پاکستان میں پیٹ کی بیماریاں خطرناک حد تک بڑھ گئیں، سیکڑوں طبی ماہرین کی ضرورت

453

کراچی:پاکستان اس وقت پیٹ کے امراض کی وباؤں کی زد میں ہے جن کے علاج کے لیے ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں سیکڑوں مزید تربیت یافتہ ماہرین امراض پیٹ و جگر کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے تمام اسپتالوں کے ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹس میں آنے والے آدھے مریض پیٹ اور جگر کے امراض کی شکایات کے ساتھ آتے ہیں، دوسری جانب پاکستان میں ہیپاٹائٹس سی اور بی کے امراض میں مبتلا افراد کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے جن کے علاج کے لیے تربیت یافتہ گیسٹرو انٹرالوجسٹ کی ضرورت ہے۔

ان خیالات کا اظہار ماہرین نے پاک جی آئی اینڈ لیور ڈیزیز سوسائٹی کے تحت منعقدہ چھٹی 2روزہ سالانہ کانفرنس کے افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

تقریب سے معروف یورولوجسٹ اور آغا خان اسپتال کے سابق میڈیکل ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر فرحت عباس، معروف گیسٹرو اینٹرالوجسٹ پروفیسر وسیم جعفری، پی جی ایل ڈی ایس کی صدر پروفیسر ڈاکٹر لبنیٰ کمانی، پی جی ایل ڈی ایس کے سرپرست اعلی پروفیسر ڈاکٹر شاہد احمد اور دیگر نے خطاب کیا۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ماہرین صحت کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آلودہ پانی کی وجہ سے ڈائریا، گیسٹرو اینٹرائٹس، ٹائیفائیڈ، ہیپاٹائٹس اے اور ای کے علاوہ ہیضے کی بیماریاں پھیل رہی ہیں، پیٹ کے امراض میں بڑھتا ہوا اضافہ نہایت قابل تشویش ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں ہر مہینے 10 لاکھ سے زائد ڈائریا اور پیٹ کے امراض کے کیس سامنے آتے ہیں، مریضوں کی اتنی بڑی تعداد سے نمٹنے اور ان کے علاج کے لیے ملک میں سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں تربیت یافتہ ماہرین امراض پیٹ و جگر کی ضرورت ہے۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پی جی ایل ڈی ایس کی صدر پروفیسر لبنیٰ  کمانی کا کہنا تھا کہ ڈاکٹروں کی تربیت کے ساتھ ساتھ ان کی سوسائٹی ریسرچ پر بھی توجہ دے رہی ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے نوجوان ڈاکٹروں میں لاکھوں روپے کی گرانٹس تقسیم کی ہیں تاکہ وہ مقامی بیماریوں پر ریسرچ کر کے ان کے علاج اور وجوہات سامنے لا سکیں۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں تربیت یافتہ خواتین گیسٹرو اینٹرالوجسٹ کی کمی کی وجہ سے لاکھوں خواتین مریض اپنا علاج نہیں کروا پاتیں،  جس کے لیے ان کی سوسائٹی خواتین ڈاکٹروں کو تربیت فراہم کر کے ملک کے طول و عرض میں خواتین کے علاج کے لیے سہولیات فراہم کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے وومن ان لیڈرشپ لیگ آف میڈیسن کے عنوان سے پروگرام شروع کیا ہے تاکہ خواتین ڈاکٹروں کو میڈیسن اور گیسٹرو اینٹرالوجی کے شعبے میں اگے آنے کی ترغیب دی جا سکے۔

ڈاکٹر لبنیٰ  کامانی نے اس موقع پر بتایا کہ مرد و خواتین ڈاکٹرز کی تربیت کے لیے وہ لوگ اب سیمولیٹرز کا استعمال کر رہے ہیں۔

آغا خان اسپتال سے وابستہ معروف ماہر امراض پیٹ و جگر پروفیسر وسیم جعفری کا کہنا تھا کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی اور معاشی صورتحال کے باوجود پاکستانی ڈاکٹروں میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ پاکستان کو موجودہ طبی اور دیگر بحرانوں سے نکال سکیں۔انہوں نے اس موقع پر ڈاکٹروں کو مسلسل جدید تربیت حاصل کرنے اور اخلاقی قدروں پر کاربند رہنے کی ہدایت کی۔

پاک جی آئی اینڈ لیور ڈیزیز کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر شاہد احمد کا کہنا تھا کہ ان کی سوسائٹی نے ایک چھوٹے سے ہم خیال ڈاکٹروں کے گروپ کی حیثیت سے اپنا سفر شروع کیا تھا اور اب وہ پاکستان کی چند بڑی طبی سوسائٹیوں میں سے ایک ہیں جس کے ممبران نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک میں بھی مریضوں کی خدمت کر رہے ہیں۔

انہوں نے اس موقع پر بتایا کہ ان کی سوسائٹی کا خصوصی ہدف وائرل ہیپاٹائٹس کی تشخیص اور اس کا علاج، پاکستان میں پیٹ کے امراض کے حوالے سے عوامی آگہی اور بچاؤ کی خدمات فراہم کرنا ہے۔