اخلاقیات کے بارے میں جتنا ہمارے مذہب اسلام میں درس دیا گیا ہے، شاید ہی کسی دوسرے مذہب میں دیا گیا ہو۔ لیکن بدقسمتی سے عملاً آج کا مسلمان اس سے کافی دور ہے۔ خصوصاً وطن عزیز پاکستان میں تو اخلاقیات پر عمل کرتے ہوئے شاید لاکھوں میں چند ہی لوگ مل پائیں۔ کیونکہ اخلاقیات عمل سے نظر آنے والی حقیقتوں میں سے ایک ہے نا کہ گرجدار واعظوں میں۔ گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر قوموں کے اخلاقیات کے چند واقعات پڑھے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ کیسے عظیم قوموں نے اپنے عمل کو اپنا وعظ بنایا دوڑ کے مقابلوں میں اینڈ لائن سے چند فٹ کے فاصلے پر کینیا کا ایتھلیٹ عبدالمطیع سب سے آگے تھا، مگر غلط فہمی سے اس نے سمجھا کہ وہ دوڑ جیت چکا ہے۔ اس کے بالکل پیچھے اسپین کا کھلاڑی ایون فرنینڈز دوڑ رہا تھا اس نے جب دیکھا کہ مطیع غلط فہمی کی بنیاد پر رک رہا ہے تو اس نے اسے آواز دی ’’دوڑو ابھی فنش لائن کراس نہیں ہوئی‘‘ عبدالمطیع اس کی زبان نہیں سمجھتا تھا اس لیے وہ بالکل سمجھ نہیں سکا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ یہ بہترین موقع تھا کہ فرنینڈز اس سے آگے نکل کے دوڑ جیت لیتا مگر اس نے عجیب فیصلہ کیا اس نے عبدالمطیع کو دھکا دے کے اینڈ لائن اپنے سے پہلے پار کروا دی۔ تماشائی اس اسپورٹس مین اسپرٹ پر دنگ رہ گئے، فرنینڈز ہار کے بھی ہیرو بن چکا تھا۔
ایک صحافی نے بعد میں فرنینڈز سے پوچھا تم نے یہ کیوں کیا؟
فرنینڈز نے جواب دیا: ’’میرا خواب ہے کہ ہم ایک ایسا معاشرہ قائم کریں جہاں کوئی دوسرے کو اس لیے دھکا دے تاکہ وہ جیت سکے‘‘۔
صحافی نے پھر پوچھا: ’’مگر تم نے کینیا کے ایتھلیٹ کو کیوں جیتنے دیا؟‘‘
فرنینڈز نے جواب دیا: ’’میں نے اسے جیتے نہیں دیا، وہ ویسے ہی جیت رہا تھا، یہ دوڑ اسی کی تھی‘‘۔
صحافی نے اصرار کیا: ’’مگر تم یہ دوڑ جیت سکتے تھے؟‘‘
فرنینڈز نے اس کی طرف دیکھا اور ایسا جواب دیا کہ ہم جس کا تصور تو کر سکتے ہیں، بڑا وعظ بھی بیان کر سکتے ہیں مگر عمل کے شاید نزدیک بھی نہ بھٹکتے وہ کچھ یوں بولا: ’’اس جیت کا کیا میرٹ ہوتا؟ اس میڈل کی کیا عزت ہوتی؟ میری قوم میرے بارے میں کیا سوچتی؟‘‘ اقدار نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں کو کیا سکھانا چاہیے، ’’بلاشبہ یہ کہ جیتنے کے لیے کوئی بھی ناجائز طریقہ اختیار نہیں کرنا‘‘۔ وہ آپ کی نظر میں جیت ہوسکتی ہے، دنیا کی نظر میں آپ کو بددیانت کے علاوہ کوئی خطاب نہیں ملے گا! اسی طرح میاں عمیر صاحب لکھتے ہیں کہ ویزہ لگوانے کے لیے جاپانی سفارت خانے میں جانے کا اتفاق ہوا ایک چھوٹے سے ہال میں ویزے کے خواہش مند افراد کے بیٹھنے اور وہاں موجود دو کھڑکیوں میں کاغذات جمع کروانے کا انتظام تھا میرے ساتھ جانے والے ایک دوست نے ہال کے کونے میں موجود ایک واش روم سے واپسی پر بتایا کہ واش روم کی حالت بہت پتلی ہے اور بہت گندا واش روم ہے یہ بات سن کر مجھے حیرانی ہوئی کہ یہ کیسا جاپانی سفارت خانہ ہے کتنے گندے لوگ ہیں کہ ایک واش روم صاف نہیں رکھ سکتے۔
اسی کشمکش اور ادھیڑ بن میں کوئی ایسا شخص نہ ملا جو ان سوالات کا جواب دے سکتا جب کہ ہال میں کافی رش تھا اور کھڑکیوں کے بلٹ پروف شیشوں کے پیچھے سے ایک آدمی باہر موجود مائیک کے ذریعے جس کی آواز کافی دھیمی لیکن مناسب تھی آنے والے حضرات سے کاغذات وصولی کے ساتھ ساتھ انٹرویو بھی کر رہا تھا لیکن ہال میں موجود لوگوں کے شور کی وجہ سے انٹرویو کرنے اور دینے والے دونوں افراد کو دقت ہو رہی تھی جس وجہ سے اندر موجود شخص بار بار مائیک پر اعلان کر رہا تھا کے انٹرویو میں مشکل ہو رہی ہے اگر آپ لوگ خاموش نہ ہوئے تو باہر دھوپ میں نکال دیا جائے گا اور سارا وقت کھڑا رہنا پڑے گا اس پر چند لمحوں کے لیے خاموشی طاری ہوتی لیکن پھر کچھ وقت گزرنے کے ساتھ آوازیں بلند ہو جاتیں یہ اعلان تھوڑی تھوڑی دیر بعد دہرایا جاتا لیکن نتیجہ وہی نہ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد خیر یہ سلسلہ جاری رہا ہم چونکہ گروپ کی شکل میں گئے تھے اور جاپانی گورنمنٹ کی دعوت بھی تھی تو ہمیں کاغذات وصولی میں کچھ رعایت بھی دی گئی لیکن رسیدوں کے سلسلہ میں ہمیں آخر تک بیٹھنا پڑا ۔
لنچ بریک تک ہال تقریباً خالی ہو چکا تھا لنچ بریک میں مجھے ایک صاحب ملے جو سفارت خانے کے پاکستانی ملازم تھے میرے دماغ میں واش روم والی بات اٹکی ہوئی تھی میں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے ان سے اس بارے استفسار کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ لوگ واش روم وغیرہ کی صفائی کے لیے کسی انسان کو ملازمت پر رکھنا غیر انسانی کام سمجھتے ہیں اندر موجود سارے واش رومز میں صفائی کے لیے جو چیزیں موجود ہیں وہ باہر ہال والے واش روم میں بھی موجود ہیں وہ اسے استعمال کرنے والے شخص کی ذمے داری سمجھتے ہیں کہ وہ استعمال کے بعد مناسب ضروری صفائی کر کے جائے اور اسے دانستہ اس حال میں چھوڑا گیا ہے کہ لوگ شرم کریں ان کی ذمے داری صفائی کے لیے تمام اشیاء مہیا کرنے کی ہے اور وہ موجود ہیں یہ سن کر میری تو وہ حالت تھی کے کاٹو تو لہو نہیں ہم کیسے لوگ ہیں صفائی جن کے ایمان کا نصف حصہ ہے اگر ہماری یہ حالت ہے تو کم از کم نصف بے ایمان تو ہم ہیں جس سے بقیہ نصف کا فیصلہ کرنا کوئی مشکل نہیں۔
خدا راہ اب بھی وقت ہے ہوش کریں اور وعظوں سے آگے نکلیں اور اپنے عمل سے وعظ کا آغاز کریں۔ ان شاء اللہ یہ بگڑی دنیا بدلے گی ایمان رکھیں امید کریں۔