امریکا، ایک ناقابل اعتبار اتحادی

282

واشنگٹن کامؤقف اور قدوکاٹھ اتنی تنزلی کاشکارکبھی نہیں ہوا جتنا ٹرمپ انتظامیہ کے دورمیں ہوا، یہاں تک کہ امریکا کے قریب ترین اتحادی بھی اسے قابل اعتماد شراکت دارسمجھنے کو تیار نہیں

فروری1946ء میں جب سردجنگ کا آغاز ہو رہا تھا، ماسکو میں واقع امریکی سفارت خانے میں تعینات جارج کینن نے سوویت یونین کے مزاج کوسمجھانے اوراس پرجوابی حکمت عملی ترتیب دینے کے لیے 5 ہزارالفاظ پرمشتمل ایک ’’خفیہ پیغام‘‘‘ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ بھیجا۔ ایک برس بعدیہ طویل پیغام فارن افیئرزمیگزین میں تجزیے اورتفصیل کے ساتھ کالم کی صورت میں شائع ہوگیا۔ کالم میں کینن کاکہناتھا کہ سوویت یونین کے ’’مارکسٹ لینن‘‘ نظریات دراصل حقیقت تھے اوروہ ان نظریات ہی سے عالمی منظرنامے کودیکھتے تھے اوران کے اندرپائے جانے والے عدم تحفظ نے انہیں توسیع پسندانہ عزائم رکھنے پرمجبورکیالیکن اس کاہرگزیہ مطلب نہیں کہ سوویت یونین لازمی طورپرتصادم کاراستہ اختیارکرے گا۔ انہوں نے ایک اہم نقطے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ روس نے ایک عالمی طاقت کے مقابلے میں پیچھے ہٹنے سے کوئی شرمندگی محسوس نہیں کی۔اس سب کے بعدامریکاکواپنی طویل مدتی سلامتی کویقینی بنانے کے لیے سوویت یونین کی طرف سے لاحق خطرات کامقابلہ کرنا تھا۔ اگر امریکا ایسا کرتا تو سوویت یونین کی طاقت خودبخودکم ہونے لگتی۔ اس وقت روس کا گھیراؤ نہ صرف ضروری تھابلکہ کافی بھی تھا۔
کینن کاوہ پیغام ان لوگوں کے لیے اہم متن بن گیا،جوامریکااورروس کے مابین تنا زع کوسمجھنے کی کوشش کرتے تھے۔ سردجنگ کے خاتمے تک امریکانے روس کے گھیراؤکی حکمت عملی اختیارکیے رکھی۔ باوجوداس کے کہ اس حکمت عملی کوکئی بارتنقیدکا نشانہ بھی بنایا گیا، جیساکہ کینن نے پیشگوئی کی تھی۔ سردجنگ کے خاتمے کی وجہ صرف امریکااوراس کے اتحادیوں کی طاقت اورتسلسل کے ساتھ کھڑے رہنے کی وجہ سے نہیں ہوئی بلکہ سوویت یونین کی تباہی کی ذمے دارخود اس کے نظام کی کمزوریاں اورتضادات ہیں۔ اب75برس بعد امریکااوراس کے اتحادیوں کوایک مرتبہ پھرایک کمیونسٹ حریف کا سامنا ہے، جو امریکا کو اپنے دشمن کے طورپر دیکھتااورعلاقائی تسلط اورعالمی اثرورسوخ کاخواہاں ہے۔ واشنگٹن اور بیجنگ میں موجودبہت سے ماہرین کے لیے امریکاچین سرد جنگ کے تجزیے کے لیے روس امریکاسردجنگ کونظراندازکرناتقریباناممکن ہوگیاہے۔ امریکی اہم اداروں نے پالیسی سازوں کومشورہ دیا ہے کہ گھیراؤکی پالیسی کواپ ڈیٹ کرکے اس پرعمل کریں۔ اس سال اپریل میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹرپالیسی اور پلاننگ’’کرن سکنر‘‘نے کینن طرزکی حکمت عملی کی ضرورت پرزوردیالیکن اس مرتبہ حریف چین تھا۔
آج کے چین کے بارے میں دومرکزی حقائق ہیں۔پہلایہ کہ حالیہ دورمیں جس تیزی سے چین نے معاشی ترقی کی ہے اس کی مثال دنیانے نہیں دیکھی۔دوسری حقیقت چین کا نظامِ حکومت ہے، جہاں ایک غیرمنتخب کمیونسٹ پارٹی طویل عرصے سے حکومت کر رہی ہے۔ شی جن پنگ کادورتواس بات کی گواہی دیتاہے کہ تھوڑی بہت آزادی جولوگوں نے ’’ڈینگ ژاپنگ‘‘ کے اصلاحاتی دورمیں اپنے لیے حاصل کی تھی، وہ بھی سلب کرلی گئی ہے اوریہ خبریں بھی منظرعام پرآرہی ہیں کہ حکومت نجی کمپنیوں کے معاملات میں بھی بے جا مداخلت کرکے ان پراپناکنٹرول بڑھارہی ہے۔
ان پالیسیوں کی بڑی وجہ اس بات پراصرارہے کہ چینی ترقی کاماڈل مغرب کے ماڈل سے کئی گنابہتر ہے۔ 2017ء میں شی جن پنگ نے ایک تقریرکے دوران کہا تھا کہ بیجنگ ترقی پذیرممالک کے جدیددورسے ہم آہنگ ہونے کے لیے ایک نئی مثال قائم کررہاہے اور وہ ممالک جو اپنی آزادی اورتحفظ کے ساتھ ترقی کی راہ پرچلناچاہتے ہیں ان کے لیے نئی راہیں کھول رہاہے۔ کمیونسٹ پارٹی کاکہناہے کہ مغرب جس جمہوریت کاراگ الاپتاہے،اس کاواحدمقصدغریب ممالک کی خودمختاری اوران کی معیشت کاسوداکرنا ہے ۔ چین نے جس طرح معاشی نموکے حصول کے لیے کیمونزم کاسہارالیاہے،اسی طرح دیگرممالک کوبھی کرناچاہیے۔اگرچہ اس طرح کے اعتقادات نے بیرونی دنیاکے ممالک کوتوزیادہ متاثرنہیں کیا تاہم ملک کے عوام کااپنے رہنما شی اور پارٹی قیادت کی پالیسی پراعتمادمیں اضافہ ہواہے اوروہ سمجھتے ہیں کہ چینی قوم ایک بالکل نئے اندازمیں اورپہلے سے کہیں زیادہ مضبوط بن کر ابھری ہے اورچینی قوم کے معیارزندگی میں غیرمعمولی بہتری اورچینی قوم پرستی میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چینی عوام اپنی کامیابیوں پرنہ صرف فخرمحسوس کرتے ہیں بلکہ اس ترقی کوتسلیم بھی کرتے ہیں۔ پارٹی یہ بھی کہتی ہے کہ بیرونی دنیا خاص کرامریکاہماری پیش رفت کوختم کرناچاہتاہے یاپھروہ اس ترقی کوروک دینا چاہتا ہے۔ بالکل اسی طرح کاپروپیگنڈا روس بھی کیا کرتاتھا۔
چین میں موجودہ قوم پرستی کاایک پہلویہ بھی ہے کہ وہاں عوام کویہ باورکروایاجاتاہے کہ چین ایک نیشن اسٹیٹ ہے، لیکن درحقیقت چین کوایک سلطنت کی طرح چلایاجاتاہے۔چینی سرزمین کا 40 فیصدسے زائدحصہ وہ ہے جہاں رہنے والے لوگ خود کوچینی نہیں سمجھتے تھے۔اس حصے میں انرمنگولیا، تبت، ژی جیانگ شامل ہیں۔ اگرچہ حکومت نے ان اقلیتوں کوخصوصی حقوق دیے ہوئے تھے لیکن آہستہ آہستہ وہ بھی اس قوم پرستی کی لپیٹ میں آگئے اور98فیصد چینی قوم ان پرحاوی ہوگئی۔ جنہوں نے مزاحمت کی انہیں سوویت سلطنت کی طرح جیلوں اورحراستی مراکزمیں ڈال دیاگیا۔
خارجی معاملات پرنظرڈالی جائے توپڑوس میں شمالی کوریاسے چین بہترین تعلقات قائم کیے ہوئے ہے جو امریکا کو آنکھیں دکھاتا ہے۔ پڑوس میں تائیوان سے مستقل تنازع چل رہا ہے۔ بیجنگ اسے اپناہی ایک صوبہ سمجھتاہے جبکہ تائیوان امریکی مدد سے چین کے لیے سفارتی اورسیاسی مشکلات پیدا کررہا ہے۔ امریکانے چین کے مختلف فوجی ایڈونچروں کے سامنے بہت سے دشمن لاکھڑے کیے ہیں۔ ایک جانب جہاں جنوبی چینی سمندرمیں جاپان کے ساتھ تنازع کھڑاہوگیا ہے، وہاں دوسری طرف چین کے ڈرسے جنوبی کوریا امریکا سے دفاعی میزائل سسٹم خریدنے پرمجبورہوگیاہے۔ اس طرح درپیش چیلنجوں میں پچھلی ایک دہائی سے مشرقی ایشیائی ممالک کو امریکی پروپیگنڈے کی وجہ سے عدم تحفظ کایقین ہونے لگاہے کہ مستقبل میں اس خطے میں چین غالب قوت ہوگا۔اس لیے انہیں پہلے سے تیاری کرنی ہوگی۔ اس تاثرکی بنیادی وجہ چین کی بے پناہ معاشی ترقی ہے۔ سوویت یونین اورامریکاکے درمیان جومعاشی فرق تھا، اس کااگرآج کے دورمیں چین اورامریکاکے درمیان معاشی طاقت کے فرق سے مقابلہ کیاجائے توچین سوویت یونین کے مقابلے میں آگے ہے بلکہ کورونا وبا بھی چین کی معاشی نمو کی رفتارمیں سستی پیدانہیں کرسکی لیکن جولوگ یہ سمجھتے ہیں جاپان کی طرح چین بھی معاشی جمودکاشکارہوجائے گا،وہ غلط فہمی کا شکار ہیں۔
فوجی اور تزویراتی لحاظ سے امریکااورچین کاتقابلی جائزہ لیناکافی مشکل کام ہے۔ فوجی لحاظ سے چین کے مقابلے میں امریکاکے پاس20گنازیادہ ایٹمی وارہیڈہیں،کئی گنابڑی فضائی فوج ہے اورامریکاکادفاعی بجٹ بھی تین گنازیادہ ہے۔ امریکاکے پاس چین کے پڑوس میں جاپان اورجنوبی کوریا سمیت بھارت اورویت نام بھی ممکنہ اتحادیوں میں شامل ہیں اوریہ اتحادی بہت تیزی سے اپنی فوجی صلاحیتوں میں اضافہ کررہے ہیں، لیکن اس طرح کاکوئی اتحادی یورپ میں چین کے پاس نہیں ہے۔ اس سب کے باوجود آج چین کے پاس اتنے بین البراعظمی میزائل، طیارے،بحری جہازموجودہیں کہ اس نے خطے میں اپنی برتری ثابت کردی ہے۔ چینی میزائل فورس بحرالکاہل میں امریکی فضائی اڈوں، طیارہ بردارجہازوں کوایساچیلنج پیش کررہے ہیں کہ امریکااس خطے میں اپنی بالادستی کا دعویٰ نہیں کرسکتااورچین کی دفاعی ٹیکنالوجی میں ترقی کے ساتھ یہ معاملات مزیدخرابی کی طرف جائیں گے، جیساکہ چین نے اب اپنی بحری فوج کی صلاحیتوں میں بے پناہ اضافہ کیاہے اوراس کے علاوہ جدیدترین ڈرون،خلائی پروگرام میں چین کی طرف سے کی جانے والی ترقی اسے امریکاکے برابرلاکھڑاکرنے میں مدددے گی۔ اگرچہ سردجنگ کے وقت کاامریکا اورروس کے درمیان دفاعی ترقی کی نسبت اتنی نہیں تھی جتنی کہ اب چین اور امریکاکے درمیان ہے،لیکن چین میں یہ صلاحیت ہے کہ بہت تیزی سے اس خلا کو پُرکرسکتاہے۔
ماضی کے سوویت یونین اورآج کے چین میں حیرت انگیزمماثلت پائی جاتی ہے۔سب سے پہلے تودونوں ریاستوں میں کمیونسٹ حکمران ہیں۔ گزشتہ40برس سے چین کی معاشی ترقی نے مغرب کی نظروں سے اس حقیقت کوہٹادیاکہ یہ ملک کمیونسٹ آمریت کے ذریعے چلایاجارہاہے۔ چینی ظالمانہ اقدامات کے پروپیگنڈے کے باوجودمغرب کویہ یقین ہے کہ چین لبرل ازم اورجمہوریت کی طرف رواں دواں ہے اورآج مغرب کاوہ یقین بیوقوفی کی علامت محسوس ہوتا ہے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی اپنی حکمرانی کومستحکم کررہی اوراقتدارکوہمیشہ قائم رکھناچاہتی ہے۔ صدر شی نے 2017ء میں اعلان کیاتھاکہ پارٹی کومضبوط کرنے کاعمل تیزرفتاری سے جاری ہے۔ سینٹرل کمیٹی کی قیادت کومتحدرکھنے اورمرکزیت قائم رکھنے کے لیے مزید محنت کرنی ہوگی۔ قوم میں پارٹی کی حیثیت ہمیشہ ریڑھ کی ہڈی جیسی ہوگی۔ ایک اورمماثلت یہ کہ جس طرح سوویت یونین یورپ پرغلبہ حاصل کرناچاہتاتھابالکل ویسے ہی آج چین مشرقی ایشیاپراپناتجارتی اثرورسوخ قائم کرناچاہتاہے۔ یہ خطہ آج امریکاکے لیے اتناہی اہم ہے جتناسردجنگ کے آغازکے وقت یورپ تھا۔ اس غلبے کے حصول کے لیے چین بڑی حکمت کے ساتھ زیادہ بہترطریقے استعمال کر رہا ہے۔ امریکا سمجھتا ہے کہ اس نے بروقت اقدامات نہیں کیے تو بہت جلد مشرقی ایشیامیں انڈونیشیا سے لے کر جاپان تک چین اکیلاٹھیکے دارہوگا۔
سوویت یونین کے رہنماؤں کی طرح چین بھی ایک دورمیں امریکاکواپنادشمن سمجھتاتھا۔یہ عوام میں توبہت محتاط اورشائستہ رہتے ہیں اورعالمی روایات کی پاسداری بھی کرتے ہیں‘ تاہم پارٹی کے اجلاسوں میں کھلے عام یہ بات کی جاتی ہے کہ امریکاچین کی ترقی کوروکنے کے لیے بیرونی دباؤاوراندرونی مداخلت کی ہرممکن کوشش کرتاہے اور اپنے عوام میں مغرب اور امریکاکے خلاف پروپیگنڈابھی جاری ہے۔ یہی کام ماضی میں اسٹالن بھی کیا کرتا تھا۔ چینی کمیونسٹ پارٹی نے اپنے عوام کویہ باورکروادیاہے کہ امریکی ہم سے صرف اس لیے نفرت کرتے ہیں کہ وہ ہم پرحکومت کرناچاہتے ہیں ان کے راستے کی واحد رکاوٹ چینی کمیو نسٹ پارٹی ہے۔
چین سوویت یونین نہیں ہے۔ سوویت یونین کی نظریاتی کشمکش پوری دنیاکوایک ساتھ دیکھتی تھی، لینن اوراسٹالن کے نظریات کے مطابق کمیونزم کونافذکرنے کے لیے ضروری تھا کہ شاہانہ بیوروکریسی اورسرمایہ داری کاخاتمہ کرکے پوری دنیاپرکمیونزم کاغلبہ قائم کرکے ہی سوویت یونین کی برتری قائم کی جاسکتی ہے، تاہم چین کانظریہ اس سے مختلف ہے۔ان کے ہاں عالمی سطح پرتبدیلی کومدنظرنہیں رکھاجاتابلکہ چینی قوم پرستی ہی پر فوکس ہے۔ ان کاخیال ہے کہ واشنگٹن ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ضرورہے لیکن وہ اپنی ترقی اورمقاصدکے حصول کے لیے امریکی نظامِ حکومت یاامریکاکوشکست دینے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ اس کے علاوہ سوویت یونین کی نسبت چینی معاشرے کی امریکاسے مماثلت زیادہ ہے۔ روسی سوشلسٹ معاشی پالیسیوں کونہ صرف قبول بلکہ وہ ان پرعمل بھی کرتے تھے، اس کے برعکس چینی عوام کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ موجودہ دور کی مارکیٹ میں اپنی برتری قائم رکھنے کے لیے جدوجہد کریں۔ عوام کی اکثریت کے لیے کمیونز م صرف حکمراں پارٹی کانام ہے نہ کہ کوئی ہدف،جسے حاصل کرنا ہے۔ اگرچہ شی کی مرکزیت قائم کرنے کی جوکوششیں ہیں انہیں عوام کی حمایت حاصل ہے لیکن خود صدر شی اصلاحات سے پہلے والے چین کی طرف جانے کے حامی نہیں ہیں۔ جہاں چین عام دنیاسے بالکل الگ تھلگ تھا۔
مزیدیہ کہ چینی عوام نے پچھلی چنددہائیوں میں ملک میں امن اورترقی کے مزے لوٹے ہیں جبکہ1947ء میں روس 30 سال کی جنگ اورانقلابی جدوجہدکے بعدعالمی طاقت بن کر سامنے آیا تھا۔ کینن کے مطابق روسی جسمانی اورروحانی طورپرتھکے ہوئے تھے جبکہ چینیوں کاتجربہ اس کے بالکل الٹ ہے۔ چین کی دوتہائی آبادی نے امن اورترقی کے علاوہ کچھ دیکھاہی نہیں ہے۔ ملک کی طرف سے آخری فوجی مداخلت 30 برس قبل ویت نام میں ہوئی تھی، اس کاآخری بڑاتنازع کوریاکے ساتھ جنگ کی صورت میں 70سال قبل پیش آیا تھا۔ اس لیے ایک طرف توماضی کی چنددہائیوں کی کامیابی اورامن نے عوام کوجنگ کے خطرات سے محتاط رہنے پرمجبورکردیاہے۔دوسری طرف ماضی قریب میں جنگ کاتجربہ نہ ہونے اوراس کی تباہ کاریوں کے بارے میں علم نہ ہونے کی وجہ سے لوگ جنگ کے حوالے سے دھمکی آمیزگفتگوکرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ آج کل چینیوں میں خاص کرنوجوانوں میں یہ خیا ل عام ہے کہ ہمیں امریکاسے بچنے کے لیے جنگ لڑنی پڑے گی۔ اگرچہ شی اوراس کے ساتھیوں کاشمارعمومی طورپر رسک لینے والوں میں نہیں ہوتالیکن بحران کی صورت میں اس بات کاقوی امکان ہے کہ چینی عوام دوسری جنگ عظیم کے بعد کے تھکے ہوئے روسی عوام کی نسبت1914ء کے جرمنوں جیسے جوش وخروش کامظاہرہ کریں گے۔
عالمی سطح پرطاقت کاتوازن بھی کینن کے دورجیسانہیں رہا۔ آج کی دنیاسہ قطبی کے بجائے کثیرقطبی ہوتی جارہی ہے۔ اگرچہ یہ عمل بتدریج جاری ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ عمل حقیقی ہے۔ سردجنگ کی طرح دوعالمی طاقتوں کے درمیان تنازع دنیاکو’’بائی پولر‘‘نہیں بنائے گابلکہ آج کے دورمیں دوعالمی طاقتوں کے درمیاں تنازع دیگرطاقتوں کوبھی اپنی مرکزی حیثیت بنانے میں مدددے گا،کیونکہ اب نظریاتی جنگ توہے نہیں، ساری لڑائی معاشی مفادات کی ہے۔ امریکا اور چین جتنا ایک دوسرے سے مقابلے بازی کریں گے اتنا ہی دوسری طاقتوں کوبرتری حاصل کرنے میں مددملے گی۔ نتیجتاً جلد یا بدیر ہوگا یہ کہ علاقائی طاقتیں وجود میں آئیں گی بلکہ وہ اپناتسلط بھی قائم کریں گی۔
امریکاکی داخلی صورت حال بھی سردجنگ کے دورسے یکسرمختلف ہے۔ امریکا میں اس وقت بھی ووٹر تقسیم تھے لیکن جوتقسیم،تعطل اورتعصب کی صورت حال اب امریکی سیاست میں ہے ایسی سردجنگ کے وقت نہ تھی۔ اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکانہ صرف اندرونی طوربلکہ بیرونی دنیامیں بھی اپنے مقاصداورمنزل سے دورہوتاجا رہاہے۔ امریکا کامؤقف اوراس کا قدوکاٹھ اتنی تنزلی کاشکارکبھی نہیں ہواجتناکہ ٹرمپ انتظامیہ کے دورمیں ہوا ہے۔ حالت یہ ہوگئی ہے واشنگٹن کے قریب ترین اتحادی بھی اسے قابل اعتماد شراکت دارسمجھنے کو تیار نہیں۔ ٹرمپ کی صدارت سے پہلے ہی امریکی خارجہ پالیسی کی اشرافیہ اس بات کااقرارتوکرتی رہتی تھی کہ خارجی معاملا ت میں اتفاق رائے کی شدید کمی ہے لیکن بیوروکریسی اس کمی کو پوراکرنے میں مکمل طورپرناکام رہی۔ اب دنیاکے ممالک امریکی قیادت کی استعدادکے بارے میں سوال کرتے نظرآتے ہیں جبکہ ماضی میں مسائل پر امریکی مؤقف اورپالیسی کوناگزیرسمجھاجاتاتھا۔
سوویت یونین کے مقابلے میں امریکی معیشت چین کے ساتھ اس طرح جڑی ہوئی ہے کہ اسے الگ کرنے کاتصورنہیں کیاجاسکتا۔ کینن معیشت کے بارے میں کافی علم رکھتے تھے، انہوں نے اس وقت کہاتھاکہ سوویت یونین کامعاشی گھیراؤکرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اس نے عالمی معیشت میں شامل ہونے سے انکاری ہوکرخودہی اپنے آپ کو محدود کر لیا ہے۔ چین اس معاملے میں یکسرمختلف ہے کیونکہ اس کی مجموعی ملکی پیداوارمیں برآمدات کاحصہ ایک تہائی سے بھی زیادہ ہے اورامریکااس کاسب سے بڑاتجارتی شراکت دار ہے۔ چینی معیشت کوامریکی معیشت سے جداکرنے کے لیے سیاحت کی پابندی، تجارتی پابندیاں اوراسی طرح کے دیگرسیاسی ہتھکنڈے اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک باقاعدہ جنگ نہ مسلط کردی جائے، جس کے تحت چین سے کسی بھی قسم کامعاشی رابطہ ناممکن ہوجائے۔ محصولات میں اضافے جیسے اقدامات قلیل مدتی فوائدتوپہنچاسکتے ہیں تاہم اگر طویل مدتی تناظرمیں اسے دیکھاجائے توچین ان اقدامات سے خودانحصارہوتاچلاجائے گااورایسے اقدامات سے امریکاکوناقابل تلافی نقصان کے ساتھ وقارکوبھی ٹھیس پہنچے گی ۔ اس لیے چین سے رقابت کوایک بہترحکمت عملی کے ساتھ نمٹنے کے لیے ایک دوسرے پرمعاشی انحصارکوبھی جاری رہناچاہیے اوراس سب کے علاوہ چینی رہنماؤں کے پاس کھیلنے کے لیے کچھ ایسے عالمی پتے بھی ہیں جوکہ سوویت یونین کے پاس نہ تھے۔ سردجنگ کے دوران سوویت یونین اندرونی طورجس طبقاتی سیاست کاشکارتھااس کے مقابلے میں چین عالمی دنیا کوماحولیاتی تبدیلی،عدم مساوات،عالمی اتحاداورتجارت جیسے موضوعات پر اکٹھاکرنے کی بات کرتاہے جس کی وجہ سے بیرونی دنیامیں اس کامثبت تشخص اجاگرہوتاہے۔ اگرچہ چین جیسے ملک کی جانب سے ان مسائل پربات کرنا نہایت مضحکہ خیزہے لیکن چونکہ امریکاان مسائل پردنیامیں قائدانہ کرداراداکرنے میں ناکام رہاہے توچین نے اس ناکامی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دنیاکویہ باورکروانے کی کوشش کی ہے کہ جمہوری نظام کی نسبت چینی نظام حکومت میں ان مسائل سے بہتر طریقے سے نمٹاجاسکتاہے۔
چینی طرزِعمل اورطرزِسیاست اورپھرموجودہ دنیامیں امریکی کرداراس بات کی طرف اشارہ کررہاہے کہ یہ دشمنی47۔1946ء طرز کی نہیں ہے،جس کی نشاندہی کینن نے کی تھی۔ جہاں فوری جنگ کے امکانات کم ہیں، وہیں محدودتعاون کے نتیجے میں مشکلات بھی زیادہ ہیں۔اسی طرح قوم پرستی کے نتیجے میں تنازعات کادائرہ وسیع ہونے کاخطرہ پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ چین جس سرعت سے ایشیامیں امریکاکی تجارتی پوزیشن کا سستا نعم البدل بننے کے لیے جدوجہدکررہاہے اتنی تواسٹالن نے بھی امریکا سے یورپ چھیننے کے لیے نہیں کی تھی۔ اگر امریکا چین سے مقابلہ کرناچاہتاہے تواسے اپنے اثرورسوخ کوقائم کرنے کے لیے ایک طویل مدتی مہم تیا رکرنی ہوگی اوریہ مہم تزویراتی ترجیحات اورطویل مدتی منصوبہ بندی کے حوالے سے امریکاکی اپنی اہلیت کی بھی جانچ کرے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت تیزی سے بدلتے معاشی حالات،تیزی سے ترقی کرنے والی ٹیکنالوجی کی وجہ سے اب ماضی میں اپنائی جانے والی گھیرا ؤکی پالیسی توناممکن ہے، وہ بھی چین جیسے ملک میں جہاں معلومات کابہاؤبھی بہت تیز ہے اورجواپنے آپ کودنیاسے الگ تھلگ بھی نہیں رکھنا چاہتا۔
کینن کی سب سے اہم نصیحت کاتعلق خارجہ پالیسی سے نہیں بلکہ امریکی سیاست سے تھا۔انہوں نے متنبہ کیاتھاکہ فیصلہ سازی کی قوت میں کمی کامظاہرہ،تفریق اورداخلی تقسیم وہ بڑے خطرات ہیں جن کااس وقت امریکاکوسامناہے۔کینن نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیاتھاکہ عوامی مقاصد کے لیے وسائل کے استعمال کے لیے کبھی بھی غفلت کامظاہرہ نہیں کرناچاہیے۔70برس پہلے کے مقابلے میں آج کے امریکاکواس بات کی زیادہ ضرورت ہے کہ اعلیٰ مہارت کے حصول،دنیاکے بہترین انفراسٹرکچراورجدید ترین تحقیق وترقی کے لیے بے پناہ وسائل صرف کرے۔ چین کے ساتھ مقابلہ کرناکوئی سستاسودانہیں ہے۔ چیلنج آج بھی ماضی جیساہی ہے، تاہم امریکا کو چاہیے کہ اپنے ان ایشیائی اتحادیوں کے ساتھ باہمی دوستی کو اخلاص کے ساتھ نبھائے، جنہوں نے اُسے ایشیا میں قدم جمانے کا موقع فراہم کیا، بصورت دیگر امریکا کی تنزلی کا سفر تیزی سے طے ہوگا اور نتیجتاً دنیا ایک ایسے خطے میں تبدیل ہو جائے گی، جہاں کسی کی حکمرانی نہیں ہوگی۔ ہر طرف خوف و نفرت کا راج ہوگا اور امریکا متحد بھی نہ رہ سکے گا۔