با اختیار بلدیاتی حکومتوں کا قیام دستوری تقاضا ہے ، جاوید قصوری

251

لاہور (وقائع نگار خصوصی ) امیرجماعت اسلامی پنجاب وسطی محمد جاوید قصور ی نے لاہور پریس کلب میں وقاص بٹ ، ذکر اللہ مجاہد، چودھری محمود الاحد کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلدیاتی حکومت یا لوکل گورنمنٹ کا نظام جمہوری معاشروں میں عوام کے بنیادی مسائل ان کے مقامی نمائندوں کے ذریعے مقامی سطح پر حل کروانے کے لیے متعارف کروایا گیا ہے تاکہ عوام کو بنیادی شہری سہولیات ا ن کے گھر کی دہلیز پر فراہم کی جا سکیں ۔ ترقی یافتہ جمہوری معاشروں میں بلدیاتی حکومتوں کو بااختیار اور مؤثر بنایا گیا ہے۔ بلدیاتی حکومتوں کے انتخابات کے ذریعے عام افراد کو اپنے مقامی حلقوں سے نمائندے منتخب کرنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے، بلدیاتی الیکشن کے اس جمہوری عمل سے غریب اور متوسط طبقہ کے عام افراد میں سے مستقبل کی سیاسی قیادت پروان چڑھتی ہے۔اگر الیکشن کمیشن اور پنجاب حکومت نے ان مطالبات کو تسلیم نہ کیا اور ان تکنیکی بنیادوں پر امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی لینے سے انکار کیا یا انہیں مسترد کیا تو جماعت اسلامی بھرپور احتجاج کرے گی اور مطالبات کی منظوری تک الیکشن کمیشن کے دفاتر پر احتجاجی دھرنے دیے جائیں گے۔لیکن بدقسمتی سے پاکستان کی سیاست پر نسل در نسل قابض چند خاندانوں نے بلدیاتی نظام حکومت کو جان بوجھ کر کمزور، غیرفعال اور غیرمؤثربنا رکھا ہے۔پاکستان میں بااختیار بلدیاتی حکومتوں کا قیام دستوری تقاضا ہے لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان کی نااہلی اور موجودہ و سابقہ حکومتوں کی سازشوں سے بلدیاتی حکومتوں کو ایک طویل عرصہ سے معطل اور غیر فعال بنایا گیا ہے۔محمد جاوید قصوری نے کہا کہ پنجاب لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2021ء کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پنجاب کے 17 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کا اعلان کیا ہے۔جماعت اسلامی بلدیاتی الیکشن کے شیڈول کا خیرمقدم کرتی ہے اور اسے جمہوری عمل کی بحالی سے تعبیر کرتی ہے۔البتہ کچھ سنگین نوعیت کے مسائل اور تحفظات کی وجہ سے جماعت اسلامی ان بلدیاتی الیکشن کو ایک فراڈ الیکشن قرار دیتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پنجاب لوکل گورنمنٹ (الیکشن) رولز 2022ء کے مجوزہ ڈرافٹ کو بنیاد بنا کر بلدیاتی امیدواروں کے لیے الیکشن فیس میں تین گنا تک اضافہ کر دیا ہے، حالانکہ یہ رولز صرف تجاویز کی حد تک ڈرافٹ ہوئے ہیں اور آج تک یہ رولز صوبائی اسمبلی یا صوبائی کابینہ نے منظور ہی نہیں کیے ۔ ان اضافہ شدہ الیکشن فیسوں کی وجہ سے کسی نیب زدہ کونسل یا ویلیج کونسل کے چیئرمین کے امیدوار کو اپنی اور اپنے پینل کے لیے کل 67 ہزار روپے الیکشن فیس جمع کروانا پڑے گی – دوسری طرف میئر کے ایک امیدوار کو اپنی اور اپنے پینل کے لیے 5 لاکھ روپے سے لے کر 8 لاکھ روپے تک الیکشن فیس جمع کروانی پڑے گی۔ایسے فرضی، مجوزہ اور غیر منظور شدہ رولز کی بنیاد پر بلدیاتی امیدواروں کے لیے الیکشن فیس میں تین گنا اضافہ غیر قانونی اور بلاجواز ہے جسے جماعت اسلامی غریب دشمنی اور جمہوریت دشمنی سے تعبیر کرتی ہے۔ یہ ظالمانہ اور غیرقانونی الیکشن فیسیں غریب اور متوسط طبقہ کو بلدیاتی حکومت کے نظام سے نکال باہر کرنے کی کوشش ہے ۔جماعت اسلامی پنجاب الیکشن کمیشن سے مطالبہ کرتی ہے کہ بلدیاتی امیدواروں کے لیے الیکشن فیس کو پنجاب لوکل گورنمنٹ (کنڈکٹ آف الیکشنز) رولز 2013 کے مطابق لاگو کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ پنجاب لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2021 میں ہر نیب زدہ کونسل یا ویلیج کونسل میں بلدیاتی امیدواروں کے 12 رکنی پینل کی لازمی شرط عائد کی گئی ہے، اسی طرح میٹرو پولیٹن کارپوریشنز اور ڈسٹرکٹ کونسلز میں امیدواروں کے 45 سے 75 رکنی پینل کی لازمی شرط عائد کی گئی ہے دوسرے الفاظ میں کوئی شخص اس وقت تک نیب زدہ کونسل یا ویلیج کونسل کا الیکشن نہیں لڑ سکتا جب تک وہ اپنے ساتھ مزید 11 امیدواروں کا پینل نہ بنائے۔ اسی طرح کوئی شخص اس وقت تک میٹرو پولیٹن کارپوریشن یا ڈسٹرکٹ کونسل کی کسی بھی نشست کے لیے الیکشن نہیں لڑ سکتا جب تک وہ اپنے ساتھ 45 سے 75 دیگر امیدواروں کا پینل نہ بنائے اور 5 لاکھ سے 8 لاکھ روپے تک کی الیکشن فیسوں کا بندوبست نہ کرے ۔ یہ بلدیاتی نظام حکومت کو امیروں، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کا ایک کلب بنانے کی سازش ہے۔ یہ پینل سسٹم غیر آئینی اور ناقابلِ عمل ہے جس کا واحد مقصد عام افراد کو بلدیاتی الیکشن لڑنے سے روکنا ہے۔جماعت اسلامی پنجاب الیکشن کمیشن سے مطالبہ کرتی ہے کہ بلدیاتی امیدواروں کے پینل کی لازمی شرط کو غیر آئینی قرار دے کر اس کا خاتمہ کیا جائے۔محمد جاوید قصوری نے کہا کہ پنجاب لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2021 میں ہر نیب زدہ کونسل یا ویلیج کونسل کے چیئرمین کے امیدوار کے لیے اور میٹرو پولیٹن کارپوریشن اور ڈسٹرکٹ کونسل کے میئر کے لیے انٹرمیڈیٹ کی شرط لاگو کی گئی ہے۔انٹرمیڈیٹ کی شرط جو کہ قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کے امیدواروں کے لیے بھی نہیں ہے، ایسی شرط کم شرح خواندگی والے صوبہ پنجاب میں صرف بلدیاتی امیدواروں پر عائد کرنا سراسر غیر آئینی اور عام افراد کو بلدیاتی انتخابات سے دور رکھنے کی سوچی سمجھی سازش ہے۔جماعت اسلامی پنجاب الیکشن کمیشن سے مطالبہ کرتی ہے کہ چیئرمین اور میئر کے امیدواروں پر انٹرمیڈیٹ کی لازمی شرط کا فی الفور خاتمہ کیا جائے۔