افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

384

عبادات کا مقصد :نماز، روزہ وغیرہ اعمال صرف اسی صورت میں بْرائی سے بچنے کا بہترین ذریعہ اور معاشرے کو صحیح ڈگر پر چلانے کا آلہ ہوسکتے ہیں جب انھیں خلوص کے ساتھ کیا جائے، اور خلوص کے ساتھ آدمی ان پر اسی صورت میں کار بند ہوسکتا ہے جب وہ ایمانداری سے یہ سمجھتا ہو کہ خدا ہے اور مَیں اس کا بندہ ہوں اور محمد رسول اللہؐ واقعی اللہ کے رسول تھے اور کوئی آخرت آنے والی ہے جس میں مجھے اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص ان سب باتوں کو خلافِ واقعہ سمجھتا ہو اور یہ خیال کرتا ہو کہ محمد رسول اللہؐ نے محض اصلاح کے لیے یہ ڈھونگ رچایا ہے، تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس صورت میں بھی یہ عبادت بْرائی سے بچنے کا ذریعہ اور معاشرے کو صحیح ڈگر پر چلانے کا آلہ بن سکے گی؟ ایک طرف ان عبادات کے یہ فوائد بیان کرنا اور دوسری طرف اْن فکری بنیادوں کو خود ڈھا دینا جن پر ان عبادات کے یہ فوائد منحصر ہیں، بالکل ایسا ہے جیسے آپ کسی کارتوس سے سارا گن پائوڈر نکال دیں اور پھر کہیں کہ یہ کارتوس شیر کے شکار میں بہت کارگر ہے۔ (ترجمان القرآن، جون 1962ء)
عبادات میں اخلاص اسلام کا مزاج بلاشبہہ بہت نازک ہے، مگر اللہ تعالیٰ کسی انسان کو اس کی استطاعت سے زیادہ مکلف نہیں فرماتا۔ قرآن و حدیث میں جن چیزوں کے متعلق ذکر کیا گیا ہے کہ وہ عبادات کو باطل یا بے وزن کردینے والی ہیں، ان کے ذکر سے دراصل عبادات کو مشکل بنانا مطلوب نہیں ہے بلکہ انسان کو ان خرابیوں پر متنبہ کرنا مقصود ہے تاکہ انسان اپنی عبادات کو اْن سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرے، اور عبادات میں وہ روح پیدا کرنے کی طرف متوجہ ہو جو مقصود بالذات ہے۔ عبادات کی اصل روح تعلق باللہ، اخلاص للہ اور تقویٰ و احسان ہے۔ اس روح کو پیداکرنے کی کوشش کیجیے اور ریا سے، فسق سے، دانستہ نافرمانی سے بچیے۔ ان ساری چیزوں کا محاسبہ کرنے کے لیے آپ کا اپنا نفس موجود ہے۔ وہ خود ہی آپ کو بتا سکے گا کہ آپ کی نماز میں، آپ کے روزے میں، آپ کی زکوٰۃ اور حج میں کس قدر اللہ کی رضاجوئی اور اس کی اطاعت کا جذبہ موجود ہے، اور ان عبادتوں کو آپ نے فسق و معصیت اور ریا سے کس حد تک پاک رکھا ہے۔ یہ محاسبہ اگر آپ خود کرتے رہیں تو ان شاء اللہ آپ کی عبادتیں بتدریج خالص ہوتی جائیں گی اور جتنی جتنی وہ خالص ہوں گی، آپ کا نفس مطمئن ہوتا جائے گا۔ ابتدائً جو نقائص محسوس ہوں، ان کا نتیجہ یہ نہ ہونا چاہیے کہ آپ مایوس ہوکر عبادت چھوڑ دیں، بلکہ یہ ہونا چاہیے کہ آپ اخلاص کی پیہم کوشش کرتے جائیں۔
عبادات میں نقص کا احساس :خبردار رہیے کہ عبادت میں نقص کا احساس پیدا ہونے سے جو مایوسی کا جذبہ اْبھرتا ہے، اْسے دراصل شیطان اْبھارتا ہے اور اس لیے اْبھارتا ہے کہ آپ عبادت سے باز آجائیں۔ یہ شیطان کا وہ پوشیدہ حربہ ہے جس سے وہ طالبین خیر کو دھوکا دینے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن ان کوششوں کے باوجود یہ معلوم کرنا بہرحال کسی انسان کے امکان میں نہیں ہے کہ اس کی عبادات کو قبولیت کا درجہ حاصل ہو رہا ہے کہ نہیں۔ اس کو جاننا اور اس کا فیصلہ کرنا صرف اس ہستی کا کام ہے جس کی عبادت آپ کر رہے ہیں، اور جو ہماری اور آپ کی عبادتوں کے قبول کرنے یا نہ کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ ہر وقت اس کے غضب سے ڈرتے رہیے اور اس کے فضل کے اْمیدوار رہیے۔ مومن کا مقام بَینَ الخَوفِ وَالرَّجَاء (خوف اور اْمید کے درمیان) ہے۔ خوف اس کو مجبور کرتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ بہتر بندگی بجا لانے کی کوشش کرے، اور اْمید اس کی ڈھارس بندھاتی ہے کہ اس کا ربّ کسی کا اجر ضائع کرنے والا نہیں ہے۔ (ترجمان القرآن، جنوری، فروری 1951ء)