شہد کی مکھی کا چھتا ایک حیرت کدہ

421

شہد کا چھتا موم کی دیواروں سے بنائی ہوئی کنگھیوں کا ایک مجموعہ ہوتا ہے جس میں ہزارہا خانے موجود ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسا ’’حیرت کدہ ‘‘ ہے۔ فن ِ تعمیر کا یہ معجزہ ہزاروں مکھیوں کی مشترکہ کاوشوں سے تکمیل کے مراحل سے گزرتا ہے۔ ایک سو ملین سال پہلے چٹانوں کے اندر سے ملنے والے شہد کے نشانات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ شہد کی مکھیاں لاکھوں سال سے چھتا بناتے ہوئے چھے کونوں والا خانہ بناتی ہیں۔ یہ امر باعث ِ حیرت ہے کہ مکھیاں چھتا بناتے ہوئے چھے کونوں والا خانہ ہی کیوں بناتی ہیں آٹھ یا پانچ کونوں والا خانہ کیوں نہیں بناتیں۔ ریاضی دان اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ چھے کونوں والا خانہ کسی جگہ کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے جیومیٹری کی موزوں ترین شکل ہے۔ اگر شہد کے چھتے کے خانے کسی اور شکل میں بنائے جاتے تو بہت سی جگہ خالی رہ جاتی، شہد کا کم ذخیرہ ہوتا اور مکھیوں کی بہت کم تعداد اس سے فائدہ اٹھاسکتی۔ جہاں تک خانوں کی گہرائی کا تعلق ہے تو تین یا چار کونوں والے خانے میں بھی اتنا شہد ذخیرہ کیا جاسکتا ہے جتنا چھے کونوں والے میں خانے میں۔ لیکن جیومیٹری کی تمام شکلوں میں چھے کونوں والا خانہ سب سے کم جگہ گھیرتا ہے اور ان خانوں کی مدد سے تعمیر کیے جانے والے چھتے میں دوسری تمام شکلوں کی نسبت کم موم استعمال ہوتا ہے۔

نتیجہ یہ نکلا کہ مکھیاں چھتے میں چھے کونوں والا والے ہزاروں خانوں کی مدد سے کم سے کم جگہ استعمال کرتی اور زیادہ سے زیادہ شہد ذخیرہ کرتی ہیں۔ انسان اگر اسی طرح کے چھے کونوں والے ہزاروں خانوں کی مدد سے کوئی چھتا تعمیر کرنا چاہے تو پہلے اسے جیومیٹری کے بہت سے اصولوں پر عبور حاصل کرنا ہوگا اور بہت سی جمع تفریق کر کے وہ اس اصول تک پہنچے گا جس اصول پر مکھیاں لاکھوں سال پہلے سے کام کر رہی ہیں۔ شہد کی مکھی نے جیومیٹری کا کوئی کورس نہیں کیا ہے۔ اس چھوٹے سے جانور کے چھوٹے سے دماغ میں ربِ کائنات نے جو اصول مرتب کر دیا ہے یہ لاکھوں سال سے اس پر عمل پیرا ہے۔

یاد رہے کہ چھے کونوں والا خانہ کئی لحاظ سے قابل ِ عمل ہے۔ دیواروں کے ایک بہترین اشتراک سے یہ خانے ایک دوسرے میں آسانی سے فٹ ہو جاتے ہیں۔ شہد کے چھتے میں بنائے جانے والے خانوں کی دیواریں بہت پتلی ہوتی ہیں لیکن ان میں اتنی مضبوطی ضرور ہوتی ہے کہ اگر اصل مقدار سے کئی گنا زیادہ شہد بھی ان میں بھر دیا جائے تو ٹوٹتی نہیں ہیں۔ چھتے کی سلائس نما کنگھیاں بناتے ہوئے مکھیاں ایک اور حیران کن کام کرتی ہیں کہ وہ دونوں طرف کے خانوں کو زمین کے متوازی رکھنے کے بجائے انہیں 13ڈگری اوپر کی طرف اٹھا دیتی ہیں اور اس طرح شہد لیک ہو کر زمین پر گرنے سے محفوظ ہو جاتا ہے۔

مکھیاں درختوں پر جاکر اپنی ٹانگوں پر بنے ہوئے کنڈوں کی مدد سے موم حاصل کرتی ہیں اور منہ میں ڈال کر چباتی ہیں۔ جب وہ مطلوبہ حد تک نرم ہوجاتا ہے تو اسے چھتے کے بہت پتلے خانے بنانے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ مکھی کے پیٹ میں ایک چھوٹی سی تھیلی ہوتی ہے جس سے ایک شفاف مادہ خارج ہوتا ہے جو خانوں کی پتلی دیواروں کو مضبوط کرنے کے لیے مدد دیتا ہے۔ مکھیاں جب موم کو نرم کرنے کا کام کررہی ہوتی ہیں اس وقت انہیں ایک مخصوص درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس مقصد کے لیے بہت سی کارکن مکھیاں دائرے کی شکل میں گچھوں کی طرح ایک دوسرے کو پکڑکر لٹک جاتی ہیں۔ اس طرح موم بنانے کے لیے وہ مطلوبہ درجہ حرارت مہیا کرتی ہیں۔

ایک اور عمل جو دلچسپی کا باعث ہے وہ یہ ہے کہ مکھیاں سلائس نما کنگھیوں کی تعمیر کا کام دو یا تین قطاروں میں چھتے کے اوپر سے نیچے کی طرف بیک وقت شروع کرتی ہیں جبکہ کنگھیوں کا پھیلاؤ باہر کی طرف ہوتا ہے۔ پہلے ان کنگھیوں کے پیندے جوڑے جاتے ہیں۔ ان کنگھیوں کی تعمیر میں حیران کن حد تک موافقت اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ یہ سمجھنا ناممکن ہوتا ہے کہ تین مختلف ٹکڑے تعمیر ہورہے ہیں۔ آپ تینوں ٹکڑوں کو ہزاروں زاویوں سے بھی دیکھیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ تین مختلف چیزیں نہیں بلکہ ایک ہی چیز تعمیر ہورہی ہے۔ ایسی عمدہ تعمیر کے لیے مکھیوں کو دونوں یا تینوں ٹکڑوں کے ایک ایک خانے کا پہلے سے حساب لگانا پڑتا ہوگا۔ کئی ہزار مکھیاں ایسی شاندار اور جادوئی تعمیر کا حساب پہلے سے کیسے لگا لیتی ہیں یہ امر سائنسدانوں کے لیے اب تک حیرت کا باعث ہے۔ تعمیر میں جس قدر درستی کا اظہار مکھیاں کرتی ہیں اس کا انتظام اگر انسان کو کرنا پڑے تو اس کے لیے یقینا ایک مشکل عمل ہوگا۔ یہ اتنا مشکل اور تفصیل طلب کام ہے جو کسی ’’پوشیدہ قوت‘‘ کی رہنمائی کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔