(لہو میں بھیگے دریہ آنچل (افشاں نوید

323

تم تو جدا بھی ایسے موسموں میں ہوئے کہ ہم تمہیں پھولوں کا کفن بھی نہ دے سکے۔ اس لیے نہیں کہ درختوں کے ہاتھ خالی تھے، بلکہ اس لیے کہ جس قوم کے حکمران، قوم کو بیچ منجدھار میں چھوڑ کر قومی وسائل سے اپنی ذاتی جائدادیں بنانے اور کاروبار کو ترقی دینے لگیں وہاں کے درختوں پر کاغذی پھول اور فصلوں میں بھوک اگتی ہے۔ برہان وانی۔۔۔ سنا ہے کہ تمہارے مقدس جسدِ خاکی کو پاکستانی جھنڈے میں لپیٹ کر لحد میں رکھا گیا اور تمہارا جسدِ خاکی پکار اٹھا کہ
تدفین میرے جسم کی ہو جائے گی لیکن
تم کیسے اتارو گے میرے خواب لحد میں
اور تمہاری قبر کے اوپر پاکستانی جھنڈا لہرا دیا گیا۔ سنو! جب وہ جھنڈا لہراتا ہے تو سرحد پار سے پاکستان کا سلام لاتا ہے تمہارے لیے۔ اس لیے کہ ہوائیں اور جذبے تو سرحدوں کے محتاج نہیں ہوا کرتے!! وہی پاکستان جس سے محبت کشمیریوں کی طرح تمہارے لہو میں بسی ہوئی تھی، جس کی مٹی کو چومنے کے خواب تم اپنی جاگتی آنکھوں سے دیکھتے تھے، اور ان خوابوں کی تکمیل کی دھن نے تمہیں رت جگے تحفے میں دے دیئے تھے۔ یقین جانو ہم بیس کروڑ پاکستانی بھی اپنی نسلوں کو یہی خواب منتقل کررہے ہیں کہ
میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے ایک دن
ستم شعاروں سے تجھ کو چھڑائیں گے ایک دن
لیکن شومئی قسمت کہ ہمارے حکمران اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں ہی مصروف رہتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کی تکمیل و سلامتی کی جنگ تو چنار کے اس پار بھی لڑی جارہی ہے۔۔۔ کتنی بڑی قیمت ہے جس کو ادا کرنے کے لیے اب وہاں کی تیسری نسل جوان ہورہی ہے۔ نوجوان برہان وانی کے لہو نے آزادی کی تحریک کو ایندھن دے کر اس کی لَو کو اور فروزاں کردیا۔ تاریخ میں رقم ہورہا ہے، سرحد کے ایک طرف عزیمت کی تاریخ ہے اور دوسری جانب بے حمیتی کی۔ وہ یقینِ محکم اور عمل پیہم سے معمور مجاہدین سونا اگلتی زمین کو خون سے سینچ رہے ہیں۔ روز گمنام قبروں میں اضافہ ہورہا ہے۔ قبرستان آباد اور بستیاں ویران ہورہی ہیں۔
کسی لغت میں ’’ہاف ویڈو‘‘ (Half Widow) کا ترجمہ درج نہیں۔۔۔ سوچیں ذرا بیوگی کبھی نصف ہوسکتی ہے؟ یہ ان عورتوں سے پوچھیں جن کے شوہر سالہا سال سے لاپتا ہیں۔ وہ کسی ٹارچر سیل میں ہیں یا کسی گمنام قبر کو آباد کرچکے ہیں۔۔۔ یہ کون بتائے اور کیوں بتائے؟ لہٰذا این جی اوز اپنی رپورٹوں میں ’’ہاف ویڈو‘‘ یعنی نصف بیوہ کی اصطلاح استعمال کرتی ہیں۔ وہ نصف بیوائیں جن کی زندگی میں ہر دن کا سورج بچوں کو یہ تسلی دیتے ہوئے غروب ہوجاتا ہے کہ ’’میرے چاند۔۔۔ بس انتظار ختم ہونے والا ہے۔ تیرے بابا ضرور آئیں گے‘‘۔ ان کی یہ قربانی نظریۂ پاکستان کے لیے قربانی ہے اور ان کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ہر سال 14 اگست کو سری نگر سمیت کئی شہروں میں پاکستانی پرچم لہرایا جاتا ہے، جبکہ 15 اگست بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر سیاہ پرچم لہرا کر دنیا کو کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ عمر میں ضعیف مگر عزائم میں جواں پُرعزم سید علی گیلانی اور دیگر کشمیریوں کا باربار جیل جانا اور عوامی جلسوں میں ’’تیرا میرا رشتہ کیا۔۔۔‘‘ اور ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے لگوانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کتنے مخلص ہیں۔ لیکن پاکستان کی موجودہ حکومت یا تو تجارت میں سنجیدہ نظر آتی ہے یا صنعت کاری میں۔ اور فی الوقت تو پاناما کے صحرا سے دیانت کی سوئیوں کی تلاش میں پوری حکومتی مشینری مصروفِ عمل ہے۔۔۔ بھارت کا تو مفاد ہی اس میں ہے کہ مسئلہ کشمیر حل نہ ہو۔ جب کہ اس مسئلے کے حل نہ ہونے کا نقصان سراسر پاکستان کو ہے۔ اس سے بڑا نقصان کیا ہوگا کہ پاکستان سے الحاق کا خواب دیکھنے والی آنکھوں کی بینائی انڈین فوج پیلٹ گنوں کے ذریعے چھین رہی ہے۔ ایک طرف وہ کاروبار اور بچوں کی تعلیم کی تباہی، بینائی سے محرومی، ٹارچر سیلوں، عورتوں کی عصمت دری، رات دن کے کرفیو کا عذاب جھیل رہے ہیں، دوسری طرف پاکستان سے ان کو جو امیدیں وابستہ تھیں وہ مجروح ہورہی ہیں، کیونکہ دونوں طرف کے حکمران یہ چاہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال کر روابط بڑھائے جائیں۔
آج جب کہ ہم ملک میں یوم یکجہتی کشمیر منا رہے ہیں تو اس کا مقصد کچھ جلسوں، جلوسوں، ریلیوں، ہاتھ کی زنجیروں، دھواں دھار تقریروں، مودی کے پتلے جلانے، اور انڈیا کے خلاف نعرے لگانے سے حاصل نہیں ہوگا۔ بلکہ عوامی سطح سے ایک پیغام کے ساتھ سفارتی سطح پر ساری دنیا کو یہ پیغام دیا جائے کہ جب تک بھارت کشمیر پر اپنا ناجائز قبضہ برقرار رہے گا تب تک دوستی تو دور کی بات، ہمسایوں والے معمول کے تعلقات بھی بحال نہیں ہوسکتے۔ اور خطہ میں امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ خود بھارت اور اس کی دہشت گردی ہے۔ اس کی سات لاکھ فوج روز و شب مقبوضہ وادی میں دہشت گردی کی المناک داستانیں رقم کررہی ہے۔ اور دہشت گردی پاکستان سے نہیں ہوتی بلکہ انڈیا کی دہشت گردی اور علاقے پر بالادستی کے خواب نے پاکستان کے مسائل و مصائب میں اضافہ کررکھا ہے۔ بھارت کو افغانستان میں اڈے بنانے کا موقع ملا۔ کہنے والے تو کہتے ہیں کہ اس وقت ملک میں مسائل کا جو عفریت ہے، چاہے وہ امن و امان کا فقدان ہو، تخریب کاری ہو، خودکش حملے ہوں، یا امریکی گیڈر بھبکیاں، بھارت سے آبی جنگ کا خوف ہو یا بجلی، گیس کی صورت میں توانائی کا بحران۔۔۔ ان سب کی وجہ مسئلہ کشمیر سے بے اعتنائی ہے۔ جس طرح پاکستان نے جذبۂ جنون کے ساتھ اپنے ایٹمی پروگرام کو کامیاب کیا اور دنیا نے پاکستان کو ایٹمی طاقت مانا، مسئلہ کشمیر کی اہمیت بھی ایٹمی پروگرام کی سطح پر محسوس کی جانی چاہیے تھی۔ پاکستان کی کمزور خارجہ پالیسی نے انڈیا کو جارحیت کا موقع فراہم کیا ہے، کیونکہ جب سرحدیں پامال کی جارہی ہوں تو خاموشی اور مصلحت پسندی، اور دوستی کی خواہش جرم بن جاتی ہے۔ وہ دوستی کا خواہش مند ہے اور ہماری منڈیوں میں موسٹ فیورٹ نیشن کے طور پر داخل ہونا چاہتا ہے، لیکن مسئلہ کشمیر، سیاچن اور پانی کے تنازعات پر بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اس نے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے کشمیر میں درجنوں ڈیم تعمیر کردیے ہیں۔ کوہ ہمالیہ کے دامن میں درجنوں ڈیم تعمیر کیے جا رہے ہیں تاکہ دریائے سندھ پاکستانی زمینوں کو سیراب کرنے کے قابل نہ رہے۔ قاضی صاحب کی تحریک پر 5 فروری 1990ء سے آج تک یہ دن پاکستان میں ایک تاریخی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ حکومت عملاً کشمیر کاز کے لیے کچھ نہ بھی کرے مگر اس دن پاکستانی قوم ضرور چنار کے اُس پار اپنے کشمیری بہن بھائیوں کو یہ پیغام بھیجتی ہے کہ ہم ان کی قربانیوں سے واقف ہیں، ان کے جذبۂ حریت کو سلام پیش کرتے ہیں، ہم سب ایک ہی راہ کے راہی ہیں اور آزادئ کشمیر ہماری منزل ہے۔ پاکستانی قوم شہیدانِ وفا کے خون سے غداری کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔۔۔ وہ ایک لاکھ لوگ جو اپنی جانیں اللہ کے حضور پیش کرکے ہمیں مقروض کرکے جا چکے ہیں کہ اب ہم اس قرض کو کس طرح چکاتے ہیں، کشمیری بیٹیاں سوال کرتی ہیں کہ دخترانِ ملت کی عصمتیں تار تار کرنے والوں سے دوستی کیوں کر نبھائی جا سکتی ہے؟ برہان مظفر وانی کی شہادت نے ساری دنیا کو متوجہ کیا کہ مقبوضہ وادی میں حیدر کرار کی تلوار، خالد کی للکار اور طارق بن زیاد کی یلغار اس وقت بھی زندہ ہے۔ عالمی میڈیا چشم پوشی کرے تو کرے، کشمیری اپنی آزادی کی جدوجہد کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھ کر لہو دے رہے ہیں، لیکن کشمیر آزاد تب ہی ہوگا جب حقیقتاً پاکستان آزاد ہوگا۔
ایک وقت تھا جب سلیم ناز بریلوی کے ترانے جہادِ کشمیر کو زندہ رکھے ہوئے تھے۔ اب جہاد کا میدان انٹرنیٹ ہے اور تلوار کی جگہ ’’کی بورڈ‘‘ نے لے لی ہے۔ اب سید علی گیلانی کی تقریروں کے ساتھ برہان وانی کی تصویریں اور کشمیریوں کا لہو اس شمع آزادی کو روشن رکھے ہوئے ہے۔ کشمیری پاکستان سے عہد نبھا رہے ہیں، جانوں کی قربانیاں پیش کررہے ہیں۔ 5 فروری کا ایک ہی سوال ہے کہ ہم اہلِ پاکستان اور ہمارے حکمران کہاں کھڑے ہیں؟ قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ سے مماثلت دے کر نہ صرف اس کی اہمیت اجاگر کی تھی بلکہ یہ قرض چھوڑا تھا ہم پر کہ ہم اپنی شہہ رگ کو پنجۂ ہنود سے آزاد کرانے کے لیے کیا کچھ کرسکتے ہیں اور کہاں تک جا سکتے ہیں۔۔۔! اس وقت تو ہمارے شب و روز ہی نہیں، ہمارے خواب بھی شرمندہ ہیں کہ ہم شہیدانِ وفا کے لہو کے ساتھ بحیثیت قوم وفا نہ کر سکے۔۔۔ بقول محسن نقوی
خزاں کے موسم کی سرد شامیں
سراب یادوں کے ہاتھ تھامے
کبھی جو تم سے حساب مانگیں
مایوسیوں کے نصاب مانگیں
بے نور آنکھوں سے خواب مانگیں
تو جان لینا کہ خواب سارے
میری حدود سے نکل چکے ہیں
تمہاری چوکھٹ پہ آ رُکے ہیں
مسافتوں سے تھکے ہوئے ہیں
غبارِ راہ سے اٹے ہوئے ہیں
تمہاری گلیوں میں چپ کھڑے ہیں
کچھ اس طرح سے ڈرے ہوئے ہیں
سوالی نظروں سے تک رہے ہیں
تمہاری چوکھٹ پہ جانے کب سے
جبیں جھکائے ہوئے کھڑے ہیں

حصہ