غلط فہمی دور کیجیے جناب…!!

415

کسی نے خوب کہا ہے کہ یاد ماضی عذاب ہے یارب۔ چھین لے مجھ سے حافظہ میرا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ملکی سیاست کا ماضی رونگٹے کھڑے کرنے والا رہا ہے۔ حصول اقتدار کے ہتھکنڈے ملک کی بَلّی دینے کی شرمناک تاریخ کے حامل ہیں۔ محب وطن طبقہ انتخابی دودھ کا جلا ہوا ہے۔ اب چھاچھ کو پھونک مار رہا ہے جس میں مکھن نام کی کوئی شے نہیں، پھوک ہے، اندیشوں اور امید کی یلغار ہے۔ ان احباب کو یاد دلاتے چلیں جنہوں نے یہ دیکھا اور سنا بھی نہیں ہوگا کہ پاکستان مشرقی اور مغربی ہوا کرتے تھے اب اکیلا رہ گیا۔ 1970ء کے انتخابات کی بات ہے۔ وزارت خارجہ سے سبکدوش ہو کر عوامی واسکٹ میں سیاست میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے قدم رنجہ فرمایا تو پرانی بوتل میں ’’اسلامی سوشلزم نامی نئی ورائٹی، روٹی، کپڑا اور مکان کے سراب کے ساتھ عوام کے حضور آئے تو اُس وقت کے شیخ عرب و عجم سید بدیع الدین شاہ صاحب (جھنڈے والے) جو پگاڑو گھرانے کے کزن ہیں، انہوں نے ایک جملہ خوب کہا تھا اور لوگوں کو خبردار کرنے کا فریضہ یوں ادا کیا کہ دھوکے میں مت آئو، گڈھ سا گیو آھی اتھرپیا آھن، یعنی گدھا وہی ہے سازو سامان دوسرا ہے۔ بہرحال قوم جو کالانعام ہے لالچ گُٹھی میں پڑی ہے وہ کسی کے سمجھانے سے کب سمجھی ہے، روٹی، لنگوٹی کی لالچ میں آکر خسارے کا سامان کر بیٹھی۔ اب پھر وہی پی ڈی ایم نئے اور پرانے روپ کا فیز ٹو ہے یہاں بھی روٹی، لنگوٹی کا معاملہ ہے، مگر اب بات کا رخ دوسرا ہے۔ ملک کو روٹی اور لنگوٹی کی پڑی ہے اور اس کے ذمے دار بننے والے پھر اس کو نمٹانے والے بنادیے گئے کہ جو بویا ہے وہ کاٹو اور یوں بقول امیر جماعت اسلامی سراج الحق سلیکٹڈ،

امپورٹڈ، ڈیفیکٹڈ وزیراعظم کی حکومت اور تین پارٹیوں (ن) لیگ، پی پی پی اور ایم کیو ایم کی عبرتناک جیت کا ناک و نقشہ کا تذکرہ یوں کوزہ میں سمندر بند کرنے والا ہے کہ جیتنے والے ہارنے والوں سے زیادہ پریشان ہیں۔

بھٹو کے خوش نما نعرے میں تین الفاظ روٹی، کپڑا اور مکان تھے جن کے نعرہ زن حکمران سے نجات کے لیے تین حروف بھیجنے کے لیے پھر قوم کو خون کے نذرانے دینے پڑے۔ اب پھر تین کا ٹولہ مسلط ہوگیا جس کے متعلق ایک کہاوت کچھ یوں بھی ہے کہ تین تیرہ برا بکھیڑا، بڑے بوڑھے کہہ گئے ہیں کہ آزمائے ہوئے کو آزمانا بے وقوفی ہے لیکن یہاں تو مجبوری یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ یہ تجربہ کار ہیں، مانگ کھانے کے اور بات منانے کے۔ ایک تذکرہ پھر عرصہ قبل کا یاد آیا کہ ایک اخبار میں اشتہار شائع ہوا کہ ایک گھنٹے کا کام کھانا مفت، دوپہر کے کھانے کے وقفہ کا فائدہ اٹھائیں۔ ایک صاحب مشتہر کے پاس اس ملازمت کے لیے حاضر ہوئے تو تقرر پاگئے۔ مشتہر نے ڈیوٹی لگائی ٹفن دیا اور کہا کہ فلاں درگاہ پر لنگر بٹتا ہے خود کھا بھی آنا اور ٹفن بھر کر میرے لیے لے بھی آنا، کچھ یوں اس حکمرانی کی تشکیل کو قرار دے رہے ہیں، کھائو بھی تو کھلائو بھی، قرضہ لائو بھی۔ اتارو بھی، مگر بھولے بادشاہ یہ بھولے کیوں ہیں کہ ملک کی معیشت بوجھل ہی ان کی بدولت ہے، یہ تو خود بوجھ ہیں۔ یہ قائداعظم محمد علی جناح کے معروف جملہ کے مطابق کھوٹے سکے ہیں ان کھوٹے سکوں سے ملک نہ چل سکا۔ اب کیا خاک چلے گا! 25 ارب ڈالر کی ادائیگی سر پہ کھڑی ہے، روٹی، لنگوٹی منہ پھاڑے کھڑی ہے اور ناک رگڑوانے والے کات کلہاڑے تیز کیے ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی فچ نے پاکستان کے غیر یقینی سیاسی حالات کو ملک کے آئی ایم ایف پروگرام جو (ان داتا بنا ہوا ہے) کے لیے خطرہ قرار دیا ہے اور جو رپورٹ جاری کی ہے اس میں لکھا ہے کہ غیر یقینی سیاسی صورت حال قرض پروگرام میں پیچیدگی کا باعث بن سکتی ہے۔ موجودہ پروگرام مارچ میں ختم ہورہا ہے۔

پاکستان کی موجودہ صورت حال 1970ء سے مماثلت رکھتی ہے، بھٹو جو نکلے یا نکالے گئے پھر واپس وزیرخارجہ کے بجائے سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی صورت لائے گئے ملک کی معیشت زبوں تھی انہیں بھی فوج کا ایک گروہ لایا تھا اور اب بھی یہی کچھ کیا جارہا تھا، اس وقت بھی کہا گیا دوسرا کوئی اور تجربہ کار نہیں اب بھی یہی گردان ہے اس وقت بھی شیخ مجیب الرحمن کی اکثریت کی جیت کو ناک آئوٹ کرکے بھٹو کو اقتدار دیا گیا اب بھی اقلیت کا بھان متی کا کنبہ جوڑ کر مصنوعی اکثریت کا سامان اقتدار ہوا ہے۔ اس وقت بھی انا تھی اب بھی ہمہ اوست دیگر نیست کی سوچ ہے۔ ربّ پاک کا ارشاد ہے کہ جو ہماری تعلیمات سے منہ موڑتا ہے ہم اس کی معیشت تنگ کردیتے ہیں۔ یہ ہوتا آیا ہے ہوگا حل صرف اسلامی نظام ہے جتنا اس سے دور بھاگو پریشانیوں کے قریب جائو گے۔ ملک کی بنیاد اسلام ہے بنیاد کو اغیار کی خوشنودی کی خاطر ہلاکر رکھ دیا گیا ہے یہ اسی کا خمیازہ ہے جو ملک اور قوم بھگت رہی ہے۔ اب خوشگوار جھونکا میدان سیاست میں یوں آیا کہ جماعت اسلامی، جی ڈی اے، پی ٹی آئی نے سندھ میں متحدہ جدوجہد کرنے کا فیصلہ کرکے ان محب وطن عناصر کو جس مسلسل پی پی پی حکومت اور اس کے کرتوتوں کے ساتھ اس کی سرپرستی کو دیکھ کر مایوس سے ہوچلے تھے ان میں حوصلہ ہوا ہے کہ اب سیاہ رات کی بات نہیں چلے گی۔ جے ڈی اے نے حیدر آباد اور نوشہرو فیروز پر بھرپور عوامی نمائندگی والے عظیم الشان جلسہ عام کرکے یہ ثابت کردیا کہ وہ میدان میں ثابت قدم ہیں اور یہ تاثر کہ پاکستان کھپے کی دعویدار پی پی پی کے بجائے ہم جانثار میدان سیاست میں سنہری تاریخ کے ساتھ موجود ہیں ہم پر اقتدار کی خاطر ملک کے دو ٹکڑے کرنے کا الزام بھی نہیں ہے بلکہ دفاع پاکستان کا تمغہ ہمارے سینے پر سجا ہوا ہے۔ اس مومنٹ سے جہاں اینٹی پی پی پی طبقے میں جان پڑی ہے وہاں ایک پیغام ان کو بھی گیا ہے جو پی پی پی کے سب قصور معاف کرکے یہ سمجھ ہوئے تھے کہ پی پی پی ہی سندھو دیش کی راہ میں رکاوٹ ہے اور وہ یہ بھولے ہوئے تھے کہ یہ کئی کھانے والے مجنوں ہیں جان لڑانے والے نہیں ہیں بھٹو کی اقتدار سے بے طرفی سے پھانسی تک یہ جیالے ترنوالے حلق سے اتارتے رہے، سندھ نے سیاسی کروٹ لے لی ہے ایم کیو ایم شہروں سے اور پی پی پی دیہات سے اجڑے گی جس طرح اسٹیبلشمنٹ نے ایم کیو ایم کے الطاف حسین کے سر سے ہاتھ اٹھایا تو وہ ڈھیر ہوگئی ایسے ہی پی پی پی بھی سندھ سے ڈھیر ہوسکتی ہے، پی پی پی کو سندھو دیش کا تریاق سمجھنے کی غلط فہمی اب دور ہوجانی چاہیے۔