دلیر اور نڈر صحافی نصر اللہ گڈانی کی شہادت

385

ہر دن وقت مقررہ پر اپنے کالج پہنچ کر فارغ وقت میں تقریباً چھے عدد سندھی اخبارات اور رسائل پڑھنے کا موقع ملتا ہے۔ بلاشبہ سندھی اخبارات اس سوشل اور الیکٹرونک میڈیا کے دور میں بھی خاصی موثر حیثیت کے حامل ہیں۔ ان میں چھپنے والی خبریں، ادارایے اور لگ بھگ ہر بین الاقوامی، قومی اور علاقائی موضوعات پر لکھے جانے والے کالم دلچسپ اور معلومات افزا ہونے کے ساتھ ساتھ بہرحال اہل سندھ کی ذہن سازی میں اپنا کردار ایک حد تک ادا کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ جدید میڈیا کی مقبولیت کی بنا پر ایک درجن کے قریب شائع ہونے والے سندھی روزنامہ اخبارات اور رسائل کی سرکولیشن بھی کافی متاثر ہوئی ہے۔ تاہم چھوٹے شہروں، قصبات اور دیہات میں معلومات کے حصول کے لیے زیادہ تر لوگ تاحال انہی پر انحصار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ اخبارات اور رسائل پڑھنا راقم کی مجبوری بھی ہے اور دیرینہ عادت یا شوق بھی کہ انہیں پڑھے بغیر تشنگی کا احساس دامن گیر رہتا ہے۔

اہل فلسطین پر اسرائیل کے بے محابہ مظالم کا لامتناہی سلسلہ ہو یا پھر دیگر بین الاقوامی، قومی یا علاقائی حالات و واقعات، شاید ہی کوئی ایسا ضروری اور ناگزیر موضوع ہوتا ہے جس پر سندھی اخبارات میں لوازمہ نہ چھپتا ہوگا۔ سندھی اخبارات ہر موضوع اور عوامی مسئلے کا موثر انداز میں احاطہ کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ علاقائی اور مقامی مسائل کو اجاگر کرنے کی پاداش میں اکثر سندھی اخبارات اور نیوز چینلوں کے رپورٹرز کو مقامی بااثر افراد، وڈیروں، بھوتاروں اور ضلعی انتظامیہ یا پولیس افسران کی ناراضی بھی مول لینی پڑتی ہے جس کی وجہ سے انہیں گاہے شدید آزمائش سے بھی دوچار ہونا پڑجاتا ہے۔ بااثر شخصیات کے کارندے اپنے برہم آقا کے ایما پر مقامی رپورٹرز کو جسمانی گزند پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

سندھ میں قانون، عدل اور انصاف سارے ملک کی طرح سے عنقا ہوچکا ہے ایسے میں جو صحافی یا رپورٹر اپنے اصل فرائض کی بجا آوری کامل دیانتداری اور ایمان داری سے پوری کرتے ہیں بلاشبہ انہیں خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے۔ زندہ معاشروں میں شعبہ صحافت ان کی زندگی اور روشن و تابندہ چہرے کی علامت ہوا کرتا ہے۔ اس کے علی الرغم جبکہ ہمارے ہاں درحقیقت اپنی جان جوکھم میں ڈالنے کا نام ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے میں سندھی صحافت سے وابستہ کئی رپورٹرز کو ان کے جرم حق گوئی کی پاداش میں زخمی یا قتل کیا جاچکا ہے۔ اگر ہم دو تین دہائیاں پیچھے چلے جائیں تو اس وقت سے لے کر تا ایں دم ایسے درجنوں صحافی ہیں جنہیں زخمی یا قتل کردیا گیا ہے۔ ماضی قریب میں عزیز میمن، جئے چند بلوانی، جان محمد مہر اور اصغر کھنڈ اس حوالے سے نمایاں اہمیت کے حامل نام ہیں۔ جان محمد مہر کے قاتل تو آئی جی سندھ غلام نبی میمن کے مطابق کچے کے ایک ایسے علاقے میں روپوش ہیں جو نوگو ایریا ہے اور موصوف کے اعتراف کے مطابق پولیس کے پاس ایسے جدید ترین ہتھیار ہیں ہی نہیں کہ ہم مقتول صحافی کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے کچے کے علاقے میں جاسکیں۔ جب صورت حال اس حد تک ناگفتہ بہ ہوچکی ہو تو وہاں اپنے اخبار یا نیوز چینل کے لیے کام کرنے والے رپورٹرز بلاشبہ بڑے دل گردے کے مالک ہیں جو بلا خوف و خطر اپنا سر ہتھیلی پر رکھ کر انتہائی پرخطر اور مخدوش ماحول میں اپنے فرائض کو سرانجام دینے کے لیے سرگرم اور کوشاں دکھائی دیتے ہیں اور وہ بھی تقریباً بلامعاوضہ ہی۔

گزشتہ سے پیوستہ روز ضلع گھوٹکی سے تعلق رکھنے والے ایک بے حد دلیر، بہادر اور جواں سال نڈر صحافی معروف سندھی روزنامہ ’’عوامی آواز‘‘ حیدر آباد کے رپورٹر نصر اللہ گڈانی کو بھی نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کرکے شدید زخمی کردیا تھا۔ انہیں چار گولیاں لگیں۔ ابتدائی طبی امداد مقامی اسپتال میں دیے جانے کے بعد انہیں پنجاب کے شہر رحیم یار خان کے مقامی اسپتال منتقل کیا گیا۔ جہاں ان کے جسم سے بذریعہ آپریشن چار گولیاں تو نکال دی گئیں تاہم ان کی حالت میں بہتری نہ آنے کے سبب انہیں ایک قریبی دوست کریم بخش لغاری کے ذاتی خرچ پر 11 لاکھ روپے کے عوض کرائی گئی ائر ایمبولینس کے ذریعے آغا خان اسپتال کراچی منتقل کردیا گیا ہے۔ اطلاع کے مطابق گولیاں لگنے کی وجہ سے نصر اللہ گڈانی کے دل، جگر اور پھیپھڑے بہت بری طرح سے متاثر ہوئے تھے۔ سندھ کا یہ بے باک صحافی کئی دن وینٹی لیٹر پر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد زندگی کی بازی ہار گیا۔ 21 مئی کو یہ شہید صحافی اپنے گوٹھ سے میرپور ماتھیلو جارہے تھے کہ راستے میں ان پر قاتلانہ حملہ کرکے انہیں شدید زخمی کیا گیا۔ نصر اللہ گڈانی اپنی دلیری، بہادری اور بڑی بے باکی کے ساتھ عوامی مسائل کو بذریعہ اخبار اور وی لاگ اُجاگر کرنے پر عوام میں بہت زیادہ پسند کیے جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کے لاکھوں فالوورز ہیں جس کی وجہ سے سندھ بھر میں ان پر قاتلانہ حملے کے خلاف نہ صرف صحافیوں بلکہ سماجی اور سیاسی تنظیموں نے بھی شدید احتجاج کیا ہے۔ عوامی ردعمل کی سنگینی کی وجہ ہی سے وزیراعلیٰ سندھ نے بھی نصر اللہ گڈانی کے علاج کا سارا خرچہ سندھ حکومت کی جانب سے برداشت کرنے کا اعلان کیا۔ نصر اللہ گڈانی مقامی وڈیروں، پولیس اور انتظامیہ کے افسران سمیت ڈاکوئوں کے خلاف ایک شمشیر بے نیام تھے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے آمین۔ امیر ضلع گھوٹکی تشکیل صدیقی، معروف ادیب اور سابق ضلعی ڈپٹی ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر رہنما جماعت اسلامی سردار احمد تبسم گڈانی، امیر صوبہ جماعت اسلامی سندھ محمد حسین محنتی، سیکرٹری اطلاعات مجاہد چنا، سندھ بھر کی صحافی برادری ان کی تنظیموں اور عوام نے اس جرم میں ملوث ملزمان کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔