دین اسلام اللہ کی سرزمین پر اللہ کی حکمرانی چاہتا ہے

392

سیدنا آدمؑ کی تخلیق کا سبب ہی یہ تھا کہ روح زمین پر اللہ کے دین کی حکمرانی ہو دین اسلام غلامی کرنے نہیں بلکہ حکمرانی کرنے آیا ہے، صرف یہ نہیں کہ ہم اپنے وضع قطع سے مسلمان نظر آئیں، ڈاڑھی لمبی ہو، چھوٹی ہو، سر پر ٹوپی ہو یا عمامہ، ان سب فروعی مسائل میں اْلجھنا اسلام کا مزاج نہیں ہے، اسلام تو ہر شعبہ ہائے زندگی میں اپنی حکمرانی چاہتا ہے، اس لیے اللہ نے جتنے بھی پیغمبر بھیجے ان سب کا مقصد ایک ہی تھا کہ اللہ کے حکم اور اس کے دین کو نافذ کیا جائے، اور لوگوں کو کتاب اللہ کے ذریعے دین کی سمجھ عطا کی جائے اور اْن کو اللہ کے دین کی طرف بلایا جائے، کیونکہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اور زندگی گزارنے کا طریقہ ہے، یہ خالی اپنی ذات اور نجی زندگی گزارنے کا طریقہ نہیں ہے بلکہ اللہ کی زمین پر اللہ کی حکمرانی اور اْس کی تعلیمات کے مطابق زندگی کا طریقہ دیتا ہے، اور اس کے لیے اْس نے اپنے انبیا کو بھی یہ بات باور کرائی ہے کہ آگر آپ نے ہماری تعلیمات کو پہنچانے میں کوئی غفلت برتی تو ہم اس پر آپ کی بھی گرفت کر سکتے ہیں، لہٰذا اس پیغام کو سمجھنے کے لیے قرآن کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔

آج دین اسلام جس صورتحال سے دوچار ہے اْس کی سب سے بڑی وجہ قرآن سے دوری ہے، اور مسلمانوں کی اس غفلت کے نتیجے میں جب انگریز برصغیر پاک و ہند میں داخل ہوا، اور جب ترکی کا زوال ہوا اور ترکی کے ٹکڑے ٹکڑے ہوئے تو عیسائیوں نے ہر جگہ قبضہ کرنا شروع کر دیا، یہ لوگ کیونکہ بڑے عیار اور مکار تھے انہوں نے کمال ہوشیاری کے ساتھ پوری دْنیا پر طرز حکمرانی کرنے کے لیے ایک طرز زندگی بھی مرتب کی اور پھر اْس میں لوگوں کے لیے ایسی دلچسپیاں رکھیں کہ لوگ خود اپنے دین سے دستبردار ہوتے چلے گئے، دین سے دستبردار ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ لوگوں نے نماز، روزہ، یا کلمہ پڑھنا چھوڑ دیا بلکہ اصل دین کو ایک مذہب کی شکل میں ڈھال دیا، جو مین میڈ اسلام کہلاتا ہے، اور مسلمانوں کو بالخصوص اس بات کی اجازت دی کہ تم نماز پڑھو روزہ رکھو مگر جو قوانین حکمرانی ہوں گے وہ ہمارے ہوں گے، اور یوں یہود و نصاریٰ نے مل کر اس پورے ڈھانچے کو تبدیل کر دیا اس میں کچھ اسلام کے قوانین کو کفر میں ڈھالنے کی کوششیں بھی کرتے رہے اور اس کام کے لیے برصغیر پاک و ہند کے بڑے بڑے لکھنے والوں کو بھی استعمال کیا گیا اور اْن کو بڑے بڑے وظائف دیے گئے اور اعلیٰ عہدوں اور بڑی بڑی تنخواہ پر فائز کر کے ان کو استعمال کیا گیا، جس کی ایک مثال ایچیسن کالج کی بنیاد بھی ہے یہ صرف اس لیے بنایا گیا تھا کہ اپنی مرضی کے ذہنی غلام اور کالے انگریز تیار کر سکیں، اْسی زمانے میں سر سید احمد خان کے بیٹے نے بھی انگریز عورت سے شادی کی جو اْن کے لیے تقویت کی باعث بھی بنی خود سرسید احمد خان کی بے شمار تحریریں ایسی ہیں جو انگریزوں کو خوش کرنے کے لیے تھیں جس پر ان کو بے شمار مراعات دی گئیں اور منصب سے نوازا گیا جس سے ان کا موقف لوگوں تک پہنچا، جس پر آج بھی سوالیہ نشان ہے، اس طرح بے شمار لوگوں کا ذہن یہ بنایا کہ پہلے پیٹ ہے اور اس کی زندگی بعد میں اسلام دیکھا جائے گا، یعنی کمال سیاست کے ساتھ لوگوں کے سوچنے کے انداز کو بھی تبدیل کر دیا، اس زاویے نگاہ کے بدل جانے کے بعد کچھ مجاہدین اسلام ایسے بھی تھے جو اس کے خلاف لڑتے رہے مگر اس کے برخلاف ایسے علماء سو بھی اْس وقت موجود تھے جو اْن کے وظائف پر پل رہے تھے، جنہوں نے، جہاد و قتال کو زندگی سے نکال دیا بلکہ اْس کے معنی بھی تبدیل کر دیے، پھر لوگوں کو مختلف مکتبہ فکر میں تقسیم کرکے ایک دوسرے کو کافر کافر کا نعرہ دے کر اْن سے نہ صرف دین اسلام کو نقصان پہنچایا بلکہ دین اسلام کی شکل بھی بدل ڈالی۔

اگر آپ اپنے ملک پاکستان پر نظر ڈالیں تو آپ کو صاف نظر آ جائے گا کہ جتنے بھی حکمران اب تک پاکستان میں حکمرانی کرتے رہے ہیں وہ سب انگریزوں کے پالے پوسے اور ان کے غلام ہیں، کیونکہ وہ کسی اور کو حکمرانی دیتے ہی نہیں، پاکستان کا نظام اسی لیے بربادی کے دہانے پہنچا کہ جب انگریزوں نے اپنے کالے انگریز تیار کرکے اپنے کالے قوانین بنا کر مسلمانوں کو دین اسلام سے دور کر کے مذہب کی طرف دھکیل دیا اور دوسری طرف مولویوں کو خوش کرنے کے لیے بڑی بڑی مراعات فراہم کر کے ان کے منہ بند کر دیے گویا بڑے بڑے مدارس اور خانقاہوں میں دین اسلام کو قید کر دیا اور لوگوں کو سود خوری، حرام خوری، شراب نوشی میں لگا دیا اور پھر ساتھ ساتھ رمضان کے روزے بھی رکھتے رہے سڑک پر افطار بھی کھْلواتے رہے اور اپنے دلوں کو مطمئن کرتے رہے، اور شیطان ان کے دلوںکو اطمینان دلاتا رہا، یوں ان کو اصل دین کی طرف جانے نہیں دیتا، جس کی ایک مثال اپ کے سامنے ہے (ایل جی بی ٹی) کی ہے اس قانون کے بارے میں کیوں پاکستان کے علمائِ کرام اپنا منہ بند کیے بیٹھے ہیں، کیوں مدرسوں اور خانقاہوں سے اس غلیظ قانون کے خلاف آواز بلند نہیں ہوئی، کیونکہ یہ آج بھی حاکم وقت سے نہ صرف مراعات حاصل کر رہے ہیں بلکہ ان کے مفادات ان سے جْڑے ہوئے ہیں، یہ بڑے بڑے مدرسے آخر ایسے ہی تونہیں چل رہے، آج کیا وجہ ہے کہ غزہ میں ہونے والے مظالم پر یہ خاموش بیٹھیں ہیں، کیا ہمیں فکر آخرت نہیں ہے، یاد رکھیں انسان کبھی بھی نیک و صالح نہیں بن سکتا جب تک اْس کو فکرآخرت نہیں ہو، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں انسان کو وہاں سے رزق دیتا ہوں جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کرسکتا، اسی طرح شیطان بھی بندے کو وہاں سے پکڑتا ہے جہاں سے انسان کو پتا بھی نہیں چلتا، مولوی کا شیطان مولوی ہوتا ہے، وکیل کا شیطان وکیل ہوتا ہے، اور سب لوگ اپنی دنیا داری میں مصروف ہو جاتے ہیں، کیونکہ مسلمان یہ بھول گیا ہے کہ اْس کی ڈیوٹی کیا اْس کو کس مقصد کے لیے دنیا میں بھیجا گیا ہے، ہم بس یہ چاہتے ہیں کہ کشکول لیکر دنیا بھر میں گھومتے رہیں اور بھیک مانگتے رہیں جبکہ اللہ ربّ العزت نے اس سر زمین پاکستان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، مگر ہم میں نہ شرافت ہے نہ انکساری ہے، نہ شرم ہے نہ دین کا شعور ہے اور سارے حکمران لالچی اور خود غرض ہیں۔

دوسری طرف بڑے بڑے مفتی، مفکر اسلام جن کی دال روٹی حاکم وقت سے چل رہی ہے وہ جہاد و قتال کا سبق بھول چکے ہیں، ان کے ہاتوں سے تلوار لے کر تسبیح پکڑا دی ہے اور ان کو مدرسوں اور خانقاہوں میں بیٹھا کر ان سے اللہ ہو اللہ ہو کا ورد کرواتے رہو بس یہی دین ہے نہ ان کو سورہ النسا، نہ سورہ تحریم کی وہ آیات یاد ہیں، جب بچے اور عورتیں مدد کے لیے پکاریں تو قرآن کیا حکم دیتا ہے جس میں اللہ یہ واضع حکم دے رہا ہے کہ آپ ظالم سے جنگ کریں، مگر آج کے مولوی اپنے مدرسوں میں بیٹھ کر صرف دعائیں کر رہے ہیں اور برملا یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس سب سے بڑا ہتھیار دعا ہے، دوسری طرف مولویوں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو معاشرے کی کسی بھی خرابی سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے وہ مسجدوں میں بیٹھا غزہ کے مظلوموں کے لیے آیت کریمہ کا ورد کر رہا ہے یہ ہے وہ ٹھنڈا دین جو ہمارے مولوی پیش کر رہے ہیں اور شیطان ان کے قلب کو اطمینان بھی دلاتا ہے کہ تم نے اپنا فرض پورا کر دیا، یہی ہماری تباہی کا باعث ہے، اور ہم خود اس کے ذمے دار ہیں، لہٰذا ہمیں یہ بات سمجھنی ہو گی کہ اللہ کی سر زمین پر صرف اللہ کا قانون ہو گا۔ کیونکہ ہماری جنگ اْس طاغوت سے جو اللہ نے پہلے ہی دن سیدنا ابراہیمؑ کے سامنے لا کر کھڑا کیا تھا اس کا نام ہے شیطان، اور اْس نے زمین پرجو بھی شر پھیلایا وہ اللہ کی اجازت لیکر کیا، پھر اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ میرے نیک بندے کبھی نہیں بھٹکیں گے، نیک وہ جو اللہ کے نظام اور قرآن پر وعمل پیرا ہوں گے، آئیے اللہ سے دعا کریں کہ روز آخرت ہمارا معاملہ اْن لوگوں کے ساتھ رکھنا جو تیرے اصل دین اور اْس کے نفاذ کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور ہمارا خاتمہ ایمان بالخیر ہو۔