تکمیل حسن ذات اور عورت

394

انسان کے دنیا میں آنے سے پہلے اس کی خوراک کا ذریعہ عورت جو اُسے اپنے وجود میں سینچتی ہے، دنیا میں آنے کے بعد اس کی اولین خوراک کا ذریعہ عورت بہ حیثیت ماں جو بچے کی پیدائش کے فوراً بعد اُسے اپنے سینے سے لگا کر اس کی شکم سیری کے ساتھ ہی اپنے ’’ماں‘‘ ہونے کے احساس کے ساتھ اپنی شخصیت کی تکمیل کرتی ہے، یہی شخصیت معاشرے میں ایک مکمل اور بااختیار عورت کا روپ دھار کر سامنے آتی ہے۔ ’’ماں‘‘ جو اپنے بچے کی خوراک کا ذریعہ ہے (ڈبے کے دودھ پلانے والی ماؤں کو بھی تکمیل ِ ذات کا احساس اِسی قدرتی ذریعہ ٔ خوراک کی ترسیل و ترویج ہی سے ہوتا ہے چاہے کم کم ہی سہی) بچے کے بڑے ہونے تک اس کی خوراک کا ذریعہ ہی رہتی ہے پھر چاہے رُت بدلے یا موسم، رواج بدلیں یا رسوم۔ ماں یعنی عورت کے وجود سے جڑا یہ خوراک کا تسلسل عورت ہی کے وجود سے جڑا اس کے حسن کو دوام بخشتا اس کی ذات کو تکمیل دیتا اسے معاشرے کا مضبوط ترین احساس دیتا نظر آتا ہے اب چاہے وہ ماں ہو یا بن بیاہی بہن یا بیٹی اس کی فطری جبلت کے اندر موجود ہے کہ اسے کھانا پکانا نہیں بھی آتا تو وہ اپنے ابتدائی کھلونوں میں خیالی کھانے پکا پکا کر اپنے پیاروں کو سرو کرتے ہوئے بڑی ہو جاتی ہے پھر اس کی زندگی میں کچھ ایسے مرحلے بھی آتے ہیں کہ جب وہ بوجہ مصروفیت کھانے پکانے اور پیش کرنے کے عمل سے دور بھی رہ جائے پھر بھی کہیں آگے بہت آگے جا کر بڑی سے بڑی فیلڈ میں نبھا کر اپنے آپ کو کھپا کر بھی اپنی شخصی تکمیل کے لیے کہیں نہ کہیں کبھی نہ کبھی اپنے اس فطرت کے ودیعت کردہ ہنر کی طرف آتی ہے اپنے پیاروں کے لیے کھانے بناتی ان کے معدے کے ذریعے ان کے دلوں کو تسخیر کرنے کے لیے کچن میں ضرور جاتی ہے چاہے وہ کتنی ہی با اختیار ہو مگر اپنے پیاروں کے لیے اپنے ہاتھوں سے خوراک بنا کر دینے کا عمل اس کی فطرت کا حسن ہے جسے وہ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی صورت ضرور اُجاگر کرتی ہے یہاں تک کہ وہ خواتین بھی جو 8 مارچ کو پلے کارڈ اُٹھا کر کہتی ہیں کہ ’’میں تمہارا کھانا گرم نہیں کروں گی‘‘۔
واپس آ کر اپنے پسندیدہ افراد کے لیے وہ اپنے ہاتھوں سے ذرہ ذرہ گوندھ کر، کونا کونا سجا کر دیدہ زیب کراکری میں لذت کام و دہن کا اہتمام کرتی نظر آتی ہیں کہ یہ ان کی فطرت کا حسن ہے وہ کہیں بھی چلی جائے وقتی خفگیاں دل میں بٹھائے پلے کارڈ اٹھائے کچھ بھی کہے اس کے اندر کی ’’ماں‘‘ خوراک کی ترسیل کے لیے ہمک ہمک کر لپکتے جان سے پیاروں کو کھانے پیش کرنے کے لیے بیقرار رہتی ہے طریقے آسان، سہل، مشکل اور محنت طلب ہو سکتے ہیں ان سے بحث نہیں ہونی چاہیے اصل الاصیل بات یہی ہے کہ ’’عورت‘‘ کی فطرت میں میزبانی رکھ دی گئی ہے جس کی تکمیل وہ سل بٹے پر بنے مصالحہ جات سے کرے یا شان کے مصالحے استعمال کرے یہاں تک کہ بغیر مصالحہ جات کے صرف ایک گلاس پانی ہی سہی وہ گھر میں اپنے باپ کی آمد پر بھاگتی ہوئی سب سے پہلے کچن جاتی ہے اور گلاس میں پانی بھر کر اپنی زندگی کے سب سے پہلے مرد ’’باپ‘‘ کی میزبانی کی کوشش کرتی ہے اور پھر ہر دور میں ہر پیارے رشتے کے لیے اس کے رسم و رواج اور طریقوں کے مطابق یہ ’’میزبانیاں‘‘ اسے کچن میں ضرور لاتی ہیں یہاں طور طریقے مختلف ہو سکتے ہیں لیکن فطری مزاج ہر طرف ایک سا ہی رہتا ہے۔ اس لیے یاد رہے کہ 8 مارچ ہو،4 ستمبر ہو یا 14 فروری عورت کی حیاء، کامیابی، سرفروشی، جانفشانی سب کچھ اس کی فطرت سے ہم آہنگ ہے بڑے بڑے رعب و دبدبے والے مرد بھی عورت کی شخصیت کے اسی حسن و جمال کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔
ابھی روشن ہوا جاتا ہے رستہ
وہ دیکھو ایک عورت آ رہی ہے
شکیل جمالی
وہی عورت کہ جس کے احترام میں ربّ العالمین کے محبوب محمد مصطفیؐ نے کندھوں پر پڑی چادر بچھا دی اور وہی عورت کہ جس کے لیے شاعر مشرق کہہ اُٹھے
وجود زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
اسی عورت کے حسیں پیکر نے منیر نیازی سے کہلوا دیا
شہر کا تبدیل ہونا شاد رہنا اور اداس
رونقیں جتنی یہاں ہیں عورتوں کے دم سے ہیں
اور جب عورت کی محبت کا اقرار کرنا ہو تو یہاں بھی عظمت نسواں حاوی نظر آتی ہے کہ
بتاؤں کیا تجھے اے ہم نشیں کس سے محبت ہے
میں جس دنیا میں رہتا ہوں وہ اس دنیا کی عورت ہے
اسرار الحق مجاز
بات ساری یہی ہے کہ خالق نے اپنی چند صفات جس پیکر میں مجسم کیں وہ پیکر، پیکر نسواں ہے جو تخلیق کے مراحل سے گزار کر کھلانا، پلانا، سینچنا، سجانا، گرے ہوئے کو اٹھانا، بکھرے ہوئے سمیٹنا یہ سب تب تک کرتی رہتی ہے جب تک خود ریزہ ریزہ نہیں ہو جاتی۔
یہ 8 مارچ کو کچھ الگ تھلگ ہر بار نئے چہروں سے سجا اک ناراض سا گروہ نکلے گا تو اس کی ناراضی دور کرنے کی کوشش کیجیے گا اتنی کامیاب کوشش کہ اگلی مرتبہ وہ 8 مارچ کو تحفظ حقوقِ نسواں میں برابری کے دعوے کرتے ناراض گروہ کے بجائے شکر گزار گروہ کثیر کے ساتھ مل کر حرمت نسواں کا پرچم بلند کرتی ہوئی معاشرے کو تسلیم کروائے کہ مجھے تو میرے خالق نے مرد سے ہر جگہ بڑھا کر عطا کیا ہے مجھے برابری کی جنگ نہیں بلکہ اپنی عظمت کی شناخت اجاگر کرنی ہے۔
ترا تبسم کلی کلی میں ترا ترنم چمن چمن میں
رموزِ ہستی کے پیچ و خم تیرے گیسوؤں کی شکن شکن میں
کتاب تاریخ زندگی کے ورق ورق پر تری کہانی
جو تو نہ ہوتی تو یوں درخشندہ شمع بزم جہاں نہ ہوتی
وجود ارض و سما نہ ہوتا نمود کون و مکاں نہ ہوتی
بشر کی محدودیت کی خاطر ترستی عالم کی بیکرانی
مجید امجد
یاد رہے کہ تکمیل حسن ذات ہر اک نفس کی طرح عورت کا بھی حق ہے جسے وہ باورچی خانوں سے لیکر نقار خانوں تک منوانا چاہتی ہے وہ دستر خوان اس لیے نہیں سجاتی کہ اس کے خالق نے اسے اس کے لیے فرض قرار دیا ہے بلکہ وہ قسم قسم کے کھانے اس لیے بناتی اور کھلاتی ہے کہ اس کے خالق نے اس کی فطرت میں ودیعت کردیا ہے جس طرح زرخیز زمین اپنے اندر کے خزانے اُگلنے پر مجبور ہو جاتی ہے اسی طرح عورت کی تواضع، حیاء، مامتا، وضعداری، ترتیب، تمدن، تہذیب، وقار، خیال و انکسار، مہر و وفا سب ایسے خزانے ہیں جنہیں وہ صرف ’’اپنوں‘‘ پر خرچ کرنا چاہتی ہے یہ بھی اس کی فطرت میں ہے بالکل اس زمین کی طرح جو اسی کو پھل دیتی ہے جو اس پر محنت کرتا ہے جس کسان کو جو زمین بھی ملی ہے اس کی آبیاری اسی کے ذمے داری ہے فصل خراب ہوئی تو وجہ زمین نہیں بلکہ کسان ہے کہ جس نے بے پروائی دکھائی وگرنہ یہ مٹی تو ہر حال میں ڈھلنے والی ہے۔ 8 مارچ کے ناراض جلوس سیم و تھور لگے بیج ہیں جنہیں ذرا سی توجہ سے اس معاشرے ہی کا نہیں اپنے ماتھے کا جھومر بنانے کی کوشش ضروری ہے فصلِ گل دور نہیں ہے۔ کٹائی سے زیادہ سینچائی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔