امریکا کسی کا خیر خواہ نہیں

189

یہ کوئی اتفاق نہیں کہ سعودی ولی عہدمحمد بن سلمان نے نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن کو انتخابی کامیابی پرمبارک باددینے میں کافی تاخیر کی۔ واشنگٹن میں سعودی عرب کے خلاف کام کرنے والی لابی جوبائیڈن انتظامیہ کواس حدتک یقین دلانے میں کامیاب دکھائی دے رہی ہے کہ گزشتہ 4 برس کے دوران سعودی ولی عہد نے یمن پرجوبدترین بمباری کی، جس کاکوئی خاطرخواہ نتیجہ بھی نہیں نکلا اور مبینہ طور پر چین کے ساتھ مل کریورینیم کی افزودگی کا خفیہ پروگرام شروع کر رکھا ہے۔ ان ٹھوس وجوہات کی بنا پرامریکی ڈیموکریٹ ارکان جلد سعودی عرب کے ساتھ امریکا کا اتحاد ختم کرنے کے لیے بائیڈن سے اپیل کریں گے لیکن دوسری طرف یہ آرا بھی سامنے آرہی ہیں کہ بائیڈن کواس تجویزکی مخالفت کرنی چاہیے کیوں کہ اتحادختم کرنے سے کسی کے روّیے میں بہتری نہیں لائی جاسکتی بلکہ بائیڈن کو مغربی اتحادیوں اور مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کے ساتھ مل کر نیااتحاد قائم کرناچاہیے،جس میں سعودی عرب بھی شامل ہوتاکہ سعودی عرب کو جوہری ہتھیاروں سے دُوررکھنے کی امریکی کوششوں کے ساتھ انسانی حقوق کی پامالی سے روکنے میں مددمل سکے۔
اس میں شک نہیں کہ ری پبلکن اورکانگریس ارکان سعودی عرب سے تنگ آ چکے ہیں۔گزشتہ برس ٹرمپ نے دونوں پارٹیوں کی حمایت سے کی جانے والی قانون سازی کواہم امریکی مفادات کی بنا پرویٹوکر دیا تھا، جس کے ذریعے یمن پربمباری کے جواب میں سعودی عرب کواسلحہ کی فروخت پرپابندی لگائی گئی تھی۔اس قانون سازی کے حق میں کانگریس میں ہرڈیموکریٹ رکن نے ووٹ دیا تھا لیکن خاص طورپرٹرمپ کے قریبی ری پبلکن سینیٹر لِنڈسے گراہم نے بھی حمایت کی۔ اسی دباؤکے نتیجے میں جہاں ٹرمپ انتظامیہ سعودی عرب سے تاریخ کاسب سے بڑا آرڈر لینے میں کامیاب ہوئی تھی بلکہ خلیجی ریاستوں سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کروانے میں بھی کامیاب رہی تھی۔ دراصل ٹرمپ خلیجی ریاستوں سے اسرائیل کے سفارتی تعلقات قائم کروانے کی کامیابی کواپنے اگلے صدارتی انتخاب میں کامیابی کی کلید سمجھتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ صدارتی انتخاب میں اپنی شکست کو قبول کرنے کوبالکل تیارنہیں تھے اوراس کوایک گہری سازش سے تعبیرکرتے ہوئے قصرسفیدسے رخصت ہوئے اور جاتے جاتے امریکاکی تاریخ میں کچھ ایسی مثالیں بھی رقم ہوگئیں، جس پرٹرمپ کے خلاف باقاعدہ قانونی کارروائی بھی عمل میں لائی گئی لیکن ایک معمولی تعدادکی حمایت کی بنا پرٹرمپ تادیبی کارروائی سے بچ گئے۔
جوبائیڈن دیگر ڈیموکریٹ ارکان کے مقابلے میں سعودی عرب پرزیادہ تنقیدکرتے رہے ہیں۔ نومبر2019ء میں اپنی انتخابی مہم کے آغازمیں جوبائیڈن کہہ چکے ہیں ’’میں یہ واضح کرناچاہتاہوں کہ ہم سعودی عرب کومزیدہتھیارفروخت نہیں کریں گے‘‘۔ جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کوشش اور مبینہ انسانی حقوق کی پامالی پرسعودی عرب کوجواب دہ ٹھہراناسمجھ آتا ہے لیکن سعودی عرب کو اسلحہ کی فروخت روک کراس کے جوہری عزائم اورانسانی حقوق کی پامالیوں کو روکانہیں جاسکتا۔
سعودی شاہی خاندان کے افرادسمجھتے ہیں کہ امریکاان کے ساتھ کسی بھی وقت دھوکا کر سکتا ہے۔2015ء میں ایران سے جوہری معاہدے کے بعدہی سعودی عرب کی پریشانیوں میں اضافہ ہوگیا تھا۔ جوہری معاہدے کوسعودی عرب کے اندرونی حلقوں میں امریکاکی جانب سے ایران سے دوستی اورسعودی عرب سے غداری کرنے کے مترادف سمجھا گیا۔ ریاض کے لیے ٹرمپ صدراوباما سے بہترتھاکیوںکہ ٹرمپ نے مبینہ انسانی حقوق کی پامالیوں کو نظر انداز کیا اور ایران کے خلاف انتہائی جارحانہ رویہ اپنایالیکن ٹرمپ نے بھی سعودی عرب کے امریکا پر انحصار پر طنز کرتے ہوئے 2018ء میں کہا تھا ’’بادشاہ! ہم آپ کی حفاظت کررہے ہیں، شاید آپ ہمارے بغیر دو ہفتوں کے لیے بھی حکومت قائم نہیں رکھ سکتےـ‘‘۔ کانگریس کی جانب سے سعودی عرب کوہتھیاروں کی فروخت پرپابندی کی حالیہ کوششوں نے ریاض کی جانب سے امریکا کے حوالے سے خدشات کومضبوط کردیا، جس کے بعدیہ کوئی اتفاق نہیں کہ سعودی ولی عہد نے چین کے ساتھ مل کر جوہری منصوبوں پر کام شروع کیا۔ وہ یمن میں ایرانی اثرورسوخ کوسعودی وجود کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ ولی عہدسمیت بہت سی حکومتی شخصیات کولگتاہے کہ سعودی عرب چین سے تعلقات مضبوط کرلیتا ہے، تو پھر صرف واشنگٹن پرمسلسل انحصار کرنے کاکیا فائدہ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر مشرق وسطیٰ میں جوہری ہتھیاروں کا کھیل شروع ہوگیا تو پوراخطہ آسانی کے ساتھ جوہری کشیدگی کاشکارہوجائے گا۔ سعودی جوہری ہتھیاروں کانشانہ ایران اورایرانی جوہری ہتھیار وں کانشانہ ریاض ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی ترکی اور مصر سے متعلق بھی جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی کوششوں پر مبنی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ اس صورتحال سے خوف زدہ اسرائیل اپنے جوہری ہتھیاروں کوبہتربنانے میں لگا ہے، جس کی خطے میں عسکری برتری قائم رکھنے کے لیے ٹرمپ کے بعد بائیڈن نے بھی اپنے عزم کا کھل کر اظہار کیا ہے۔
مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد ٹرمپ کے مقابلے میں جوبائیڈن کے بارے میں اس خوش گمانی میں مبتلا ہے کہ نئی منتخب امریکی انتظامیہ مسلمانوں کے حق میں بہترہوگی،ان کی تمام امیدوں پرپانی پھرگیاہے کیونکہ جوبائیڈن انتظامیہ نے قصرسفیدمیں براجمان ہوتے ہی سعودی واماراتی حکومتوں سے اپنے معاہدوں کوختم کر دیا ہے۔ نئی امریکی انتظامیہ کے تیوراس بات سے بھی عیاں ہو گئے ہیں کہ ترکی اورشام کے خلاف کردوں کے ساتھ داعش کوبھی فعال کردیا گیا ہے۔ ان حالیہ اقدامات سے صاف واضح ہے کہ اب مسلمان ملکوں کے خلاف جنگیں شروع ہونے کاامکان بڑھ گیاہے اوربالعموم دنیامیں اور بالخصوص مسلمان ملکوں میں تباہی،مہنگائی اورلاقانونیت میں اضافے کے ساتھ ہی ڈوبی ہوئی امریکی معیشت کوبچانے کاکام لیا جائے گا۔
اُدھرنئے امریکی صدرجوبائیڈن کے اس اشارے پرکہ ان کی انتظامیہ دوحہ معاہدے پرنظرثانی کرنے پرراضی ہے، کو وہاں کے ادارے ایک دانشمندانہ فیصلہ قرار دے رہے ہیں، جس پران کے پیش رو ٹرمپ نے دستخط کیے تھے۔ امریکا شدت کے ساتھ 19سالہ طویل جنگ کوختم کرنا چاہتا تھا، اس لیے ٹرمپ کے ذریعے طے پانے والا معاہدہ عجلت میں کیا گیا، تاہم موجودہ معاہدہ اپنی موجودہ شکل میں امریکاکے ساتھ افغانستان کوبھی شدید نقصان پہنچاسکتا ہے۔ تاہم امریکی اہم پالیسی سازادارے اس بات کاجائزہ لے رہے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ کس حدتک پالیسیوں پرمعترض ہو اور اس میں کیا تبدیلیاں کی جائیں کہ مطلوبہ نتائج حاصل بھی کیے جاسکیں۔ یا پھر مزید مہلک نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا؟