کراچی (رپورٹ/ محمد علی فاروق) بھارت میں حکومت کی سر پرستی میں مسلمانوںپر ظلم کیا جارہا ہے، ایسے میں حکومت کے خلاف بغاوت کرنا ایک طرح آگ میں کودنے کے مترادف ہوگا، بھارت کا میڈیا بھی مسلمانوں کے خلاف تند و تیز و پر تشدد تجزیے پیش کر کے ہر برائی کی جڑ مسلمانوںکو ہی گردانتا ہے، مسلمانوںکو گزشتہ 70سال کے دوران بہت تکنیکی طریقے سے دبا یا گیا حکومتی سطح پر انہیں سر کاری ملازمتوں سے دور رکھا گیا،بھارت میں مسلمان بکھری ہوئی حالت کے سبب یرغمالی صورت حال سے دوچار ہیں، بھارتی مسلمانوں کے پاس کو ئی مضبوط لیڈر شپ بھی موجود نہیں ہے‘ مسلمان کسی بڑی تبدیلی کا باعث نہیںبن سکتے، امت مسلمہ اپنا اجتماعی شعور اور اجتماعی رول نہیں سمجھے گی اس وقت تک جبر وتشدد کا سلسلہ بڑ ھتا رہے گا، جب ایسے حالات مزید بڑھیں گے تو لیڈ ر شپ خود ہی پیدا ہوجائے گی ۔ ان خیالا ت کا اظہار سابق سفارتکار عزیز خان ، جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر راشد نسیم، جامعہ کراچی شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی چیئر پرسن پرو فیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم اور معروف تجزیہ کار ڈاکٹر نواز الہدیٰ نے جسارت سےخصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ سابق سفارت کار عزیز خان نے کہا کہ میںنہیںسمجھتا کہ بھارت کہ مسلمان کسی بغاوت پر آمادہ ہوسکیں گے کیونکہ وہاں کے مسلمانوں کی زیادہ اکثریت غریب ہے کم درجے کی ملازمتیں کرتے ہیںاور ان کے چھوٹے چھوٹے کاروبار ہیں‘بہت کم مسلمان ہیں جو معاشی طور پر مضبوط ہیں ، بھارتی مسلمانوں کے پاس کو ئی مضبوط لیڈر شپ بھی موجود نہیں ہے ، آبادی کے لحاظ سے بھی بہت کم ہیں اور بھارت میںمختلف علاقوں میں آباد ہیںجس کی وجہ سے مسلمان کسی بڑی تبدیلی کا باعث بھی نہیںبن سکتے، بحرحال ایسے حالات میں بھارتی مسلمانوںکو مشکل حالات سے ہی گزرنا پڑے گا ۔ جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر راشد نسیم نے کہا کہ اصل مسئلہ بھارت کی اقلیت کا نہیں ہے مسلمان ممالک میں بھی بہت سے مسائل ہیں جیسے بنگلا دیش، شام یمن ، بر ما، فلسطین میں ظلم ہورہا ہے یہ ساری صورت حال اس بات کا تقاضا کر رہی ہے کہ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نیل کے ساحل سے لے کر تاباخاکِ کاشغر ، یہ کیفیت جب تک امت مسلمہ میں پیدا نہیںہوگی اور امت مسلمہ اپنا اجتماعی شعور اور اجتماعی رول نہیں سمجھے گی اس وقت تک جبر وتشدد کا سلسلہ بڑ ھتا رہے گا اور یہ تب ہی ممکن ہوگا جب مسلم ممالک میں ہر ایک اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کو ختم کرکے ایک جسد خاکی بنیں۔ افغانستان میں جو تبدیلی آئی ہے اس سے ایک امید بحر حال بنی ہے ،یہ کیفیت بڑھے گی مگر اس میںتھوڑا وقت ضرور لگے گا، بھارت میں جو مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے یہ جبر زیا دہ دیر نہیںچل سکتا اس کے خلاف کچھ حد تک مزاحمت ہورہی ہے اور یہ مزاحمت بھی بڑھے گی۔ راشد نسیم نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر امت مسلمہ جب تک ایک جسم کی طرح ہوکر اس درد کو محسوس نہیںکرے گی اس وقت تک راستے نہیںنکلیںگے ، بھارتی مسلمانوں میں ایک لاوا ابل رہا ہے، بلا آخر اس لا وے کو پھٹنا ہے جب یہ پھٹے گا تو پھر راستے خود ہی بنا لے گا ،اصل امت مسلمہ کی اجتماعی شعودکی بید اری مقصود ہے سار ے مسائل کا حل خود ہی نکل آئے گا ، ایسا نہیںہوا کہ پہلے لیڈ ر شپ بنے اور پھر حالا ت پیدا ہوں بلکہ پہلے ایسے حالات پیدا ہوتے ہیںجس میں ایک لیڈر شپ جنم لیتی ہے ،اور جب ایسے حالات پیدا ہوںگے تو لیڈ ر شپ خود ہی پیدا ہوجائے گی ،ان تمام مسائل میں دو قومی نظریے کے خلاف اور پاکستان بننے کے بھی مخالف بھارتی مسلمانوںکو یہ بات سوچنی چاہیے کہ پاکستان بننے کے بعد مسلمان بہت محفوظ ہوگیا ہے ہمارے اپنے مسائل ایک طر ف مگر وہ خطرات مسلمانوںکو نہیںہیںجو بھارت میںبسنے والے مسلمانوںکو درپیش ہیں۔ جامعہ کراچی شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی چیئر پرسن پرو فیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم نے کہا کہ اس وقت زمینی حقائق 1947ء سے بہت مختلف ہیں اس وقت بر صغیر پر برطانیہ کاتسلط تھا ہندو مسلم سمیت دیگر اقلیتوں کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ انگریز اپنے مفادات تک یہا ں ہیں، بعد ازاں انہوں نے واپس جانا ہے اس وقت مسلمان مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر منظم ہوگئے تھے جس کی وجہ سے مسلم لیگ ایک مضبوط جماعت بن کر سامنے آئی تھی ، ممکن ہے بھارت میں اس طرح کی پھر کوئی جماعت وجود میں آجائے اور بھارت کے مسلمان پھر کسی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوسکیں ،اس وقت بھارت میں جو کچھ ہورہا ہے وہ حکومت کی سر پرستی میں کیا جارہا ہے، ایسی حکومت کے خلاف بغاوت کرنا ایک طرح آگ میں کودنے کے مترادف ہوگا،اور الگ ریا ست کے تصور یا سیاسی طورپر اس ایجنڈے کو لے کر منظم ہونا بہت زیا دہ مشکل نظر آتا ہے بلکہ ناممکنات میں سے محسوس ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال میں بھارت کے کسی شہر میں مسلمان بغاوت بلند کریں گے تو اس بغاوت کو با آسانی کچل دیا جائے گا۔ بھارت کے مختلف شہروں میں مسلمانو ںکے نمائندے تو بہت نظر آتے ہیں مگر وہ کسی ایک پالیسی پر متفق نہیں ہیںکیونکہ اس وقت بھارت میں بسنے والے مسلمان نہ تو منظم ہیں اور نہ ہی ان کے پاس ایک ایسی لیڈ ر شپ موجود ہے جو انہیںکسی ایک نقطے پر جمع کر سکے، بلوائیوں کو موقع مل جاتا ہے اور وہ زور زبردستی، تشدد کر کے مسلمانوں کو دبانے کی کو شش کرتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم نے کہا کہ مسلمانوںکو گزشتہ 70سال کے دوران بہت تکنیکی طریقے سے دبا یا گیا ہے، حکومتی سطح پر انہیں سرکاری ملازمتوں سے دور رکھا گیا ،مسلمانوںکو نہ تو فوج میں بھرتی کیا گیا اور نہ ہی عدلیہ میں، اسی طرح مسلمان سیاسی طور پر بھی حکومت کے بڑے عہدوں پر نہیں ہیں۔ مسلمان کاروباری لحاظ سے بھی بہت معمولی اور چھوٹے کاروبار سے وابستہ ہیں، مسلمان اگر اپنے پر کیے گئے ظلم کے خلاف کسی سطح پر آواز اٹھا تے ہیںتو ان کی آوازکو دبادیا جاتا ہے اور نہ کہ بھارت کے کسی تھانے میں مقدمہ درج کر کے تفتیش کا آغاز کیا جاتا ہے۔ مسلمان ہندو ؤں کے مقابلے میںبہت تھوڑے ہیں،مجھے نہیں لگتا کہ مسلمان بھارت میں کوئی بہت مضبوط پوزیشن میں آسکیں گے ۔ ہمارے سامنے کشمیر کی مثال ہے ،وہاں اکثریت میں مسلمان ہیںاور وہ اپنے حق خود ارادیت کے حصول میں پریشانیوں کا سامنا کر رہے ہیںکسی بھی پلیٹ فارم پر کشمیریوں کی شنوائی نہیںہورہی جبکہ کشمیر ی حریت پسندوں کو بھی آہستہ آہستہ ختم کیا جارہا ہے ۔ آج کا مسلمان بھارت میں بالکل بے یارو مد گا ر ہوچکا ہے ان کو پیچھے کچھ نظر آرہا ہے اور نہ ہی آگے کچھ نظر آرہا ہے۔ معروف تجزیہ کار ڈاکٹر نواز الہدیٰ نے کہا کہ گزشتہ کئی سال کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو برصغیر میں مسلمانوں میں اپنے حقوق کے حوالے سے کسی ظلم کے خلاف بغاوت نظر نہیں آتی گوکہ عوام الناس میں اس کی تڑپ ہر دور میں پیدا ہوتی رہی ہے مگر اس حوالے سے کبھی بھی قیادت میسر نہیں آئی۔ 1906ء میں مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے نام پر مسلم لیگ بنی مگر عوام نے انہیں پذیرائی نہیں دی کیونکہ مسلمان انہیں ظالموں کا نمائندہ سمجھتے تھے۔ 1936-1937 ء کے انتخابات کے بعد کانگریس نے مسلمانوں پرجو ظلم و ستم ڈھائے اس کے جواب میں بھارت میں مسلمان ایک مؤقف پر نظر نہیں آئے گوکہ بہار، یوپی اور دہلی کی ریاستوں میں ہندواتا کی پالیسی کو محسوس کرلیا گیا تھا۔ جنوبی بھارت کی مسلمان اکثریت شمالی بھارت والوں کے مقابلے میں اپنی الگ حیثیت کو برقرار رکھے ہوئے چلی آرہی ہے۔ اس کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ بھارت میں مسلمانوں کی آبادیوں کا مختلف ریاستوں میں ٹکڑوں کی حالت میں بکھرے ہوئے ہونا ہے جس کے سبب ان کے درمیان مشترکہ لیڈر شپ کا فقدان ہے۔ اگر کسی ریاست میں مقیم ظلم کے شکار مسلمان آگ کے دریا میں کودتے ہیں تو ضروری ہے کہ دوسرے کسی حصے میں بھی اسی طرح لاوا پھوٹ پڑے۔ کشمیر کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوتا رہا مگر بھارت کے دوسرے حصوں کے مسلمانوں نے اس حوالے سے کشمیریوں کی کوئی خاص مدد نہیں کی۔ ڈاکٹر نواز الہدیٰ نے کہا کہ بغاوت کی کامیابی کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ باغی ایک قوم سے تعلق رکھتے ہوں اور ان کے معاملات عوام تک تیزی سے پہنچ رہے ہوں۔ بھارت میں مسلمان بکھری ہوئی حالت کے سبب یرغمالی صورت حال سے دوچار ہیں۔ اگر کسی ریاست میں بغاوت کا معاملہ شروع ہوتا ہے تو اس کی مدد کے لیے کوئی بیرونی قوت نظر نہیں آتی۔ تمام اسلامی ممالک کی حکومتیں مسلمانوں کے خون کو بھارت سے تعلقات کے مقابلے میں کمتر جانتی ہیں۔ اندرون بھارت بھی کوئی مسلمان کہلانے والا ایسا لیڈر نہیں جوکہ باغیوں کا ساتھ دے۔ اگر بغاوت کرنے والے کسی مدد کے بغیر ایک ہاتھ میں زندگی اور دوسرے ہاتھ میں موت رکھ کر نکلیں اور ہندواتا کے لوگوں کو پکڑ کر اپنی ڈھال بناتے ہوئے آگے بڑھیں تو پھر امکان ہے کہ بغاوت قوت پکڑ لے اور بھارت میں موجود انسانیت کے دشمن تباہی سے دوچار ہوجائیں۔ بھارت میں انسانیت سوز مظالم ڈھانے والی قوت کے خلاف بہت سے گروہوں میں بغاوت کا لاوا ابل رہا ہے لہذا مسلمان انسانیت کی آزادی کی بنیاد پر مروجہ اصول طے کرکے ہندواتا کے خلاف جہاد کا اعلان کریں تو پھر اندرون بھارت کے تمام مظلوم گروہوں سے انہیں بھرپور حمایت ملے گی۔