7اکتوبر 2023 سے ہونے والے معرکہ طوفان اقصیٰ صہیونی فوجیوں کے لیے موت کا پروانہ ثابت ہوا، جس کے نتیجے میں ان کی عسکری قوت وطاقت کو یاسین 105 میزائل کے ذریعے سے پست کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسری جانب قابض اسرائیل صرف پرامن شہریوں پر اپنی طاقت استعمال کررہا ہے، ان کی جارحیت کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی جام شہادت نوش کرچکے ہیں، ہزاروں زخمی ہیں جبکہ لاکھوں کی تعداد میں اہل فلسطین بے گھر ہوچکے ہیں۔ لیکن وہاں کے باسیوں کی ثابت قدمی کو پورا عالم سلام عقیدت پیش کررہا ہے کہ سب کچھ ختم ہونے کے باوجود اپنے مقصد کے حصول کے لیے پیش قدمی کررہے ہیں، اللہ کی کبریائی بیان کررہے ہیں، اپنے مجاہدین کی ثابت قدمی کے لیے دعائیں مانگ رہے ہیں۔ اسی طرح مجاہدین بھی دشمن کی عسکری طاقت کا غرور خاک میں ملاتے ہوئے، دنیا کو پیغا م دے رہے ہیں کہ اللہ کے پاس ہی حقیقی قوت ہے، اور وہ حقیقی کبریائی کا مستحق ہے۔
5 مارچ بروز منگل کو حماس کے رہنما اسامہ حمدان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس امر کا برملا اظہار کیا ہے کہ دشمن جس طرح میدان جنگ میں ذرہ برابر کامیابی حاصل نہیں کرسکا، اسی طرح وہ سیاسی چال بازیوں کے ذریعے اپنے اہداف حاصل نہیں کرسکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ: اسرائیل اور حماس کے مابین مذاکرات (جس میں قطر اور مصر ثالث ہیں) میں حماس کی جانب سے چار شرائط ہیں، جن میں تخفیف نہیں کی جاسکتی، شرائط ذیل ہیں:
۱۔ مستقل جنگ بندی کا اعلان کیا جائے۔
۲۔ امدادی سامان کے راستے کھولے جائیں۔
۳۔ ہمارے عوام کو اپنے وطن واپس آنے کا راستہ دیا جائے۔
۴۔ اسرائیل کا غزہ سے مکمل انخلا۔
ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں اسرائیل ایک طرف مذاکرات کے لیے ہاتھ بڑھائے اور دوسری جانب فلسطینیوں کا قتل عام کیا جاتا رہے، ہم ہرگز ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ 151 دن گزر چکے ہیں لیکن صہیونی جس کی پشت پر امریکا ہے اجتماعی قتل عام سے باز نہیں آرہا، ستم بالائے ستم کہ اس نے پر امن شہریوں پر بھوک وپیاس کا سماں بپا کیا ہوا ہے، جبکہ یہی لوگ دنیا کو انسانیت، حریت، اور انصاف کا سبق پڑھاتے ہیں۔ اس ظلم وستم کے بعد دنیا نے ان کی اس منافقت کو پہچان لیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ جس ڈوریں امریکا کے ہاتھ میں ہیں اس نے نابلس میں شہید ہونے والے فلسطینیوں پر مذمت کرنے پر اکتفا کیا ہے، اس کو جرم بھی قرار نہیں دیا ہے۔ گویا کہ انصاف، حریت کے پرچار کرنے والے ادارے بھی انسانی نسل کشی پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اسامہ حمدان نے فضائی امداد سے متعلق کہا کہ اس امر کو سراہا جارہا ہے، لیکن اس معمولی سی امداد سے اہل غزہ کی ضروریا ت پوری نہیں کی جاسکتیں، اس لیے ہم فلسطینی کاز کے ممد ومعاونین ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ غزہ سے حصار کے خاتمے کے حوالے سے اپنا مؤثر کردار ادا کریں، تاکہ لوگوں تک بنیادی ضروریات زندگی پہنچائی جاسکیں۔
ہم امریکی صدر جوبائیدن سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل کو اسلحہ کی ترسیل کے دروازے بند کرے، جن سے قابض اسرائیل ہمارے عوام کا خون بہار ہے ہیں۔ اسی طرح اپنا ویٹو سے اسرائیل کی انسانی نسل کشی اور اس کے جرائم پر پردہ نہ ڈالے۔
ہم تمام اہل اسلام سے مطالبہ کرتے ہیں اسرائیل کی نسل کشی اور کے جرائم کے خلاف اپنی تحریک مزید مؤثر طریقے سے جاری رکھتے ہوئے وسیع پیمانے پر مظاہرے اور احتجاج کرتے رہیں۔ بالخصوص ماہ رمضان میں اپنے فلسطینیوں کو یاد رکھیں، ان کی مددکرنے کے جتنے بھی وسائل وذرائع ہیں ان کو بروئے کار لائیں۔
اسامہ حمدان کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ یہ معرکہ اسرائیل کے فلسطین سے انخلا تک جاری رہے گا، بحیثیت مسلم وپاکستانی ہم اس امر کے مکلف ہیں کہ اپنی بساط سے بڑھ کر اہل فلسطین کی ممد ومعاون بنیں، بالخصوص رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں میں ان کے لیے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کیا جائے، اس جہاد میں اپنا مال خرچ کرکے شرکت کا شرف حاصل کیا جائے، اسرائیلی اور اس کی پشت پناہی کرنے والے ممالک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے، اسرائیل کی نسل کشی کے خلاف مظاہرے کیے جائیں، اپنے فیس بک، ٹوئیٹر، ٹیلی گرام ودیگر اکاؤنٹس سے فلسطین کے حق میں اور اسرائیل کے ظلم کے خلاف پیغامات نشر کیے جائیں۔ اللہ ربّ العزت اہل غزہ، فلسطین کو آزادی نصیب فرمائے اور ہمیں القدس کی آزادی میں اپنا کردار اداکرنے کی توفیق عطا فرمائے۔