جب سے افغانستان میں طالبان کا کنٹرول ہوا ہے‘ پاکستانی حکمرانوں کی ہیجانی کیفیت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ان کے بیانات کبھی کچھ ‘ کبھی کچھ ہوتے ہیں۔ طالبان کو ہرگز قبول نہ کرنے کے اعلان سے لے کر ان کو ہر طرح کا تعاون دینے کی یقین دہانی اور مفت مشوروں تک سب کچھ گزشتہ 15 روز کے اندر اندر ہو چکا ہے۔ حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کو طالبان کے آنے سے کوئی مسئلہ نہیں لیکن اگر اس آگ کے شعلے پاکستان پہنچے تو پھر ہم بھرپور طریقے سے تیار ہیں۔ لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان کے حکمران افغانستان کا امن لینے میں دلچسپی کم رکھتے ہیں اور وہاں کی آگ پاکستان لانے میں انہیں زیادہ دلچسپی ہے۔ چنانچہ ٹی ٹی پی کا شوشا چھوڑا گیا اور ٹی ٹی پی نامی بھوت پھر زندہ ہوگیا۔ طالبان کی حکومت بنی ہی نہیں ہے اسے قبول کرنے اور نہ کرنے پر پاکستان سمیت ساری دنیا میں بحثیں ہو رہی ہیں۔ اس مسئلے اور اس کے نتائج کے بارے میں افغانستان کے سابق وزیراعظم امیر حزب اسلامی گلبدین حکمت یار نے درست تبصرہ کیا ہے کہ اگر طالبان افغانستان میں متفقہ حکومت بھی بنا لیں تو بھی امریکا اور اتحادی قبول نہیں کریں گے۔ انجینئر گلبدین حکمت یار نے کہا کہ بھارت بھی پاکستانی وزیراعظم کی طرح غلطیاں مانے اور عدم مداخلت کا اعلان کرے۔ انہوں نے اس ایک جملے میں پاکستان اور بھارت دونوں کو یکساں پیغام دیا ہے کہ افغانستان کے معاملات میں مداخلت نہ کی جائے اور طالبان کی حکومت چلنے دی جائے۔ گلبدین حکمت یار نے بین الاقوامی مداخلت کے حوالے سے بھی مشورہ دیا ہے کہ کابل ائرپورٹ کی سیکیورٹی ایسے ملک کو دی جائے جو غلط عزائم نہ رکھتا ہو لیکن پاکستانی حکمرانوں کے عزائم کیا ہیں‘ اس بارے میں بہت زیادہ ابہام ہے۔ آج کل حکومت جو کام کر رہی ہے وہ بڑے خطرناک ہیں اور سابق تجربات کی روشنی میں حکومت کے دعوئوں پر یقین کرنا مشکل ہے۔ پاکستان نے نیٹو فورسز کے ہزاروں لوگوں کو ملک میں رہائش دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ لوگ کون ہیں؟ ان کو کون سے کاغذات کی بنیاد پر پاکستان کے ویزے دیے جائیںگے؟ ان کی نقل و حرکت محدود ہوگی یا وہ ہر جگہ گھومتے پھریں گے اور ایک ریمنڈ ڈیوس کی جگہ ڈیڑھ ہزار ریمنڈ ڈیوس ملک میں دندناتے پھریں گے۔ پاکستانی حکومت یہ بھی نہیں بتا سکی کہ ان لوگوں کو لانے کا فیصلہ کہاں ہوا اور کس نے کیا؟ اسی طرح اقوام متحدہ نے خوراک افغانستان لے جانے کے لیے پاکستان سے ہوائی اڈے مانگے ہیں اس مقصد کے لیے اسلام آباد اور پشاور کے ہوائی اڈے استعمال کرنے کی اجازت حکومت پاکستان نے اقوام متحدہ کو دے بھی دی ہے۔ اعلان میں کہا گیا ہے کہ امدادی پرواز میں فوجی سازوسامان لے جانا منع ہوگا۔ سول ایوی ایشن نے کہا ہے کہ طیارے میں لے جانے والی اشیا کی تفصیل دینا ہوگی اور فیس بھی ادا کرنی ہوگی۔ اب کوئی حکمرانوں سے پوچھے کہ پاکستان کی سڑکیں‘ ائرپورٹس اور بندرگاہ کے استعمال پر امریکیوں نے ماضی میںکتنی فیس دی تھی اور سامان کس کو دکھا کر ان کنٹینرز میں ڈالا جاتا تھا۔ کس کنٹینر میں کتنا اسلحہ جاتا تھا کس کو معلوم تھا؟ یہ معلوم کرنے کے لیے کنٹینر چرانے پڑے لیکن امریکیوں اور نیٹو نے خود کچھ نہیں بتایا۔ اب پاکستانی حکمرانوں میں سے کون ہے جو یہ ضمانت دے سکے کہ ان کی نگرانی میں طیاروں میں سامان لادا اور اتارا جائے گا؟ خوراک کس کی ہوگی اور کس کو ملے گی اور یہ بھی کوئی بتا دے کہ اتنا دم کس میں ہے کہ اس آپریشن پر کوئی فیس وصول کرے۔ یہ سارے وعدے اور دعوے پہلے بھی کیے گئے تھے لیکن امریکی اور نیٹو اتحادی پاکستان میں دندناتے پھرتے تھے۔ ڈیڑھ ہزار اہلکاروں کی پاکستان میں آمد کا مطلب اس وقت تک کچھ بھی لیا جا سکتا ہے جب تک حکومت معاملات شفاف نہیں کر لیتی۔
چند رز قبل تک وزیراعظم امریکا اور نیٹو کو نفی میں اور مضبوط لہجے میں جواب دے رہے تھے کہ امریکا کو بہت بڑا ’’نو‘‘ کہہ دیا ہے لیکن یہ نو ’’یس‘‘ کب بن گیا؟ کون ہے جو ایجاب و قبول کرا لیتا ہے۔ گویا پاکستان کے اس اعلان کو پاکستان نے خود ناکام بنا دیا ہے کہ افغانستان کی آگ اگر پاکستان آئی تو دیکھ لیں گے تمام تیاری ہے اور پھر خود ہی یہ آگ پاکستان لانے کی تیاریاں کر لیں۔ یہ آگ بھی نہیں ہے 20 برس افغانستان میں سر پھوڑنے کے بعد امریکی غروروتکبر کی لاش کی جلی ہوئی راکھ ہے۔ اس راکھ میں کوئی چنگاری بھی ہو سکتی ہے جو پاکستان کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ امریکی چتا کی یہ راکھ پاکستان ہی میں کیوں بہائی جائے اسے بھارت کی گنگا جمنا میں یا برطانیہ کے دریائے ٹیمز میں کیوں نہیں بہایا جاتا؟ پاکستان کا کون سا حکمران ہے جو امریکا بہادر کے سامنے نو کہہ سکے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا ضرور لیکن عمل اس کا الٹ کیا۔ بعد میں ٹی ٹی پی‘ داعش اور دوسرے لشکروں کو الزام دیا جائے گا۔ بہت سے لشکر فائدہ بھی اٹھائیں گے لیکن یہ آگ پاکستان کیوں لائی جارہی ہے؟