قانون ہم توڑیں یا فوج توڑے،ایک ہی بات ہے: چیف جسٹس

315

اسلام آباد:  نیب ترامیم کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت غیر معینہ مدت تک کےلیے ملتوی کردی گئی۔ بانی پی ٹی آئی بھی اڈیالہ جیل سے ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوگئے۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی، سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب کیا آپ اس کیس میں وکالت کریں گے؟ جس پر ان کا کہنا تھا کہ میں کیس میں عدالت کی معاونت کروں گا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا نیب ترمیم کے خلاف ہائیکورٹ میں درخواست اب بھی زیرالتواء ہے؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ کل میں نے چیک کیا تھا، درخواست اب تک زیر التواء ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ کیا اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست

سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں اڈیالہ جیل سے بانی پی ٹی آئی کو ویڈیو لنک کے ذریعے پیش کیا گیا۔چیف جسٹس نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف کیس کا مکمل ریکارڈ طلب کیا۔

وفاقی حکومت کے وکیل نے دلائل دیے کہ مرکزی کیس کی مجموعی طور پر 53 سماعتیں ہوئی تھیں، ہائی کورٹ میں زیرسماعت درخواست سپریم کورٹ نہیں سن سکتی، نیب ترامیم کیس سپریم کورٹ میں قابل سماعت نہیں تھا۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ یہ تو بڑا تعجب ہے کہ نیب ترامیم کیس 53 سماعتوں تک چلایا گیا، جب میں نے الیکشن والا کیس سنا تو 12 دن میں الیکشن کا انعقاد یقینی بنایا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے بھی کہا کہ الیکشن کیس میں تمام بنچ کی رائے تھی نوے روز میں الیکشن ہوں، عدالتی فیصلے کے باوجود عملدرآمد نہیں ہوا، پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا، پریکٹس اینڈ پروسیجر معطل کرنا درست تھایا غلط مگر بہرحال اس عدالت کے حکم سے معطل تھا، کرپشن کے خلاف مضبوط پارلیمان،آزاد عدلیہ اور بے خوف لیڈر کا ہونا ضروری ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ تینوں چیزیں موجود ہیں، یہاں تو اسے ختم کرنے کے لیے کوئی اور آرڈیننس لایا جارہا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایک قانون کو معطل کرکے پھر اس کیس کو سناہی نہ جائے تو ملک کیسے ترقی کرے گا، آپ کو قانون پسند نہیں تو کیا پورا کیس سن کر اسے کالعدم کردیں ، ایسے پھر پارلیمنٹ کو ہی کیوں نہ معطل کریں، ہم قانون توڑیں یا فوج قانون توڑے ایک ہی بات ہے، ہم کب تک خود کو پاگل بناتے رہیں گے، قانون کو معطل کرنا بھی نظام کے ساتھ ساز باز کرنا ہے۔

سماعت کیلئے منظور ہوچکی تھی؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ جی درخواست سماعت کیلئے منظور ہوچکی تھی۔

عدالت نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے نیب ترمیم کیس پر ہوئی سماعت کا حکمنامہ طلب کرکے مخدوم علی خان کو ہدایت کہ آپ اونچا بولیں تاکہ بانی پی ٹی آئی آپ کو سن سکیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف درخواست کب داٸر ہوئی؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست 4جولائی 2022ءکو دائر ہوئی جبکہ سپریم کورٹ والی درخواست کو نمبر 6جولائی 2022کو لگا سماعت 19جولائی کو ہوئی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مرکزی کیس پر اتنا زیادہ عرصہ کیوں لگا تھا؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ پورا سال درخواست گزار کے وکیل نے دلائل لئے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ نیب کا پورا آرڈیننس بنانے میں کتنا عرصہ لگا تھا؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پرویز مشرف نے 12اکتوبر کو اقتدار سنبھالا،دسمبر میں آرڈیننس آگیا، پرویز مشرف نے 2 ماہ سے بھی کم عرصے میں پورا آرڈیننس بنا دیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ چند ترمیم سے متعلق کیس سننے میں اتنا زیادہ عرصہ کیوں لگا؟ مخدوم علی خان آپ کیس میں موجود تھے اتنا عرصہ کیوں لگا دیا؟ مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ کیس کے قابل سماعت ہونے کی بحث میں ہی کافی وقت لگا۔

سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔