17 دسمبر 2023 کی رات کو یہ اطلاع ملی کے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے مایہ ناز استاذ وپروفیسر ڈاکٹر محمد الغزالی اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ آپ کی شخصیت سراپا علم وعمل کا پیکر تھی، تواضع وانکساری میں اپنی مثال آپ تھے۔ آپ ملکی وبین الممالک سطح کا علمی دنیا میں نام رکھنے والے ڈاکٹر محمود احمد غازی کے چھوٹے بھائی تھے۔ 11 – اگست 2022 کو پروفیسر ڈاکٹر محمد غزالی (ڈاکٹر محمود غازی مرحوم کے چھوٹے بھائی) کے ساتھ ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ کے علمی، تحقیقی ودعوتی امور کے حوالے سے ملاقات طے ہوئی۔ مرحوم ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب کے ساتھ بیتی لمحات کا ذکر کرنے لگے۔ جن کو ذیل میں پیش کیا جارہا ہے۔
1980 میں جب ڈاکٹر محمد حمیداللہ جامعہ بہاولپور تشریف لائے تو مجھے ان کے ساتھ سفر کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ انہوں نے اس دوران ایک واقعہ سنایا کہ جب میں نے حفظ قرآن مکمل کیا تو تقریب آمین کا انعقاد کیا گیا، جس میں محلے کے بچوں اور خواتین نے شرکت کی، اس خوشی کے موقع پر مٹھائی بنائی گئی، والدہ نے مجھ سے کہا: بیٹا مٹھائی اٹھا کر سب میں تقسیم کرو، کہتے ہیں کہ میں نے والدہ سے کہا: میری تقریب ہے میں پہلے مٹھائی کھاؤں گا، اس کے بعد تقسیم کروں گا۔ والدہ نے کہا: نہیں پہلے تقسیم کرو اس کے بعد تم لینا، لیکن میں بضد تھا کہ اسی اثناء میں خواتین نے کہا کہ بہن رہنے دیجیے پہلے بچہ خود مٹھائی کھالے پھر تقسیم کردے گا، ماں نے کہا کہ نہیں اس کو ابھی سے ہی بڑوں کا ادب سکھانا ہے۔ کہنے لگے: پھر ماں کے حکم کے مطابق پہلے مٹھائی تقسیم کی اور پھر میں نے کھائی۔ ڈاکٹر غزالی صاحب نے یہ واقعہ سنانے کے بعد کہا: کہ جس کی والدہ ایسی تربیت کرتی ہو وہ ڈاکٹر محمد حمیداللہ نہیں بنے گا تو کیا بنے گا۔
آج بھی اگر والدین اپنی اولاد کی اس انداز میں تربیت کریں کہ دین اسلام کا بتایا ہوا نظام حیات ان کو سکھائیں اور اس امر کو اپنے اوپر لازم کرلیں تو نیک وصالح اولاد کی نعمت مل سکتی ہے اور معاشرے کو قد آور شخصیات مل سکتی ہیں جو دین اسلام کی احسن انداز میں خدمت کرسکیں۔ اسی طرح ایک واقعہ یہ بیان کیا کہ ہم لاہور گئے تو ڈاکٹر صاحب میری خوب خدمت کیا کرتے، مثلاً: مجھے جگانا وغیرہ تو میں نے ان سے کہا: ڈاکٹر صاحب مجھے سچ سچ بتائیے آپ ایسا کیوں کررہے ہیں حالانکہ میں آپ کی خدمت کے لیے ساتھ آیا ہوں؟ انہوں نے کہا: اس میں کوئی تصنع نہیں ہے، بس خدمت کے جذبے سے یہ کام کررہا ہوں۔ اسی طرح جب ہم لاہور سے واپس آرہے تھے تو ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے مجھ سے کہا: پوسٹ آفس میں کچھ کام ہے وہاں رکیے گا ۔ میں نے پوسٹ آفس پر گاڑی رکوادی، انہوں نے مجھے کہا: آپ بیٹھیں میں کچھ دیر میں آتا ہوں۔ وہ پوسٹ آفس گئے تو میں نے دیکھا کہ انہوں نے جیب سے ایک لمبی لسٹ نکالی جس میں ان کے پاکستان میں رہنے والے رشتہ داروں کے گھر کے ایڈریس لکھے ہوئے تھے، انہوں نے ان سب کو بذریعہ ڈاک معاونت کی غرض سے رقم ارسال کی۔ ان کے اشاعت دین کے جذبے کے حوالے سے واقعہ سناتے ہوئے کہنے لگے۔
ہم اورینٹل کالج لاہور گئے، وہاں ایک فرانسیسی استاد تھا، اس نے ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کی اور کہا کہ آپ کی دعوت کرنی ہے، آپ میرے گھر تشریف لائیں، ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے پوچھا: کیا ہم ان کے پاس جاسکتے ہیں؟ میں نے کہا: صبح کا وقت ہمارے پاس ہے، تو ڈاکٹر صاحب نے خوشی خوشی ان کی دعوت قبول کی، میں حیران ہوا کہ ڈاکٹر صاحب تو کسی کی دعوت اتنی آسانی سے قبول نہیں کرتے۔ فرانسیسی استاذ ہمیں لینے کے لیے خود آگئے اور کہا کہ: ائر پورٹ پر میں پہنچادوں گا وہ میرے گھر کے قریب ہے۔
ڈاکٹر غزالی صاحب کہتے ہیں: اس دوران مجھے ڈاکٹر حمید اللہ نے کہا: یہ اس قدر شوق کے ساتھ مجھے بلارہا ہے، لگتا ہے کہ وہ قبولِ اسلام کا ارادہ رکھتا ہے، اور اسلام کے متعلق مزید آگاہی لینے کے لیے مجھ سے فرانسیسی زبان میں سوالات کرنا چاہتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس کی دعوت پر اتنا خوش تھے، اتنے جذبے کے ساتھ اس کے پاس گئے کہ اتنے جذبے کے ساتھ جنرل ضیاء الحق کی دعوت پر جاتے ہوئے بھی نظر نہیں آئے، اور بار بار مجھ یہ بات کہتے رہے: ہوسکتا ہے وہ قبول اسلام کا ارادہ رکھتا ہو، ورنہ وہ مجھے کیوں بلاتا۔ راستے سے ڈاکٹر صاحب نے ان کے لیے گلدستہ بھی لیا۔
آپ کی شخصیت معاصر اہل علم کے لیے بالخصوص اور عام لوگوں کے لیے بالعموم نمونہ کی حیثیت رکھتی ہے کہ آپ نے دین کی تعلیمات کو اپنے قول کے ساتھ عمل کرکے پیش کیا۔ ان کی دینی، علمی، تحقیقی ودعوتی خدمات کے حوالے سے سیمینارز کا انعقاد کیا جانا چاہیے تاکہ پاکستانی معاشرہ ان کی خدمات سے آگاہ ہوسکیں اور ان کے اسلوب سے اپنی عملی وتحقیقی وعملی وزندگی میں رہنمائی حاصل کرسکیں۔ اللہ ربّ العزت ڈاکٹر محمد الغزالی کے درجات بلند فرمائیں اور لواحقین کو صبر عظیم سے نوازے۔