(طلبہ یونین کی بحالی وقت کی ضرورت(سید تاثیر مصطفی

217

پاکستان میں سوچنے سمجھنے والے بعض حلقوں میں طلبہ یونین کی بحالی کی آواز اٹھی ہے اور اس پر ابتدائی مکالمے کا بھی آغاز ہوا ہے۔ سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے سب سے پہلے سینیٹ میں یہ آواز اٹھائی اور طلبہ یونین کو ایک مثبت ادارہ قرار دیتے ہوئے اس کی بحالی کی جانب حکمرانوں کی توجہ دلائی۔ راقم نے اُس وقت بھی اس معاملے پر جناب رضا ربانی کے خیالات کی تائید کی تھی اور اسے بڑھانے کی بات کی تھی۔ مگر یہ معاملہ پہلے کچھ عرصہ دبا رہا، اب حال ہی میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل افیئرز (پائنا) نے لاہور میں ایک مکالمے کا اہتمام کیا، جس میں سابق طالب علم رہنماؤں، ماضی میں طلبہ یونینوں کے منتخب عہدیداران، ارکانِ پارلیمان اور دانش وروں نے شرکت کی اور اس بات پر اتفاق کیا کہ طلبہ یونین کی بحالی وقت کی اہم ضرورت ہے، اس پر پابندی سے نوجوان قیادت کے آگے آنے کا عمل رک گیا ہے اور ملکی سیاست پر متحرک سیاسی کارکنوں اور جمہوری عمل سے گزرے ہوئے پڑھے لکھے نوجوانوں کے بجائے صنعت کاروں اور سابق جرنیلوں کا غلبہ بڑھتا جارہا ہے۔ جب کہ سیاست اور پارلیمنٹ میں آنے والوں کی ایک بڑی تعداد پہلے ہی جاگیردارانہ پس منظر کی حامل اشرافیہ تھی۔ تاہم اس مکالمے میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ حکومت اس معاملے کے تمام پہلوؤں پر تفصیل سے غور کرے۔ طلبہ سیاست میں در آنے والے تشدد اور دوسرے جرائم کے طلبہ یونینوں میں شامل ہوجانے کے امکانات کی روک تھام کرے اور ایسے ضابطے بنائے کہ صرف صاف ستھری اور طلبہ کے حقوق کی جدوجہد پر مبنی طلبہ سیاست ہوسکے۔ حکومت اِن ضوابط پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔
اس مکالمے کا اہتمام پائنا کے صدر معروف صحافی اور ماہنامہ اردو ڈائجسٹ کے مدیر جناب الطاف حسن قریشی نے کیا تھا جنہیں اسلامی جمعیت طلبہ کے تاسیسی ارکان میں شامل سمجھا جاتا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین سے قومی سطح کی شہرت پانے والے اور اسلامی جمعیت طلبہ سے تحریک استقلال، وہاں سے مسلم لیگ جونیجو، پھر مسلم لیگ نواز اور پھر تحریک انصاف کے بعد سینئر سیاست دان کا لقب پانے والے جاوید ہاشمی مرکزی مقرر تھے۔ پیپلزپارٹی پنجاب کے ایک معتدل رہنما اور پنجاب یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے لیے لیفٹ اینڈ لبرل الائنس کے اُس وقت کے صدارتی امیدوار غلام عباس، معروف صحافی اور اسٹوڈنٹ ایکٹیوسٹ سجاد میر اور رؤف طاہر بھی مقررین میں شامل تھے، جب کہ نامور صحافی اور زمانۂ طالب علمی میں گورنمنٹ کالج ساہیوال اسٹوڈنٹس یونین کے صدر رہنے والے مجیب الرحمان شامی بھی محفل کو گرمانے کے لیے موجود تھے۔
قائداعظم لائبریری باغ جناح میں ہونے والی اس گرما گرم مکالماتی نشست میں کسی کو طلبہ یونین کی بحالی پر اعتراض نہیں تھا، سب اسے وقت کی ضرورت قرار دے رہے تھے۔ مگر سب ان خدشات اور وسوسوں کا شکار تھے کہ کہیں یہ نیکی قوم کے گلے ہی نہ پڑ جائے اور طلبہ یونین کی بحالی کے بعد طلبہ کے درمیان تشدد کا ایک نیا سلسلہ نہ شروع ہوجائے، کیونکہ موجودہ صورت حال میں جدید اسلحہ کے آنے کے بعد یہ انتہائی خطرناک اور نقصان دہ صورتِ حال ہوگی۔ چنانچہ شرکاء نے بعض ضابطوں اور پابندیوں سے اس بحالی کو مشروط کیا۔
صدر جنرل ضیاء الحق کے دورِِ اقتدار کے آخری برسوں میں پاکستان کے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین پر پابندی لگائی گئی تھی جو تاحال جاری ہے۔ ایک سینئر صحافی کے مطابق گورنر سرحد لیفٹیننٹ جنرل (ر) فضل حق کے جلسے میں طلبہ کی طرف سے کی جانے والی ہنگامہ آرائی کے بعد یہ پابندی لگائی گئی ہے۔ نہ کسی نے حکومت کے اس جابرانہ اور غیرجمہوری اقدام کو عدالت میں چیلنج کیا کہ محض ایک جلسے میں ہنگامے پر پورے ملک کی طلبہ یونین پر پابندی کیسے لگائی جا سکتی ہے، اور وہ بھی تحقیقات اور تفتیش کے بغیر! اس اقدام میں سب سے افسوسناک پہلو یہ تھاکہطلبہ یونینز کو بند کردیا گیا لیکن طلبہ تنظیمیں کام کرتی رہیں۔ چنانچہ جس طلبہ تنظیم کا جہاں زور چلا اُس کی وہاں حکمرانی اور اجارہ داری ہوگئی۔ یہ سب کچھ کسی مینڈیٹ اور استحقاق کی بنیاد پر نہیں، محض طاقت اور مقبولیت پر ہوا۔ بعض تعلیمی اداروں میں ان طلبہ تنظیموں کے دفاتر بھی قائم ہوئے اور ان کے پروگرام بھی چلتے رہے۔ یہ تعلیمی اداروں میں مداخلت بھی کرتی رہیں اور اپنی اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق طلبہ کی فلاح و بہبود کے کام بھی کرتی رہیں۔ اس عرصے کے دوران مسلم لیگ جونیجو کے علاوہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی کئی بار حکومتیں بنیں۔ صوبوں میں ایم ایم اے اور بعض دوسری جماعتوں نے حکومتیں بنائیں۔ ہر حکومت میں نامور سابق طالب علم لیڈر شریکِ اقتدار رہے، مگر کسی نے طلبہ یونین کی بحالی کے بارے میں نہیں سوچا۔ شاید اقتدار پر قابض اصل قوتوں نے انہیں اس جانب توجہ نہیں دینے دی یا وہ خود طلبہ سیاست سے خوفزدہ تھے۔ چنانچہ ایک غیر منتخب فوجی حکومت کے فیصلے کے باعث طلبہ اپنے جمہوری و آئینی حق سے تیس سال سے محروم چلے آرہے ہیں۔ اس دوران تعلیمی اداروں میں ایسا ایسا تشدد ہوا، ایسے ایسے دہشت گردانہ واقعات رونما ہوئے اور بعض جگہوں پر ایسے ایسے جرائم پروان چڑھتے رہے جن کا طلبہ یونین کے دور میں تصور بھی نہیں تھا۔ بعض طلبہ ہوسٹلوں میں جرائم پیشہ افراد پناہ لینے لگے اور کئی جگہوں پر اسلحہ کے ڈھیر تک لگ گئے۔ حکومتوں نے یہ تباہی تو برداشت کرلی مگر طلبہ یونین بحال نہ ہونے دی۔ حالانکہ اگر ایسا کرلیا جاتا اور منتخب طلبہ رہنماؤں کا تعاون حاصل کرلیا جاتا تو اس مسئلے پر بڑی حد تک قابو پایا جاسکتا تھا۔ پھر اسلحہ اور جرائم پیشہ افراد کی تلاش میں انتظامیہ نے چھاپوں کا ایسا سلسلہ شروع کیا جس نے معصوم طلبہ و طالبات کو بے حال کردیا۔ آدھی آدھی رات کو اچانک ہاسٹل خالی کرائے جانے لگے جو آپریشن کے نام پر ہفتوں بند رہتے۔ لاہور کی انجینئرنگ یونیورسٹی میں رینجرز نے باقاعدہ اپنا کیمپ بنا لیا۔ بعض دوسرے تعلیمی اداروں میں پولیس کی چوکیاں قائم ہوگئیں۔ طلبہ و طالبات کئی کئی ناکوں، واک تھرو گیٹس اور تلاشیوں کے بعد کلاسوں تک پہنچتے۔ تعلیمی اداروں میں آئے روز دہشت گردانہ کارروائیاں ہوتیں مگر کسی نے نہ سوچا کہ طلبہ یونین کو بحال کرکے طلبہ کی قوت کو دہشت گردوں کے خلاف منظم کر لیا جائے۔ حکومت ایک طرف
(باقی صفحہ 41پر)
دہشت گردوں کی منفی قوت سے خوفزدہ تھی اور دوسری طرف طلبہ کی مثبت قوت سے۔ اس گھٹے ہوئے ماحول میں طلبہ و طالبات کا فکری اور ذہنی نقصان ہوتا رہا، مگر پارلیمنٹ بھی خاموش رہی اور سیاسی جماعتیں بھی تماشا دیکھتی رہیں۔ میڈیا تو ویسے ہی سطحی اور وقتی مسائل میں الجھا ہوا تھا۔ اس دوران سینکڑوں نہیں ہزاروں تعلیمی ادارے بن چکے ہیں جہاں سیٹھوں نے فیسوں اور مختلف مدات کے نام پر لوٹ مار مچا رکھی ہے، حکومتوں کا وہاں کوئی عمل دخل نہیں۔ چند سالوں کے بعد ان پرائیویٹ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے ایسا طوفان اٹھے گا جو کسی کے روکے نہیں رکے گا۔ یہاں طلبہ یونین ہوتیں تو تعلیمی مافیا کو بھی کنٹرول کیا جا سکتا تھا اور معیارِ تعلیم بھی بہتر ہوسکتا۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں آج بھی طلبہ سے سینکڑوں مدات میں رقوم وصول کی جاتی ہیں۔ وہ بچوں کو ایک آدھ ٹور کرا کے یہ ساری رقم جہاں چاہیں خرچ کر لیتے ہیں۔ طلبہ یونین ہوتیں تو انہیں جواب دینا پڑتا۔ اب وہ محکمہ تعلیم کے افسران کو خوش کرکے من مانیاں کرتے ہیں۔ طلبہ یونین ایک معاون قوت تھی جسے متحارب قوت سمجھ کر دیوار سے لگا دیا گیا اور اب سرکاری تعلیمی ادارے تباہی کی راہ میں گامزن ہیں اور نجی تعلیمی ادارے لوٹ مار میں لگے ہوئے ہیں۔ اس لیے بھی طلبہ یونین کی بحالی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس کے ضابطوں کی تیاری اور اس پر عملدرآمد ریاست کی ذمہ داری ہے۔ حکومت طلبہ تنظیموں کے معاملات کا بھی گہرائی سے جائزہ لے۔ ان کے جائز مطالبات کو پورا کرے اور ان طلبہ تنظیموں کو کسی منفی سیاست میں ملوث نہ ہونے دے۔ اس مقصد کے لیے ماہرینِ تعلیم اور سابق طالب علم رہنماؤں پر مشتمل ایک ادارہ بنایا جا سکتا ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں اس کی نظیر موجود ہے۔ یہ ادارہ طلبہ تنظیموں کے معاملات کو مانیٹر کرے، اور وہاں پنپنے والی کسی منفی سرگرمی پر فوری کارروائی کرے۔ اسی طرح طلبہ یونینوں کو ایک تحریری ضابطۂ اخلاق کا پابند کیا جائے اور خلاف ورزی پر فوری کارروائی کی جائے۔ اسی طرح ہم نوجوان اور نئی ملکی قیادت آگے لا سکتے ہیں۔ ورنہ پیسے اور سیاسی و انتظامی اثر رسوخ کی بنا پر یہی مافیا کے چمچے کڑچھے نوجوان قیادت کے نام پر قوم کی شکل بگاڑتے رہیں گے۔

حصہ