کراچی (رپورٹ: حماد حسین) کتب بینی میںکمی، سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ نے ہماری نسل نو کو تباہ کردیا‘ معاشرتی انتشار بڑھا، اپنی روایات اور مذہبی تعلیمات سے دوری پیدا ہوئی‘ ہماری ترجیحات بدل گئیں‘ ڈیجیٹل طریقے سے کتاب پڑھنے کے باعث ذہن ماؤف ہو جاتا ہے‘ ہم سوشل میڈیا سے ٹھیک طرح استفادہ نہیں کر رہے‘ مہذب قومیں ہمیشہ حصول علم کے ذریعے خود کو منواتی ہیں۔ان خیالات کا اظہار علما یونیورسٹی کے شعبہ میڈیا سائنسز اینڈ ڈیزائن کی ڈین ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی، سینئر صحافی، افسانہ نگار اور دانشور فاروق عادل اور جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ تعلیم کی پروفیسر ڈاکٹر حمیدہ ظفر نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کتب بینی کے رجحان میں کمی کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں؟‘‘ ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی کا کہنا تھا کہ کتب بینی کم ہونے کی وجہ سے جو اثرات معاشرے پر پڑ رہے ہیں وہ روز روشن کی طرح عیاں ہیں‘ معاشرتی انتشار و خلفشار، اپنی روایات اور مذہبی تعلیمات سے دوری، بزرگوں کا احترام نہ کرنا، ترجیحات کا بدل جانا، فرنگیوں کی اقدار اپنانا اور اس پر فخر کرنا وغیرہ ایسے معاملات ہیں جو کہ بہت سنجیدہ نوعیت کے ہونے کے ساتھ فوری توجہ کے متقاضی ہیں‘ کتابوں اور کتب خانوں کا ہماری نئی نسل سے تعلق بہت کمزور ہوگیا ہے‘ نئی ایجادات ہمیشہ فائدہ مند ہوتی ہیں یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں لیکن سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ نے ہماری نسل نو کو تباہ کردیا‘ ہم نے سوشل میڈیا سے استفادہ کرنے کے بجائے اسے وقت ضایع کرنے کے لیے استعمال کیا‘ ترقی یافتہ اور مہذب قومیں ہمیشہ حصول علم پر زور دیتی ہیں‘ اسی وجہ سے ترقی کرتی ہیں اور دنیا میں خود کو منواتی ہیں‘ جن ممالک نے کتاب سے رشتہ جوڑا، ترقی و خوشحالی نے ان کا ہاتھ تھام لیا‘ پر امن اور مستحکم معاشرے کے قیام کے لیے مطالعہ ، اسلاف کے کارنامے ، ان کی کامیابی کے راز جاننا ضروری ہوتا ہے اور یہ صرف مطالعے سے ہی ممکن ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم ایک منتشر اور بے سمت معاشرے میں رہ رہے ہیں‘ اس کو درست خطوط پر استوار کرنے کے لیے جو اقدام اٹھانے ہیں ان میں کتب بینی سر فہرست ہے‘ دنیا میں کتب خانے قائم ہو رہے ہیں اور ملک عزیز میں بند، دوسرے ممالک میں تحقیقات ہو رہی ہیں، اچھی اچھی کتابیں شائع ہو رہی ہیں اور انعامات حاصل کر رہی ہیں اور ہم ان سے فائدہ تک نہیں اٹھا رہے‘ کتابیں ہی جینے کا ڈھنگ سکھاتی ہیں‘ ذہن کے بند دریچے کھولتی ہیں ‘ آپ کے تخیل کو پرواز عطا کرتی ہیں اور سب سے بڑھ کر سوچ کو مثبت طرز فکر دیتی ہیں‘ ہمارے معاشرے میں بگاڑ اور منفی طرز عمل کی ایک وجہ کتاب اور مطالعے سے دوری ہے۔پہلے لوگ باقاعدہ کتب خانے جا کر کتب بینی کرتے تھے، جو قوت خرید نہیں رکھتے تھے وہ سستی لائبریریوں سے کرایے پر کتابیں لے کر پڑھتے تھے، یہ سب ان کی زندگیوں کا حصہ تھا‘ اب موبائل فون ہے اور سوشل میڈیا ہے، کتب بینی قصہ پارینہ ہوگی‘سب کچھ PDF میں دستیاب ہے جس موضوع پر معلومات درکار ہوں ڈائون لوڈ کریں‘ کاپی پیسٹ کریں اور اسائنمنٹ تیار، نہ اپنے مقالے یا اسائنمنٹ کے حوالوں کی کتابیں پڑھنے کی جستجو، نہ کتب خانوں کی خاک چھاننے کی زحمت، صرف ایک کلک پر سب حاضر ہے‘ ہم جب طالب علم تھے تو ایک موضوع پرکام کرنے کے لیے کئی کتابیں کنگھال لیتے تھے اس طرح مزید معلومات بھی ملتی رہتی تھیں‘ مگر یہ سب اب ماضی کے قصے ہوئے۔ فاروق عادل کا کہنا تھا کہ آپ کے سوال نے تو یہ طے ہی کر دیا ہے کہ کتب بینی کے رجحان میں کمی واقع ہو گئی ہے‘ میرے خیال میں یہ ایک مفروضہ ہے کہ کتب بینی کے رجحان میں کمی واقع ہو چکی ہے‘ ابھی یہ ثابت ہونا باقی ہے کہ واقعی کمی ہو گئی ہے‘ یہ ثبوت میرے خیال میں اسی صورت میں میسر آ سکتا ہے کہ اگر کسی سائنٹیفک تحقیق کے ذریعے اسے ثابت کر دیا جائے‘ زیادہ سے زیادہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بعض طبقات میں کتب بینی زیادہ ہے اور بعض میں نسبتاً کم ہے‘ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ کا تعلق روزگار سے ہے‘ ہمارے ہاں چونکہ غربت زیادہ ہے‘ اس لیے روزی روٹی کے چکر میں پھنسا ہوا طبقہ 2وقت کی روٹی سے آگے کچھ دیکھ ہی نہیں پاتا‘ ضروری ہے کہ پبلشر اور حکومت اس سلسلے میں اپنے طرز عمل میں تبدیلی پیدا کرے اور کوئی بامعنی پالیسی تیار کرے۔ یہ طرز عمل صرف عوام نہیں‘ خود ان اداروں کے مفاد میں بھی ہوگا‘ اب رہ گیا بنیادی سوال کہ مطالعے میں کمی کے اثرات کیا ہیں۔ مثالیں بہت سی ہیں لیکن ایک ہی پیش کرتا ہوں‘ ہم دنیا بھر کا سفر کرتے ہیں لیکن کبھی کسی کو راہ چلتے ہوئے تھوکتے دیکھا اور نہ کسی کو سڑک کنارے پیشاب کرتے ہوئے دیکھا‘معاشرتی حوالوں سے یہی 2مثالیں کافی ہیں‘ اس سوال کا جواب ہمیں ایک بڑے تناظر میں بھی تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ہماری قوم کا ایک بڑا حصّہ یا اس کی اکثریت اکثر ذہنی طور پر اغوا کیوں ہو جاتی ہے؟ خاص طور پر اس موقع پر جب کبھی جمہوریت کی بیخ کنی کر کے مارشل لا لگایا جاتا ہے یا کسی خاص موقع پر کسی تصور یا تعصب کے ہاتھوں ہوا۔ جیسے چند برس قبل کرپشن اور احتساب کے نام پر ہوا یا سندھ میں لسانی تعصب کے ہاتھوں ہوا‘ ظاہر ہے کہ اس قسم کے تصورات بڑی مہارت سے تراشے جاتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ پڑھے لکھے معاشروں میں اس قسم کی مہارت رکھنے والے کامیاب کیوں نہیں ہوتے؟ سبب وہی سوال ہے جو آپ نے اٹھایا یعنی کتب بینی میں کمی ہے۔ بچپن میں سنا کرتے تھے کہ مطالعہ بہترین ساتھی اور کتاب بہترین استاد ہے۔ تو بات یہ ہے کہ ہم اس بہترین ساتھی اور بہترین استاد سے محروم ہو چکے ہیں یا ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹر حمیدہ ظفر کا کہنا تھا کہ کتاب وہ خزانہ ہے جس کے ذریعے ہم ان بزرگوں سے ملتے ہیں جو ہمارے لیے علم کی لازوال دولت محفوظ کر گئے ہیں‘ کتب بینی ایک ایسی دوربین ہے جس کے ذریعے انسان دنیا کے گوشے گوشے پر نظر ڈالتا ہے‘ کتب بینی ایک ایسا مشغلہ ہے جس کے ذریعے معاشرے میں رہنے والا انسان اپنے ذہن میں اجاگر ہونے والے کئی سوالوں کے جواب تلاش کر سکتا ہے۔ کتب بینی کا مشغلہ رکھنے والے لوگ علم کے خزانے سے مالامال ہوتے ہیں‘ کتب بینی کے ذریعے انسان معاشرے میں ہونے والے بہت سے مسائل کا حل تلاش کر سکتا ہے اور معاشرے کو بہتر بنانے میں کار آمد ثابت ہو سکتا ہے۔”ہم نشینی اگر کتاب سے ہو۔اس سے بہتر کوئی رفیق نہیں” کتب بینی کی اہمیت بیان کرنے کے بعد آج کل کے نوجوانوں میں اس بہترین شوق کے نہ ہونے پر جو معاشرے میں منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اُن پر روشنی ڈالتے ہیں۔ جس طرح آج کے معاشرے میں کتب بینی کو موبائل فون سے replace کر دیا گیا ہے‘ مثلاً آج کے معاشرے میں رہنے والے لوگ کتاب کھولنے کے بجائے ڈیجیٹل طریقے سے کتاب کو پڑھ رہے ہیں جس سے ان کا ذہن ماؤف ہو کر رہ گیا ہے اور سوچ محدود ہو گئی ہے کہ جتنا انٹرنیٹ بتائے گا بس اتنا ہی پڑھیں گے جب کہ کتب بینی کا مقصد معاشرے میں رہنے والے لوگوں کی سوچ کو وسیع کرتا ہے‘ کتب بینی کی اہمیت نہ جاننے والے لوگ اور معاشرہ ہمیشہ علم کے خزانے سے محروم رہتا ہے۔