پرانے زمانے میں ایک نہایت ذہین، عقل مند اور دانا انسان ہوا کرتے تھے۔ ان کی بتائی باتیں حکمت و دانائی سے پْر ہوا کرتی تھیں اور جو فیصلہ وہ کر دیا کرتے تھے اس کو رد کرنے والا کوئی نہیں ہوا کرتا تھا۔ اپنی اسی حکمت و دانائی کی وجہ سے وہ پوری سلطنت میں ’’دانا حکیم‘‘ کے نام سے مشہور ہو چکے تھے۔ ان کی اسی شہرت کی وجہ سے اس وقت کا حاکم انہیں نہ صرف پسند کیا کرتا تھا بلکہ خواہش رکھتا تھا کہ وہ اس کے مصاحبوں میں شامل رہیں۔ حکیم صاحب کے اندر شاہی سوچ کے مطابق یہ عیب انتہائی درجے پر پایا جاتا تھا کہ انہیں نہ تو شاہانہ ٹھاٹ باٹ پسند تھے اور نہ ہی حاکمِ وقت کے پابندیاں لہٰذا وہ جب جب شاہ کے ہاتھ لگتے اور غیر اعلانیہ قیدی بنا لیے جاتے، موقع پاتے ہی وہاں سے فرار ہو جایا کرتے لیکن اپنی دانائی کی وجہ سے وہ جہاں بھی جاکر پناہ لیتے، شاہ کو ان کا پتا لگ جاتا اور پھر شاہ کی اسپیشل ایجنسی کے اہلکار ان کو نہایت عزت و وقار کے ساتھ گھیر گھار کر دوبارہ دربارِ شاہی میں حاضری لگانے پر مجبور کر دیا کرتے۔
جس طرح وہ ہر مرتبہ گرفتاری کے بعد کسی نہ کسی طرح راہِ فرار اختیار کر لیا کرتے تھے، اسی طرح ایک مرتبہ پھر وہ قصرِ شاہی سے نکل بھاگنے میں کامیاب ہوئے اور دارالسلطنت کو بھی خیر آباد کہہ کر دوسرے شہر میں کسی رئیس کے مطبخ خانے کے انچارج سے رسم و راہ بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ کیونکہ شرطیں بہت ہی سادہ اور کھانے پینے، رہنے سہنے، رہائش اور چند جوڑے کپڑوں کے علاوہ کسی اجرت کی فرمائش نہیں تھی اس لیے مطبخ کے انچارج کو انہیں رکھنے میں بھلا کیا قباحت ہو سکتی تھی۔ رہائش کے سلسلے میں ایک شرط اور بھی تھی کہ جس رئیس کا وہ باورچی ہے اسے بھی اس بات کا علم نہیں ہونا چاہیے۔
حکیم صاحب کو اپنے پاس رکھ کر گویا مطبخ کے انچارج کے بھاگ ہی کھل گئے تھے کیونکہ حکیم صاحب کو نہ صرف تین سو سے زائد کھانے پکانے آتے تھے بلکہ وہ خود جتنے کھانے پکانا جانتا تھا، ان کے ذائقوں میں بھی ایسی تبدیلی کروادی تھی کہ رئیس بھی انگلیاں چاٹتا رہ جایا کرتا تھا۔ اس تبدیلی اور انوع و اقسام کی ڈشوں میں اضافے پر رئیس نے کئی بار حیرت کا اظہار بھی کیا اور پوچھا بھی کہ ایسی اعلیٰ تراکیب تمہیں کون فراہم کر رہا ہے۔ مطبخ کا انچارج اب یہ بتا کر اپنی حیثیت صفر تو نہیں کر سکتا تھا اس لیے زیرِ لب مسکراتا اور رئیس کا شکریہ ادا کرکے رخصت ہو جاتا۔
جس شہر کا یہ رئیس تھا وہاں شاہ کا آنا جانا بھی لگا رہتا تھا۔ شاہ شکار کا بھی شوقین تھا اور رئیس کی جاگیر میں میلوں تک پھیلے جنگلات میں ہر قسم کے جانور بکثرت ہوا کرتے تھے۔ ایک دن رئیس کے مطبخ کے انچار نے حکیم صاحب کو بتایا کہ بادشاہ سلامت تشریف لانے والے ہیں اور رئیس نے کہا ہے کہ رات کے کھانے میں ایسی ڈش بناؤ جو دنیا کی سب سے اچھی ڈش ہو۔ حکیم صاحب نے کہا کہ تم بے فکر ہوکر جانوروں کی زبانیں لے آؤ۔ یہ سن کر باورچی گھبرا گیا لیکن وہ کیونکہ حکیم صاحب کی صلاحیتوں سے بخوبی واقف تھا اس لیے انکار نہ کر سکا۔ کھانے کے وقت دیگر کھانوں کے ساتھ خصوصی طور پر زبان کی ڈش رکھی اور رئیس کو بتایا کہ یہ شاہ کے لیے خاص ہے۔ جب کھانا شروع ہوا اور شاہ کے لیے ڈش کھولی گئی تو اس میں جانوروں کی زبانیں دیکھ کر رئیس کے پسینے چھوٹ گئے۔ شاہ نے اس میں سے کچھ سالن نکال کر کھایا تو اس کا ذائقہ چکھ کر جیسے واہ واہ کر اٹھا۔ رئیس شدید غصے میں تھا شاہ کے سامنے تو خاموش رہا لیکن بعد میں اپنے باورچی کو بلا کر سخت غصے میں کہا کہ آج رات وہ ڈش پکانا جو دنیا کی سب سے خراب ڈش ہو۔ باورچی کو کیونکہ حکیم صاحب پر بہت ہی اعتماد ہو چکا تھا لہٰذا ساری صورت حال سامنے رکھی۔ حکیم صاحب نے کہا کہ آج بھی زبان کی ہی ڈش تیار کرنا۔ یہ سن کر باورچی کی ٹانگیں کانپنے لگیں تو رئیس نے اسے ساری بات نہایت اچھی طرح سمجھادی جس کو سن کر باورچی کے حواس بحال ہوئے۔ کھانے میں ایک بار پھر زبان کی ڈش دیکھ کر شاہ نے رئیس سے جس کا بدن کاٹو تو خون نہ نکلے، کہا کہ اپنے باورچی کو میرے سامنے پیش کرو۔ رئیس نے نہایت بوکھلاہٹ کے عالم میں باورچی کو بلا بھیجا۔ باورچی کے آنے پر باد شاہ نے کہا کہ جب تمہارے رئیس نے دنیا کی سب سے اچھی ڈش پکانے کو کہا تو تم نے زبان پکائی اور جب غصے میں سب سے بری چیز پکانے کے لیے کہا تو تم نے ایک بار پھر زبان ہی پکائی، اس کی وجہ بتاؤ۔ باورچی نے حکیم صاحب کی ہدایت کے مطابق نہایت اعتماد اور اطمینان کے ساتھ کہا کہ زبان ہی دنیا میں انسان کو اعلیٰ درجے کا انسان بناتی ہے اور زبان ہی وہ چیز ہے جس سے انسان دنیا میں ذلیل و خوار ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ سنتے ہی باد شاہ کھڑا ہوگیا اور تلوار نکال کر نہایت جاہ و جلال کے ساتھ کہا کہ سچ سچ بتاؤ یہ بات تمہیں کس نے بتائی ہے۔ باورچی کے پاس اب چھپانے اور انکار کرنے کا کوئی اور راستہ ہی نہیں تھا۔
ملک میں جس انداز میں قانون کی دھجیاں اڑانے کے بعد ایک شخص پوری قوم کو جس عیاری کے ساتھ اپنے شیشے میں اتارتا جا رہا ہے اسے اگر فوری طور پر شست پر رکھ لیا جائے تو اس ’’حکیم‘‘ کا پردہ فاش ہو سکتا ہے۔کیونکہ صاحب اگر اتنے دانشمند ہوتے تو سارے اداروں کے بھرپور تعاون کے ہوتے ہوئے اس ملک کو تباہی و بربادی کے اس مقام پر کبھی نہیں لے جاتے جس سے باہر نکالنا جوئے شیر لانے سے بھی مشکل تر لگ رہا ہے۔