چین کو تنہا کرنا عالمی معیشت پر اثر انداز ہوسکتا ہے

247

یورپ اورامریکاکی مشترکہ رائے ہے کہ چین کوالگ تھلگ کرناناگزیرہوگیاہے مگرکیاایساکرناممکن ہے؟ سرِدست یہی دکھائی دے رہاہے کہ ایساکرناانتہائی خطرناک بلکہ تباہ کن ہوگا۔ امریکااوریورپ کی معیشتیں چینی معیشت سے اِس قدرجڑی ہوئی ہیں کہ اس سے مکمل طورپرکنارہ کش ہوکروہ کھوکھلی رہ جائیں گی کیونکہ ان کے پاس اب چین کاکوئی متبادل نہیں۔ چین اب ایک باضابطہ حقیقت کے طورپرسامنے ہے جسے محض سمجھناہی نہیں،تسلیم کرنابھی لازم ہوچکا ہے۔ عالمی معیشت سے چین کوالگ کرنے کا عمل پوری دنیاکی معیشتوں کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوگا۔ امریکامیں دونوں بڑی جماعتیں اب اس حقیقت کاادراک کرچکی ہیں کہ چین محض مسابقت کے حوالے سے خطرناک نہیں بلکہ اب ایک باضابطہ حریف بن چکا ہے اور اس سے بھی بڑھ کریہ کہ وہ ایک دشمن ہے۔ 14مئی کوٹرمپ نے کہاتھاکہ چین سے الگ ہوئے بغیرچارہ نہیں اوریہ کہ چین سے ہرطرح کے معاشی اورمالیاتی تعلقات ختم کرنے کی صورت میں امریکاکوکم وبیش500ڈالرتک کافائدہ ہوسکتاہے۔
امریکانے کورونا وباکے دوران بھی چین سے تعلقات کم کرنے پرخاص توجہ دی۔ ٹرمپ نے ’’دی فیڈرل ریٹائرمنٹ تھرفٹ انویسٹمنٹ بورڈ‘‘ کو ہدایت کی تھی کہ چینی کمپنیوں میں سرمایہ کاری روک دی جائے۔ٹیلی کام سیکٹرمیں چین کے سب سے بڑے ادارے ہواوے کوبھی حکم دیاکہ وہ سیمی کنڈکٹرتیارکرنے کے شعبے میں امریکی ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا چھوڑدے۔ چین اورہانگ کانگ کے تعلقات میں کشیدگی کابھی امریکانے بھرپورفائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ جب چین نے ہانگ کانگ میں سیکورٹی کے حوالے سے چندسخت اقدامات کیے تب امریکی صدرنے ہانگ کانگ کوتجارت کے حوالے سے دی جانے والی رعایتیں بحال کرنے کااعلان کیا۔
امریکامیں چندبرسوں سے یہ بات کھل کرکہی جارہی ہے کہ اب چین سے الگ ہونے کاوقت آگیاہے۔الگ ہونے کامطلب یہ ہے کہ امریکاچینی کمپنیوں سے اپنے غیرمعمولی تعلقات ختم کرے۔اس وقت بیسیوں چینی کمپنیاں امریکی کمپنیوں کوبہت سی اشیابہت بڑے پیمانے پرتیارکرکے فراہم کررہی ہیں۔امریکاچاہتاہے کہ یہ سپلائی اب ختم کردی جائے۔ یہ بات کہنے کوبہت آسان ہے مگراس پرعمل کرنے سے معاملات ایسے الجھنے لگتے ہیں کہ ساراجوش وخروش ٹھنڈاپڑجاتاہے۔امریکامیں بڑھتی ہوئی لاگت کے باعث بیسیوں امریکی کمپنیاں اب بہت کچھ چینی کمپنیوں کے ذریعے بنواتی اورمنگواتی ہیں۔ یہ عمل دوچارسال کانہیں،عشروں کا ہے۔ اس دوران چین کی قوت میں تیزی سے اضافہ ہوتاچلاگیاہے۔ اب حالت یہ ہے کہ چین کی بیسیوں کمپنیاں امریکی معیشت میں گندھ گئی ہیں یارچ بس گئی ہیں۔ ان کمپنیوں کوامریکی معیشت سے الگ کرنے کاعمل امریکی تجارتی زوال ہے۔ اس معاملے میں دانش مندی اوردور اندیشی کی غیرمعمولی اہمیت ہے۔ اگرمعاملات کوسوچے سمجھے بغیرنمٹانے کی کوشش کی گئی توخرابیاں صرف بڑھیں گی۔ ٹرمپ کے مشیرِ تجارت پیٹرو نیویرو نے اپنی کتاب ڈیٹھ بائی چائنامیں کہاہے کہ اگرامریکی معیشت سے چین کوالگ نہ کیاگیا تومعاملات اس حد تک بگڑیں گے کہ انہیں درست کرناممکن نہ رہے گا۔ واشنگٹن کے پالیسی سازچین کوامریکی معیشت سے مکمل طورپرالگ کرنے کی باتیں ایک عشرے سے بھی زائد عرصے سے کررہے ہیں مگراس پرعملد کرنا ناممکن دکھائی دے رہاہے کیونکہ متبادل انتظام کیے بغیرچین کوامریکی معیشت سے مکمل طورپرالگ کرناانتہائی خطرناک،بلکہ تباہ کن ثابت ہوگا۔
کئی آپشنزپرغورکیاجارہاہے۔ایک طرف تویہ کہاجارہاہے کہ چین کوامریکی ٹیکنالوجی استعمال کرنے سے روکناہی معاملات کو درست کرنے کابہترین طریقہ ہے۔دوسری طرف یہ کہاجارہاہے کہ چین کوبہت بڑے پیمانے پرڈمپنگ سے روکنے کے لیے عالمی تجارتی تنظیم کے قوانین اورضوابط میں تبدیلی لازم ہے۔ چین اب تک مینوفیکچرنگ سیکٹرکاسب سے بڑا ملک ہے۔ وہ ہرچیزبہت بڑے پیمانے پرتیارکرتاہے۔ لاگت بہت کم ہونے کے باعث وہ کسی بھی ملک تک اپنی مصنوعات اتنے کم خرچ پرپہنچاتاہے کہ کسی بھی دوسرے ترقی یافتہ ملک کے لیے اس سے مسابقت آسان نہیں۔ ترقی پذیرممالک کی معیشتیں مینوفیکچرنگ سیکٹرمیں چین سے مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہیں۔پسماندہ ممالک توخیرکسی گنتی ہی میں نہیں۔
تجزیہ کاروں کاکہناہے کہ چین کوالگ تھلگ کرنے کے لیے جس نوعیت کی مہارت درکارہے وہ فی الحال امریکاکے پاس نہیں۔ اس معاملے میں غیرمعمولی دوراندیشی درکارہے۔ چین کودبوچنے کے لیے جامع پالیسی اورواضح حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔اب تک ایساکچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ ہوامیں تیرچلائے جارہے ہیں، بڑھکیں ماری جارہی ہیں۔ یہ کیفیت واشنگٹن کے پالیسی سازوں کی بدحواسی کاگراف بلندکررہی ہے۔ چین کوقابو میں رکھنے کے لیے بہت کچھ درکارہے جس کااہتمام کرنے پرفی الحال توجہ نہیں دی جا رہی۔
بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ چین کی بہت سی کمپنیاں اس وقت امریکی معیشت میں اس طرح سے جڑی ہوئی ہیں کہ انہیں الگ کرنا خاصامحنت طلب کام ہوگا۔ کسی ایک حکم نامے کے ذریعے چین کوالگ تھلگ نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا کرنا دونوں بڑی طاقتوں سمیت دنیا بھر کی معیشت کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ چین کوکنٹرول کرنے کاتاثردے کرصدارتی انتخاب پر اثراندازہوناچاہتی تھی اورکوشش یہ کی جارہی تھی کہ چین کوقابومیں کرنے سے متعلق کوششوں میں ٹرمپ ہیروکی حیثیت سے ابھریں لیکن معاملہ بالکل اس کے برعکس نکلا۔اب معاملہ یہ ہے کہ خود امریکی پالیسی سازوں کوبھی درست اندازہ نہیں کہ چین ان کی معیشت میں کہاں تک پیوست ہے، ساتھ ہی المونیم اوردوسری بہت سی دھاتوں کے حوالے سے چین کے علاوہ روس کے ادارے بھی امریکی معیشت سے جڑے ہوئے ہیں۔ جوبائیڈن انتظامیہ کبھی سوچے سمجھے بغیر یا عجلت میں ایسا فیصلہ نہیں کرے گی، یہی سبب ہے کہ ماہرین اس معاملے میں جوبائیڈن کے تحمل کو غیرمعمولی اہمیت دے رہے ہیں۔
چین کے حوالے سے کوئی بھی بڑایاانقلابی نوعیت کاقدم اٹھانے سے پہلے امریکی پالیسی سازوں کویہ دیکھناہوگاکہ ایساکرنے سے امریکی معیشت کے فزیکل سیکٹرپرکیااثرات مرتب ہوں گے۔آج کی دنیامیں ہائی ٹیک کی اہمیت غیرمعمولی ہے، تاہم یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ سب کچھ آن لائن یا ورچوئل تو نہیں۔ایسے معاملات کوغیردانش مندانہ اندازسے نمٹانے کی کوشش کی گئی توشدیدمنفی اثرات مرتب ہی نہیں ہوں گے، دکھائی بھی دیں گے اوربدحواسی بڑھائیں گے اور نتیجتاً اور دنیا کسی نئے تصادم کی طرف بھی جاسکتی ہے۔