کراچی (رپورٹ: حماد حسین)طالب علم استاد کے مثبت اور منفی پہلوئوں کی پیروی کرتا ہے‘ استاد کا عکس طلبہ میں بہت زیادہ نظر آتا ہے‘ اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ طلبہ اپنی بڑھتی ہوئی عمر میں فطری طور پر اطاعت کی منزل میں ہوتے ہیں‘ جذباتی طور پر بھی طالبعلم استاد سے بہت قریب ہوتا ہے‘ تیسری اہم بات یہ کہ استاد اور شاگرد کے افعال کا تعلق مسلسل اور براہ راست ہوتا ہے‘ استاد ایک بچے کی شخصیت کو مکمل کرتا اور علم سے روشناس کراتا ہے‘ اس کی زندگی سے احساس کمتری اور احساس محرومی کو نکال دیتا ہے ‘ وہ طالب علم کی ذہنی اور دماغی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتا ہے‘ اس کی شخصیت کو سنوارتا اور کردار کی تعمیر کرتاہے۔ان خیالات کا اظہار سندھ پروفیسر لیکچرر ایسوسی ایشن کے مرکزی رہنما منور عباس، آل پاکستان پرائیویٹ اسکول اینڈ کالج ایسوسی ایشن کے چیئرمین حیدر علی اور شعبہ درس و تدریس سے وابستہ استاد درشہوار عاطف نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’استاد کا رویہ طالبعلموں پر کس حد تک اثر انداز ہوتا ہے؟‘‘منور عباس کا کہنا تھا کہ بہت سے لوگ استاد کا مرتبہ والدین کے برابر سمجھتے ہیں‘ بعض تو استاد کو والدین کے مقابلے میں زیادہ عزت دیتے ہیں‘ فرش سے عرش پر پہنچانے والے استاد سے طلبہ نہ صرف بے پناہ محبت کرتے ہیں بلکہ بڑے ہو کر اس جیسا بننے کی خواہش بھی دل میں پیدا کرلیتے ہیں‘ ایک استاد اپنے طالب علموں کے لیے ایک رول ماڈل (مثالی کردار) کی حیثیت رکھتا ہے‘ استاد کا رویہ طالب علموں کی شخصیت پر گہرا اثر ڈالتا ہے‘ ایک طالب علم اپنے استاد کی تمام حرکات و سکنات کو نوٹ کرتا ہے‘ استاد کی بول چال، اندازِ تخاطب، مخصوص الفاظ کی تکرار، تکیہ کلام، اس کی صفائی، لباس، ہیر اسٹائل حتیٰ کہ جوتوں کے رنگ سے لے کر میک اپ تک کو نوٹ کرتا ہے‘ استاد کا کلاس میں دیر سے آنا، ٹھیک طرح سے نہ پڑھانا، طالب علموں کی جانب سے پوچھے جانے والے سوالات کے جواب دینے کے بجائے غصہ ہوجانا‘ یہ سب باتیں اور رویے طلبہ نوٹ کرتے ہیں جبکہ اس کے برعکس استاد کے مثبت پہلوئوں، خوبیوں اور اچھائیوں کو بھی طلبہ نوٹ کرتے ہیں‘ یہ بات عام طور پر مشاہدے میں آئی ہے کہ طالب علم اپنے چھوٹے بہن بھائی کو گھر میں پڑھاتے وقت اپنے استاد کی نقل کر رہا ہوتا ہے‘ میری ساڑھے 5 سال کی بیٹی زہرا خود سے 2 سال چھوٹی بہن فضہ سے گھر میں کھیلتے ہوئے ٹیچر (استاد) بن کر کھیل کھیل میں پڑھانے لگتی ہے اور اپنے اسکول کی اساتذہ کے مختلف روپ دھار لیتی ہے‘ اردو پڑھاتے ہوئے اسکارف سر پر لیتے ہوئے اردو کی استانی کی نقل اُتارتی ہے۔ جبکہ میتھس پڑھاتے وقت اپنے انداز کا میک اپ کرکے پڑھاتی ہے۔ اسی طرح پڑھاتے ہوئے غصہ بھی ہوتی ہے تو کبھی مخصوص انداز سے ویری گڈ کا لفظ استعمال کرتی ہے۔حیدر علی کا کہنا تھا کہ استاد کا عکس طلبہ میں بہت زیادہ نظر آتا ہے‘ اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ طالب علم اپنی بڑھتی ہوئی عمر میں فطری طور پر اطاعت کی منزل میں ہوتا ہے‘ دوم یہ کہ جذباتی طور پر بھی طالب علم استاد سے بہت قریب ہوتا ہے‘ تیسری اہم بات یہ ہے کہ استاد اور شاگرد کے درمیان افعال تعلق مسلسل اور براہ راست ہوتا ہے‘ والدین کی طرف سے بھی استاد کو ایک مثالی شخص کا درجہ دیا جاتا ہے جس کے سبب طالب علم استاد کا اثر قبول کر تا ہے‘ استاد اپنے طالبعلموں پر گہرے اور دیر پا نقوش چھوڑتا ہے‘ سوچنے کا انداز ہو، یا نشست و برخاست کے آداب، لکھنے پڑھنے کی عادت ہو یا پسند و نا پسند کی بات ہو‘ غرض ہر بات میں استاد کی جھلک طلبہ میں نظر آتی ہے۔ درشہوار عاطف کا کہنا تھا کہ جب تک شاگرد میں علم کی جستجو، طلب ، پیاس اور استاد کا احترام نہیں ہوگا وہ کچھ نہیں سیکھ سکے گا‘ استاد اپنا احترام بھی خود ہی کراتا ہے‘ اپنی صلاحیتوں سے، اپنی مہارتوں سے، اپنی ریاضت سے، اپنے پیشے سے، جذباتی وابستگی سے، اپنے تحمل سے اگر ایک استاد میں یہ سب کچھ نہیں ہوتا تو وہ اپنے شاگردوں کا آئیڈیل استاد نہیں بن پاتا‘ استاد اپنے رویے اور مہارت سے بچوں کی توجہ حاصل کر لیتا ہے ‘ ان تمام خوبیوں کے بعد ایک ٹیچر اپنے بچوں پر اثر انداز ہوتا ہے‘ ایک استاد بچوں کو سوچنا، سمجھنا اوربولنا سکھاتا ہے‘ اس کی غلطیوں پر تعمیری تنقید کرتا اور اس کو غلطیوں سے روکتا ہے لیکن اتنے مفید مؤثر اور حکیمانہ انداز میں کہ صرف اپنے رویے کی خوش گواری ہی سے ان کو احساس دلادیتا ہے کہ اس نے جو کچھ کیا ہے غلط کیا ہے ‘ استاد ایک بچے کی شخصیت کو مکمل کرتا ہے‘ اس کی زندگی سے احساس کمتری اور احساس محرومی کو نکال دیتا ہے‘ وہ طالب علم کی ذہنی اور دماغی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتا ہے‘ اس کی شخصیت کو سنوارتا اور کردار کی تعمیر کرتا ہے‘ یہ اپنے اخلاق و رویے سے ہماری نسل کی کردار سازی اور ذہن سازی کرتا ہے۔