غزہ کی نسل کشی اور عالمی عدالت انصاف

373

عالمی عدالت انصاف کی جانب سے اسرائیل کے وزیراعظم اور وزیر دفاع کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی درخواست پر امریکا نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے اور امریکی صدر جوبائیڈن نے اسرائیل کے ساتھ کھڑے رہنے کا اعلان کیا ہے۔ عالمی عدالت انصاف میں جنوبی افریقا کی درخواست پر اسرائیل کے خلاف نسل کشی اور جنگی جرائم پر مقدمہ درج کرلیا گیا ہے، لیکن ابھی تک باقاعدہ کارروائی شروع نہیں ہوسکی ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل ریاست کے قیام کے لیے یورپی ملکوں کی جانب سے بھی حمایت سامنے آگئی ہے۔ فرانس نے اسرائیلی وزیراعظم اور وزیر دفاع کی گرفتاری کے وارنٹ کی حمایت کردی ہے۔ آئرلینڈ، اسپین اور ناروے نے فلسطین کو بطور ایک ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ ناروے کے وزیراعظم نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ فلسطین کو تسلیم کرنے کا مقصد دیگر ملکوں کو پیغام بھیجنا ہے کہ اگر فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہ کیا گیا تو مشرق وسطیٰ میں قیام امن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ آئرلینڈ کے وزیراعظم نے بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسپین اور ناروے کے ساتھ مل کر فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسپین کے وزیراعظم نے کہا ہے کہ وزرا کونسل منگل 28 مئی کو ایک آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی منظوری دے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم متعدد وجوہات کی بنا پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کررہے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم اپنی تکلیف دہ اور تباہ کن پالیسی کے ساتھ مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ یورپ کے ان ممالک کے فیصلوں پر اسرائیل نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے آئرلینڈ اور ناروے سے اپنے سفیروں کو واپس بلانے کا اعلان کردیا ہے۔ اقوام متحدہ میں فلسطین کی آزاد ریاست کے قیام کے مطالبے اور عالمی عدالت انصاف کی جانب سے اسرائیلی وزیراعظم اور وزیر دفاع کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کے اعلان نے اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا کو پریشان کردیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم اور وزیر دفاع کے وارنٹ گرفتاری پر امریکی مذمت کو روس کے صدر پیوٹن نے منافقت اور دہرا معیار قرار دیا ہے۔ کیونکہ امریکا یوکرین میں جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں پیوٹن کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کرنے کی حمایت کرچکا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار اسرائیل دفاعی پوزیشن میں آیا ہے اور دنیا کو معلوم ہوگیا ہے کہ نام نہاد ’’آزاد دنیا‘‘ میں ایک ایسی قوم بھی موجود ہے جو غلام ہے اور اس کا نام فلسطین ہے جس کے ایک حصے کو چاروں طرف سے محصور کرکے اس قوم کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ اسرائیل دنیا کی سات بڑی فوجی طاقتوں میں سے ایک ہے اور وہ آٹھ مہینے سے مسلسل نہتی شہری آبادی پر بمباری کررہا ہے اور ایک چھوٹے سے خطے کو کھنڈر بنادیا ہے۔ اسرائیل کی حکومت اور فوج کی قیادت نے دنیا کے سامنے ڈھٹائی کے ساتھ اعلان کیا ہے کہ جب تک حماس ختم نہیں ہوجاتی اس وقت تک حملے جاری رکھیں گے۔ اسی وجہ سے حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے مذاکرات ناکام ہوگئے۔ جنگ بندی کے مذاکرات ناکام ہونے کے بعد خود امریکا اور یورپ میں اسرائیلی فوج کشی کے خلاف عام آدمیوں کے مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔ امریکا کے تعلیمی اداروں اور جامعات میں ایسے مظاہرے ہوئے ہیں ویسے مسلم ملکوں میں بھی نہیں ہوئے ہیں۔ اسرائیل کی سرپرست کمپنیوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ نے بھی دبائو بڑھایا ہے۔ اس کے باوجود امریکا اور اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی پر تلے ہوئے ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ جو دنیا کا منظرنامہ اپنی خواہش کے مطابق دکھاتے ہیں وہ بھی ناکام ہوگیا اور امریکا اور یورپ کے عوام کو بھی معلوم ہوگیا کہ اسرائیل جنگی مجرم ہے۔ تاریخ میں پہلی بار امریکا اور یورپ کے عام آدمی کو معلوم ہوا کہ اصل دہشت گرد اسرائیل ہے اور اس کے جنگی جرائم کی سرپرستی امریکا کررہا ہے۔ وہ باضمیر انسانوں کی آواز سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ امریکا اور اسرائیل کی منافقت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ عالمی عدالت انصاف نے جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں اسرائیل کے وزیراعظم اور وزیر دفاع کے ساتھ حماس کے تین رہنمائوں کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی اپیل کی ہے جس میں سابق وزیراعظم اسماعیل ہانیہ بھی شامل ہیں۔ حالانکہ اسرائیل 8 ماہ سے غزہ کی شہری آبادی کو جدید ترین اسلحے سے ہلاک کررہا ہے جبکہ حماس اسرائیل کی فوج کا مقابلہ کررہی ہے۔ جسے اپنی آزادی کی حفاظت کے لیے عالمی قوانین سمیت پر دلیل سے حق حاصل ہے۔ اسرائیل کا ناجائز قیام مشرق وسطیٰ میں امن کے راستے میں اصل رکاوٹ ہے۔ مشرق وسطیٰ کا مسئلہ حل کرنے کے لیے امریکا نے فلسطینی تحریک آزادی کے قائد یاسر عرفات کے ساتھ معاہدہ کیا جسے دو ریاستی حل قرار دیا جاتا ہے لیکن اسرائیل نے اس معاہدے کی بھی پابندی نہیں کی۔ حماس کے فلسطینیوں کی مزاحمت ختم کرنے کی سازش ناکام بنادی۔ اب وہ ممالک بھی جو فلسطینی اور مسلمانوں سے ہمدردی نہیں رکھتے وہ بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ فلسطین کی آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔