(2)
میجر جنرل خادم حسین راجا 1969ء سے لے کر 1971ء تک مشرقی پاکستان میں جی او سی ( جنرل آفیسر کمانڈنگ) تھے۔ ان کی تصنیف:A stranger in my own country EAST PAKISTAN 1969-71 صورتحال کی مستند شہادتوں میں سے ہے۔ جنرل یحییٰ صدرِ پاکستان نے تین مارچ 1971ء کو قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں طلب کیا ہوا تھا۔ یکم مارچ کو اس نے یہ اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا۔ اس وقت مشرقی پاکستان کے گورنر ایڈمرل احسن تھے۔ جنرل خادم حسین راجا کہتے ہیں کہ ایڈمرل احسن نے پوری کوشش کی کہ جنرل یحییٰ اجلاس کے التوا کا اعلان نہ کریں مگر وہ ناکام ٹھیرے۔ اْلٹا یحییٰ خان نے ایڈمرل احسن کو گورنری سے ہٹا دیا۔ ان کی جگہ جنرل صاحبزادہ یعقوب خان گورنر بنے جو پہلے سے مشرقی پاکستان میں ایسٹرن فرنٹ کے کمانڈر کی حیثیت سے موجود تھے۔ صاحبزادہ یعقوب آرمی ایکشن کے خلاف تھے۔ یکم مارچ کو جب قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کیا گیا تو حالات خراب ہو گئے۔ پورا مشرقی پاکستان سڑکوں پر نکل آیا۔ نوشتۂ دیوار صاف نظر آرہا تھا۔ صاحبزادہ یعقوب خان تین دن اور تین راتیں کوشش کرتے رہے کہ صدر بذاتِ خود مشرقی پاکستان آکر صورتحال دیکھے۔ مگر یحییٰ خود آنے سے گریز کر رہا تھا۔ صاحبزادہ یعقوب نے واضح کیا کہ اگر صدر خود نہ آئے تو وہ احتجاجاً استعفا دے دیں گے۔ ہزار دقت کے بعد صدر یحییٰ راضی ہوا کہ پندرہ مارچ کو ڈھاکہ آئے گا۔ مگر فوراً ہی یہ پروگرام منسوخ ہو گیا۔ صاحبزادہ یعقوب خان نے اس بے حسی پر احتجاجاً گورنری سے استعفا دے دیا۔ ایسٹرن کمانڈ سے بھی ان کا تبادلہ کر دیا گیا۔ ان کی جگہ جنرل ٹکا خان آئے جنہیں مغربی پاکستان میں رہنے والے دوسرے افسروں کی طرح اصل صورتحال کا کوئی اندازہ نہ تھا۔ جنرل ٹکا خان کی تعیناتی سے واضح ہو گیا کہ وفاقی حکومت سیاسی حل کے بجائے عسکری حل تلاش کرنے پر بضد ہے۔ بہر طور صدر یحییٰ مارچ کے وسط میں ڈھاکہ آیا۔ اس نے آتے ہی کانفرنس بلائی۔ جنرل خادم حسین راجا نے صورتحال پر بریفنگ دی۔ مگر بہادری کا کام ائر کموڈور مسعود نے کیا۔ مسعود ’’مشرقی پاکستان ائر فورس‘‘ کے سربراہ تھے۔ انہوں نے آرمی ایکشن کے خلاف زبردست گفتگو کی۔ انہوں نے صدر یحییٰ کو یاد دلایا کہ مشرقی پاکستان میں غیر بنگالی آبادیاں بہت زیادہ ہیں۔ مغربی پاکستانی بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ ان کی جان‘ مال اور آبرو کی ذمے داری ریاست پاکستان پر عائد ہوتی ہے۔ آرمی ایکشن کی صورت میں بہت بڑی تباہی آئے گی اور یہ سب لوگ فسادات کی نذر ہو جائیں گے۔ ائر کموڈور مسعود کی تقریر کے دوران مکمل سناٹا چھایا رہا۔ کانفرنس روم میں بسیط خاموشی تھی۔ صدر نے کہا کہ وہ یہ ساری بات سمجھتے ہیں۔ ائر کموڈور مسعود کا چند ہی دن میں تبادلہ کر دیا گیا۔ پھر انہیں وقت سے پہلے ائر فورس سے ریٹائر بھی کر دیا گیا۔ سچ بولنے کی پاداش میں ایک لائق اور بہادر افسر کو اپنے کیریئر کی قربانی دینا پڑی اور فضائیہ ایک بہترین دماغ سے محروم کر دی گئی۔
پھر وہی ہوا جو طے کیا گیا تھا۔ آرمی ایکشن!! جس کے دوران بے شمار غیر مسلح بنگالی بھی مار دیے گئے۔ اندھے کو بھی معلوم تھا کہ99فی صد مقامی آبادی جہاں مخالف ہو وہاں بڑی سے بڑی فوج بھی نہیں جیت سکتی! آخری مرحلے میں جنرل ٹکا خان کی جگہ جنرل امیر عبداللہ نیازی نے آکر کمانڈ سنبھالی۔ جنرل خادم حسین راجا کے الفاظ میں ’’ہم چار بجے شام آپریشن روم میں جمع ہوئے۔ سب سے آخر میں نیازی داخل ہوا۔ اس نے پیٹی میں پستول لٹکایا ہوا تھا۔ اس نے اعلان کیا کہ اس نے کمانڈ سنبھال لی ہے۔ پھر روٹین کی کچھ ہدایات دیں اور یہ بھی کہا کہ افسر جب وردی میں ہوں تو پستول ضرور رکھا کریں۔ کمرے میں کچھ بنگالی افسر بھی تھے۔ ہم سخت پریشان ہوئے جب اس نے گالیاں نکالنا شروع کر دیں۔ اس نے اْردو میں کہا: میں اس حرامزادی قوم کی نسل بدل دوں گا۔ یہ مجھے کیا سمجھتے ہیں۔ پھر اس نے دھمکی دی کہ وہ اپنے سپاہیوں کو ان کی عورتوں پر چھوڑ دے گا۔ اس کی ان باتوں پر سناٹا چھا گیا۔ افسر ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے اور اس بے ہودگی پر حیران تھے۔ اسی اضطراب کی حالت میں اجلاس ختم ہوا۔ اگلی صبح ہمیں ایک افسوسناک خبر ملی۔ میجر مشتاق نامی ایک بنگالی افسر‘ جو جیسور میں میرا ماتحت رہا تھا‘ کمانڈ ہیڈ کوارٹر کے ایک غسل خانے میں گیا اور اپنے سر میں گولی مار لی۔ وہیں‘ اْسی وقت‘ اس کی موت واقع ہو گئی۔ وہ ایک لائق افسر تھا اور عزتِ نفس رکھتا تھا۔ میں اس افسر کو اچھی طرح جانتا تھا۔ اس کی یاد ہمیشہ میرے ساتھ رہے گی۔ افسوس کہ نیازی کے الفاظ اور اعمال کا وہ سب سے پہلا شکار تھا‘‘۔
آگے چل کر جنرل خادم حسین راجا لکھتے ہیں ’’گیارہ اپریل ڈھاکہ میں میرا آخری دن تھا۔ صبح کے وقت میں لیفٹیننٹ جنرل نیازی کو ملنے کمانڈ ہیڈ کوارٹر گیا تا کہ اس سے موجودہ اور آنے والے آپریشن پر بات چیت کروں۔ میں اسے پہلے کہہ چکا تھا کہ بات چیت کے دوران نقشے کا ہونا ضروری ہے۔ اس کا انتظام کر رکھے مگر میرے لیے اس کے پاس ایک اور سرپرائز تھا۔ ایک عجیب سہل انگاری کے ساتھ اس نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگا ’’یار لڑائی کی فکر نہ کرو! وہ تو ہم کر لیں گے۔ فی الحال مجھے بنگالی گرل فرینڈز کے فون نمبر دے دو‘‘۔ میں نیازی کو اچھی طرح جانتا تھا مگر اس کے ساتھ اتنے قریبی تعلقات بھی نہ تھے۔ میرے جیسا مزاج رکھنے والے کے لیے اس کے یہ الفاظ دھماکے سے کم نہ تھے۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ان حالات میں کوئی ہوش مند پاکستانی ان چیزوں کی فکر کرے گا‘ وہ بھی ایک خانہ جنگی کے دوران جو موجودہ حکمرانوں نے قوم پر مسلط کی ہے! میں نے اسے جواب دیا کہ جنرل! آپ مجھے اچھی طرح جانتے ہیں! پھر میں نفرت سے بھری ہوئی حالت میں اس کے دفتر سے نکل آیا‘‘۔
جنرل راجا نے کتاب کے آخر میں پروفیسر رحمان سبحان کے اس مضمون کا اقتباس بھی پیش کیا ہے جو لندن کے جریدے سائوتھ ایشین ریویو کے جولائی 1971ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ یاد رہے کہ رحمان سبحان ایک ممتاز سول سوسائٹی لیڈر اور ماہرِ اقتصادیات تھا۔ اسی نے چھے نکات تیار کیے تھے اور ’’دو معیشتوں‘‘ کا نظریہ پیش کیا تھا۔ اس مضمون میں رحمان سبحان نے لکھا کہ یکم اور سات مارچ کے دوران شیخ مجیب الرحمان پر سخت دبائو تھا کہ وہ مکمل آزادی کا اعلان کر دے۔ مگر اْس نے ایسا نہ کیا اور ایک ایسی پوزیشن لی جو عوامی مطالبے اور فوج کے موقف کے درمیان تھی! وہ اب بھی ایسا حل چاہتا تھا جو متحدہ پاکستان کے اندر ہو! یہ کہنا کہ پارٹی کے انتہا پسند عناصر اس کی گرفت سے نکل گئے تھے‘ درست نہیں! سات مارچ تک اس نے پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط کر لی تھی اور اسی کا حکم حرفِ آخر ہوتا تھا۔ مثلاً جب اسٹوڈنٹ لیڈرز نے خود ہی یہ فیصلہ کیا کہ جو مغربی پاکستانی جا رہے ہیں ان کی کسٹم چیکنگ کی جائے جیسی کہ غیر ملکیوں کی کی جاتی ہے‘ تو شیخ مجیب الرحمان نے چار گھنٹے طلبہ قیادت کے ساتھ بات چیت کی اور یہ فیصلہ واپس کروایا! اس عرصہ میں اس کے رضاکاروں نے صوبے میں مکمل امن و امان رکھا۔
مشرقی پاکستان کبھی واپس نہیں آسکتا۔ مگر لازم ہے کہ ریکارڈ درست کیا جائے! ہم میں اتنی جرأت ہونی چاہیے کہ کھلے ذہن کے ساتھ بنگالیوں کا موقف جانیں اور پھر جو کچھ حقائق پر مبنی ہو اسے تسلیم کریں! غدار غدار کی رٹ لگا کر ہم اپنے آپ کو صرف کمزور ثابت کر رہے ہیں! (بشکریہ: روزنامہ دنیا)