مغربی دنیا میں اسلاموفوبیا کو جنگو ں اور ووٹوں کے حصول کیلئے استعمال کیا گیا

447

کراچی (رپورٹ: حماد حسین) مغربی دنیا میں اسلامو فوبیا کو جنگوں اور ووٹوں کے حصول کے لیے استعمال کیا گیا‘ ٹرمپ اور کیمرون نے سیاسی مقاصدکے لیے مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہوا دی‘ مغربی دنیا اسلامی نظریات کو اپنے معاشرے کی اقدار سے متصادم سمجھتی ہے‘ اسلامو فوبیا مسلمانوں کے برے کاموں کا نتیجہ نہیں‘ نائن الیون حملوں کا اثر ابھی بھی موجود ہے‘اسلام اپنی حقانیت کی وجہ سے غیر مسلم دنیا کو متاثرکررہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار سابق ڈین سوشل سائنسز جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد قادری، وفاقی جامعہ اردو کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر رضوانہ جبیں اور تحریک انصاف کی رکن سندھ اسمبلی رابعہ اظفر نظامی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’مغربی دنیا میں اسلامو فوبیا کے پھیلائو کے اسباب کیا ہیں؟‘‘ محمد احمد قادری کا کہنا تھا کہ اسلام اپنی حقانیت کی وجہ سے غیر مسلم دنیا کو متاثرکر رہا ہے اور اسی خوف کی وجہ سے متعصب مغربی پارلیمنٹرینز، اسکالرز اور انتہا پسند افراد کبھی مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں تو کبھی مسلمانوں کے باہمی اتحاد سے خوف زدہ ہوجاتے ہیں‘ وہ تعلیمات الٰہی سے بھی گھبراتے ہیں کیونکہ اسلام کی تعلیمات رنگ و نسل، ذات پات اورکم تر و برتر کے رجحان کو ٹھکراتی ہے‘ اسلامو فوبیا کی اصطلاح بھی مغربی دنیا کی بنائی ہوئی ہے‘ اس کا بنیادی مقصد مسلمانوں اور اسلام کے خلاف منفی پروپیگنڈے کو عام کرنا ہے اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ مسلمان دنیا بھر میں بزور طاقت اپنی حکمرانی قائم کرنا چاہتے ہیں اس کی دلیل میںمختلف جنگوں کے حوالے دیتے ہیں کہ ہمیشہ مسلمانوں نے دیگر اقوام اور مذاہب کے پیروکاروں پر حملے کیے جبکہ ماضی میں مسلمانوں نے جب بھی کوئی حملہ کیا ہے تو اس کی پیچھے مظلوموں کی داد رسی ضرورہوتی تھی‘ اسلام امن کا درس دیتا ہے۔ رضوانہ جبیںکا کہنا تھا کہ مغربی دنیا میں اسلامو فوبیا کے پھیلاؤ کے اسباب میں 11 ستمبر کا واقعہ اہم ہے‘ اس کے بعد اسلامو فوبیا میں اضافہ ہوتا گیا ‘ اگرچہ اس حملے کو21 سال ہو چکے ہیں لیکن آج بھی مغربی معاشرے میں اسلامو فوبیا عروج پر ہے‘ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اسلام مخالف باتوں اور اقدامات نے اسلامو فوبیا کو مزید تقویت دی ہے‘ اسی طرح برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے لندن میئر کے الیکشن میں مسلمان امیدوار کے خلاف اسلامو فوبیا کا استعمال کیا اور کہا کہ مجھے صادق خان کے بارے میں شدید خدشات ہیں‘ منافرت پر مبنی خیالات کے بعد حجاب پہننے والی خواتین کو بھی مختلف واقعات میں نشانہ بنایا گیا‘ 11 ستمبر کے بعد یہ سوچ بڑھتی جا رہی تھی کہ مسلمان مغربی معاشرے کے لیے ایک مسئلہ ہیں‘ مسلمانوں کی سوچ اور مذہب مغربی معاشرے کے اقدار سے متصادم ہے‘ اسلامو فوبیا ایک عالمی وبا کی طرح ہے‘ اقوام متحدہ کے مطابق عالمی سطح پر عدم برداشت، امتیازی سلوک، نسل پرستی، منفی تصورات اور مذہب کی بنیاد پر افراد کے خلاف تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے اور عالمی سطح پر تشویشناک رجحان اسلاموفوبیا کا فروغ ہے‘ 2005ء میں اقوام متحدہ کے کچھ ارکان نے مسلم دنیا اور مغرب کے درمیان تقسیم اور تلخی کو ختم کرنے کے لیے الائنس آف سویلائزیشین کی بنیاد رکھی اس کا مقصد تمام ثقافتوں، روایات اور مذہبی عقائد کے لیے باہمی احترام کو آگے بڑھانا اور خاص طور پر مغرب اور اسلام کے درمیان تلخی کو ختم کرنا تھا‘ باہمی احترام کے مطالبے میں متنازع خاکوں کی اشاعت سے پیدا ہونے والے تناؤ اور عدم برداشت پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا‘ عالمی امن اور بھائی چارے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کے مذہبی عقائد کا احترام کریں‘ مذہبی امتیاز کو ختم کرنے اور تشدد پر اکسائے جانے کی حوصلہ شکنی کرنا چاہیے‘ اسلاموفوبیا کے مسئلے کو مل کر حل کرنے کی جانب زور دینا چاہیے‘ اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرنے اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے اس پیغام کو پھیلانے کی ضرورت ہے کہ اسلام زندگی کے ہر میدان میں اعتدال پسندی کی تعلیم دیتا ہے اور کسی بھی حالت میں دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتا۔ رابعہ اظفر نظامی کا کہنا تھا کہ اسلامو فوبیا مسلمانوں کے برے کاموں کا نتیجہ نہیں ہے‘ مغرب میں یہ تباہ کن جنگوں اور ووٹوں کے حصول کا ذریعہ بھی ہے‘ مسلمانوں کے لباس، رسوم و رواج، ثقافت، زبانیں اور ان کے مذہبی جذبات ایک دوسرے سے مختلف ہیں‘ عالمی برادری مسلمانوں کے ایک بڑے حصے کی سوچ کو لبرل اور سیکولر معاشرے سے متصادم سمجھتی ہے‘اس سلسلے میں میں سمجھتی ہوں کہ مسلمانوں کو اپنے اندر تنقید برداشت کرنے کا جذبہ پیدا کرنا چاہیے ۔