خود تنقیدی اور خود مذمتی

499

خود تنقیدی رویہ ایک بہترین اور صحت مند رحجان ہے لیکن جہاں خود تنقیدی رویہ نہیں ہوتا سدار وہاں خود مذمتی کو ڈیرے ڈالنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اس اصول کا اطلاق فرد پر بھی ہوتا ہے اور اجتماعیت پر بھی۔
شیطان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نقل کرتا ہے بعض منفی خیالات، جذبات اور احساسات کا معاملہ بھی یہی ہے۔ وہ خود کو مثبت باور کرانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خود مذمتی کو اکثر لوگ خود تنقیدی سمجھتے ہیں اور خود مذمتی کا ذائقہ خود تنقیدی رحجان سے خود کو آمیز کر کے کوئی اور شکل اختیار کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ لیکن خود تنقیدی اور خود مذمت میں بڑا فرق ہے۔ خود تنقیدی رحجان غلطیوں کے ادراک اور اعتراف کا نتیجہ ہوتا ہے لیکن خود مذمتی میں غلطیوں کا اعتراف وادراک نہیں ہوتا۔ اس میں اگر کچھ ہوتا ہے تو جرم کا احساس مکمل طور پر مبہم یا نیم مبہم احساس۔ احساس کی یہ بات اہم ہے کیونکہ خود تنقیدی رویہ خیال کے دائرے سے متعلق ہے جبکہ خود مذمتی جذبات اور احساس کی دنیا سے تعلق رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود تنقیدی رویے میں ایک شعوری تجزیہ موجود ہوتا ہے جس کے تحت انسان نہ صرف یہ کہ اپنی غلطیوں کو واضح طور پر دیکھنے کے قابل ہو جاتا ہے بلکہ وہ شعوری فیصلے کرنے کی پوزیشن میں بھی آجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود تنقیدی انسان کو غلطیوں اور کوتاہیوں سے نجات حاصل کرنے اور ایک بہتر انسان بننے میں مدد دیتی ہے۔ لیکن خود مذمتی کا شکار انسان کولہو کے بیل کی طرح ایک دائرے میں گردش کرتا رہتا ہے۔ کوہلو کا بیل سارا دن چلتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ کہیں سے کہیں پہنچ گیا ہو گا لیکن وہ ایک محدود دائرے سے کبھی باہر نہیں جا پاتا۔ خود مذمتی کے شکار لوگ بھی اس غلط فہمی یا خوش فہمی کا شکار رہتے ہیں کہ وہ خود تنقیدی کے نتیجے میں داخلی تغیر کے حوالے سے کہیں سے کہیں پہنچ گئے ہوں گے۔ لیکن وہ کبھی بھی کہیں نہیں جاپاتے، ایک دائرے میں گردش کرتے رہنا ان کا مقدر بن جاتا ہے۔ بلاشبہ لاشعور تخلیق کا سر چشمہ ہے لیکن خود مذمتی کا تعلق لاشعور کے جن گوشوں سے ہوتا ہے وہ تخلیق کے سر چشمے سے بہت دور ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود خود مذمتی کے شکار لوگ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی خود مذمتی ایک تخلیقی شے ہے لیکن جیسا کہ ظاہر ہے یہ خیال غلط ہوتا ہے لیکن یہ خیال بلا سبب نہیں ہوتا۔ خود مذمتی کے جذبات اور احساسات تقسیم در تقسیم کے مرحلے سے گزرتے رہتے ہیں۔ اس سے بھی تخلیق کی غلط فہمی پیدا ہوتی ہے اور یہ ایک نا قابل فہم بات ہے۔
اگرچہ خود تنقیدی رویے اور خود مذمتی کے رحجان کی شناخت اکثر مشکل ہوتی ہے لیکن ہم انہیں ان کے بعض مظاہر کے ذریعے آسانی کے ساتھ پہچان سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر خود مذمتی میں بے چارگی اور خود رحمی کا عصر وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے جس کے تحت خود مذمتی کے شکار لوگ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ بڑی زیادتیاں ہوئی ہیں اور وہ دنیا بھر کے رحم کے بجاطور پر مستحق ہیں۔ اگر چہ وہ خود کو رحم کا مستحق سمجھتے ہیں لیکن انہیں رحم پسند بھی نہیں ہوتا اور اگر انہیں کہیں سے رحم کا تجربہ ہوتا ہے تو وہ اپنے مزاج کے عمومی اشتعال کے تحت اسے مستر د کر دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ رحم اور رعایت کی صورت میں ان کے ساتھ ایک اور زیادتی روا رکھی جا رہی ہے۔ اس کے بر عکس خود تنقیدی رویہ بے چارگی اور خو د رحمی کے جذبات کا دشمن ہے۔
اگر چہ خود مذمتی کا رخ انسان کی اپنی ذات کی جانب ہوتا ہے لیکن ذرا گہرائی میں جا کر تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتے دیر نہیں لگتی کہ خود مذمتی کے شکار بیش تر افراد اپنے احوال کا ذمے دار ’’دوسروں‘‘ کو سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم برے ہیں لیکن دراصل وہ کہتے یہ ہیں کہ دوسرے ہی برے ہیں اور اگر ہم برے ہیں بھی تو دوسروں کی وجہ سے۔ جہاں تک خود تنقیدی کا تعلق ہے تو اس کا لب لباب ہی یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے قول و فعل اور ان کے نتائج کی تمام ذمے داری خود قبول کر رہا ہے اور دوسرے کے تصور کو اس کے دائرہ خیال میں یا تو کوئی اہمیت ہی حاصل نہیں یا صرف اتنی اہمیت حاصل ہے جس کا جواز موجود ہے اور جسے معروضی طور پر ثابت کیا جا سکتا ہے۔
یہ بات خود مذمتی سے خود تنقیدی رحجان کی جانب مراجعت کرنے والے ہی سمجھ سکتے ہیں کہ خود مذمتی کی ایک ’’لذت‘‘ بھی ہوتی ہے۔ اس لیے کہ خود مذمتی کے شکار افراد خود یہ تسلیم نہیں کرتے کہ انہیں خود مذمتی سے کوئی ’’لذت‘‘ حاصل ہوتی ہے۔ لیکن یہ لذت ایک ثابت شدہ چیز ہے اور یہ بیش تر صورتوں میں بے چارگی، خود رحمی اور دوسروں کے تصور سے فراہم ہوتی ہے۔ یہ لذت اتنی خطر ناک شے ہے کہ اگر انسان اس کا عادی ہو جائے تو زندگی بھر خود مذمتی کے رحجان سے جان نہیں چھڑ سکتا۔ چناں چہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ خود مذمتی کے شکار لوگ اسی کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ جہاں تک خود تنقیدی رویے کا تعلق ہے تو وہ آگہی کی لذت کے سوا کسی لذت سے واقف نہیں ہوتا۔
اگرچہ یہ کوئی اصول نہیں لیکن عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ مردوں کے مقابلے پر خواتین خود مذمتی کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ خواتین زیادہ داخلیت پسند ہوتی ہیں اور جذبات و احساسات سے ان کا تعلق زیادہ گہرا ہوتا ہے، تاہم ہمارے جیسے معاشروں میں اس کی ایک وجہ خواتین کا محدود معاشرتی کردار بھی ہے جو انہیں زندگی کے وسیع کینوس سے روشناس نہیں ہونے دیتا۔
بلا شبہ خود مذمتی کا تعلق بیش تر صورتوں میں جذبات و احساسات کی اقلیم سے ہوتا ہے لیکن خود مذمتی کا وقفہ طویل ہو جائے تو خیال کی اقلیم بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی جس سے انسان کے شعور اور لاشعور کے درمیان مربوط رابطہ کمزور پڑ جاتا ہے اور انسانی شخصیت خطرناک حد تک عدم توازن کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو دوسرے بہت سے منفی رحجانات کی طرح خود مذمتی کا پہلا علاج یہی ہے کہ اس کا اعتراف کر لیا جائے۔ اس کے بغیر خود مذمتی سے نجات ممکن نہیں، تاہم اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے دوسرے مرحلے پر ضروری ہے کہ شعور اور لاشعور کے در میان عدم توازن دور کیا جائے اور ایک مخصوص وقت کے لیے احساسات و جذبات سے زیادہ ’’خیال‘‘ کی اقلیم پر زیادہ انحصار کیا جائے۔
یہاں اس امر کا اظہار یقینا بلا سبب نہ ہو گا کہ خود تنقیدی اور خود مذمتی کی اس بحث کے تناظر میں جب ہم اپنے قومی اور معاشرتی منظر نامے کا جائزہ لیتے ہیں تو نہایت افسوسناک صورت حال سامنے آتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں انفرادی سطح پر خود مذمتی نہ صرف یہ کہ غیر معمولی یہ طور پر فروغ پا چکی ہے بلکہ اجتماعی سطح پر یہ رحجان ایک بڑا اور لا علاج مرض بن چکا ہے، اس وقت دنیا میں خود مذمتی کی شکار قوموں کی کمی نہیں لیکن جیسی خود مذمتی ہماری قوم میں موجود ہے اس کی نظیر مشکل ہی سے تلاش کی جاسکتی ہے۔ ہم اپنی قومی تاریخ سے برگشتہ، نالاں اور شرمندہ ہیں، ہمیں اپنے اندر کسی خوبی کا سراغ نہیں ملتا۔ یہ اور اسی طرح کی درجنوں منفی باتیں ہیں جو ہم نے اپنے بارے میں محسوس کی ہیں جوہم نہیں کرتے ہیں۔ اس صورت حال کی بہت سی وجوہ ہیں لیکن بہر حال یہ خود تنقیدی نہیں ہے۔ یہ صرف اور صرف خود مذمتی ہے اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ہم اپنی برائیاں تو بہت بیان کرتے ہیں مگر اصلاح احوال کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ یہ ایک خطر ناک منظر نامہ ہے جو ہماری اجتماعی صلاحیتوں کو سخت نقصان پہنچا رہا ہے۔ قرائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ خود مذمتی میں ہمارے لیے لذت کا سامان مہیا ہونے لگا ہے جو اس بات کا اظہار ہے کہ خود مذمتی سے خود تنقیدی رویے کی جانب مراجعت ہمارے لیے دشوار سے دشوار تر ہوتی جارہی ہے۔