفریدی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے تو تیار ہے لیکن طارق فاطمی نے یہ نہیں بتایاکہ حکومت نے بے گناہ عافیہ کے لیے کیا راستہ اختیار کیا ہے ؟‘‘
بارک اوباما نے خواتین قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے پیش کش کی تھی کہ وہ خواتین جو قتل کے علاوہ جرم میں گرفتار کی گئی ہیں، اگر کوئی ادارہ یا فر ان کا ضا من بنے تو انہیں رہا کر دیا جائے گا۔ امریکی صدر کی اس پیشکش سے کوئی فائدہ نہ اٹھا یا گیا….نہ ہی بارک اباما کے وائٹ ہاؤس چھوڑنے سے قبل قیدیوں کے معاف کرنے کے اختیار کو عافیہ صدیقی کے حق میں استعمال کیا گیا۔ ڈاکٹر عافیہ کے امریکن وکیل (اسٹیفن ڈانز) سے رابطہ کر کے دیگر قانونی راستوں سے عافیہ کو وطن واپس لانے کی سنجیدگی سے کوئی کوشش نہیں کی گئی….
موجودہ حکومت بھی اپنا اقتدار پورا کر چکنے کو ہے، لیکن عافیہ کے وطن واپسی کی کوئی سبیل نظر نہیں آرہی، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ… عافیہ صدیقی کو واپس لانے کا وعدہ کر کے ووٹ بینک میں اضافہ کرنے والی نواز حکومت اسی وعدے کے ساتھ نئے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کوشاں ہے…. یا موجودہ سال میں اپنے بھولے بسرے وعدے کو ایفا کرنے کی کوئی ٹھوس اور عملی کوشش کی جائے گی…..قوم سراپا سوال ہے کہ وہ کون سے ذرائع ہیں، جو عافیہ کو واپس لانے کے لیے حکومت بروئے کار لارہی ہے اور اس حوالے سے کیے جانے والے معا ہدوں کی دستاویزات قوم اور میڈیا کے سامنے کیوں نہیں لائی گئیں۔
حکومت ان تمام باتوں کا جواب اپنے عمل سے دے گی یا پھر اب بھی اس معاملے میں خاموشی تان رکھے گی….؟؟ خاموشی کا یہ طویل سلسلہ جو گذشتہ کئی برسوں سے لے کر آج تک جاری ہے، قوم کو یہ باور کرا رہا ہے کہ عافیہ ہماری عزّت اور قوم کی بیٹی نہیں بلکہ ایک مہرہ ہے، جسے انتخابات کی بساط پر ہر دفعہ بچھایا جاتا ہے اور اس کے ذریعے حکومت کے شطرنج کو کام یابی سے کھیلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ قوم اپنی اس بہادر اور با حیا بہن پر ڈھائے جانے والے مظالم کا حساب کس سے لے یا خاموش تماشائی بنے۔۔۔ حکمرانوں سے سوال ہے ….؟؟؟
اسلام کی بیٹی پر ظلم کی رات ابھی مزید طویل ہے ۔۔یا….. پاکستانی حکم راں اسے ظالموں کے چنگل سے چھڑا لیں گے…….
ٹوٹ جائے گی دیوار زنداں نعیم
یاصید آئے گا خود زیر دام عافیہ
nn

حصہ