ـ2سال کے لیے وزیراعظم 5سال کے لیے صدر

409

تجزیوں اور تبصروں میں یہ بات آرہی ہے کہ فروری 2024 میں ہونے والا الیکشن پچھلے تمام انتخابات سے زیادہ متنازع اور غیر شفاف ہے۔ بیرونی دنیا میں بھی اس کی شفافیت پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں اور اندرون ملک بھی ہر سیاسی جماعت چاہے وہ جیتی ہو یا ہاری ہو یہ بات کہہ رہی ہے کہ ہماری نشستیں جو ہم فارم 45کے مطابق جیت رہے تھے وہ ہم سے چھین لی گئی۔ آج ہی اقوم متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گو تیرس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستانی حکام انتخابات کے بعد کی صورتحال کو جلد از جلد قانونی انداز اور پرامن طریقوں سے حل کریں۔ اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں سیکرٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن ڈوجارک نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سربراہ پاکستان میں الیکشن کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر وہ حکام پر ایسے کسی بھی اقدام سے گریز کرنے پر زور دیتے ہیں جو تنائو کو بڑھا یا بھڑکا سکتے ہیں انہوں نے کہا کہ سیکرٹری جنرل پاکستان کی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، وہ الیکشن تنازعات اور مسائل کا حل قائم کردہ قانونی فریم ورک کے اندر چاہتے ہیں جو پاکستانی عوام کے مفاد میں ہو۔ انہو ں نے پاکستان میں الیکشن کے دن موبائل، نیٹ سروس کی بندش اور پرتشدد واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ امریکا نے بھی پاکستان میں ہونے والے الیکشن میں دھاندلی، عمران خان کی گرفتاری اور متعدد امیدواروں کو انتخابی مہم میں حصہ لینے کے موقع نہ ملنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے نتائج کی چھان بین کی ضرورت پر زور دیا تھا۔

ملک کے اندر صورتحال یہ ہے کہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ سو کے لگ بھگ امیدوار کامیاب ہوئے جو تمام سیاسی جماعتوں میں سب سے زیادہ ہے، تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ ہمارے 60 سے 70 امیدواروں کے نتائج آر او کے دفتر میں تبدیل کردیے گئے جب کہ فارم 45 سب امیدواروں کے ہمارے پاس موجود ہے تحریک انصاف کا مطالبہ ہے کہ ایوان میں ہم سب سے بڑی پارٹی بن کر آئے ہیں اس لیے ہمیں حکومت بنانے کا موقع دیا جائے لیکن اس سے پہلے ہماری جبراً چرائی ہوئی نشستیں ہمیں واپس کی جائیں۔ کراچی میں تو زیادہ سیٹوں پر آزاد امیدوار اور بیش تر نشستوں پر جماعت اسلامی کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے لیکن فارم 47 میں آر او آفس میں ردوبدل کرکے پانچویں نمبر پر آنے والی ایم کیو ایم کو جتوا دیا گیا۔ اندرون سندھ گرینڈ ڈیمولریٹک الائنس جی ڈی اے نے اپنی دو سیٹیں بھی چھوڑتے ہوئے احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ چاروں صوبوں میں مختلف جماعتوں اور تنظیموں نے احتجاج کی منصوبہ بندی کرلی ہے۔ دوسرے نمبر پر کامیاب ہونے والی ن لیگ نے بھی الیکشن پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اسی طرح پیپلز پارٹی نے کراچی میں بڑی تعداد میں ایم کیو ایم کی فتح پر حیرت کا اظہار کیا ہے سابق وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کراچی کے انتخابی نتائج کو دوبارہ چیک کرنے کا کہا ہے سعید غنی سے جب اس حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اگر ایم کیو ایم پورے ملک میں امیدوار کھڑا کرتی تو اس میں بھی ان کو دوتہائی اکثریت مل سکتی تھی۔

بہر حال اس الیکشن سے اسٹیبلشمنٹ سمیت سب لوگ پریشان ہیں جس پارٹی اور اس کے لیڈر کو تمام اداروں نے پوری قوت سے بے اثر کرنے یا ڈی فیوز کرنے کا پروگرام بنایا تھا وہی قوت ایک شعلہ جوالہ بن کر سامنے آگئی اب اس قوت کو کیسے ڈیل کیا جائے گا۔ ہمارے اداروں کے سامنے یہی ایک پریشان کن سوال ہے۔ دوسری طرف عمران خان نے ن لیگ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے کسی بھی قسم کے اتحاد و تعاون سے انکار کیا ہے۔

اس انکار کے بعد ن لیگ، پی پی پی اور ایم کیو ایم کے سربراہان سر جوڑ کر بیٹھے اور اپنے کئی اجلاس کیے جس میں حکومت سازی پر گفت وشنید ہوئی اس لیے یہ خطرہ موجود ہے کہ اگر حکومت سازی کا مرحلہ طے نہ ہو سکا تو اسمبلی ٹوٹ سکتی ہے، جس کے نتائج اور بھی زیادہ خراب اور خوفناک ہو سکتے ہیں اس سہ جماعتی بیٹھک میں مولانا فضل الرحمن شریک نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے ایک دھواں دار پریس کانفرنس میں الیکشن نتائج کو مسترد کردیا اور ایک بھر پور تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے کہ ان کی جماعت کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے مطابق ان کے کئی کامیاب امیدواروں کو جان بوجھ کر ہرا دیا گیا۔ جہاں انہوں نے ایک طرف حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو دھمکی دی ہے وہیں دوسری طرف انہوں نے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو بھی یہ وعدہ یاد دلانے کی کوشش کی ہے کہ انہوں نے مولانا کو صدر پاکستان بنانے کی بات کی تھی ہو سکتا ہے کہ یہ بات پکی نہ ہوئی یا یہ باتیں اس وقت ہوئی ہوں جب الیکشن کے نتائج کی توقعات کچھ اور تھیں لیکن نتیجہ خلاف توقع آگیا۔ اس سہ جماعتی اتحاد نے شہباز شریف کو وزیر اعظم اور مریم نواز کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے کا فیصلہ کیا ہے پیپلز پارٹی نے دانش مندانہ فیصلہ کیا کہ وہ حکومت میں شریک نہیں ہوگی بلکہ آصف زرداری صدر پاکستان ہوں گے، اسمبلی کا اسپیکر پی پی پی سے ہو گا، سینیٹ کا چیئرمین ان کا ہوگا اسی طرح پی پی پی نے بلوچستان میں اپنی حکومت بنانے کے لیے ن لیگ سے تعاون مانگا ہے اس کے بدلے میں وہ پنجاب کی حکومت سازی میں ن لیگ کے ساتھ تعاون کر سکتے ہیں اس بندو بست میں ن لیگ سے زیادہ پی پی پی فائدے میں نظر آتی ہے، اس طرح پی ڈی ایم 2کی حکومت تشکیل پا رہی ہے۔ ن لیگی حکومت ہر وقت پیپلز پارٹی کے دبائو میں رہے گی اس لیے کے کسی وقت بھی اگر پی پی پی نے اپنی حمایت واپس لے لی تو ن لیگ کی حکومت دھڑام سے گر پڑے گی اگر بلاول کو وزیر اعظم بنا دیا جاتا تو پاکستانی عوام کو اس انتخاب کے نتیجے میں کوئی تبدیلی نظر آتی باہر کے ممالک میں بھی قیادت کی تبدیلی کا خوشگوار پیغام جاتا اور کچھ نیا پن محسوس ہوتا نواز شریف صدر بن جاتے اس طرح بلاول زرداری ن لیگ کے دبائو میں رہتے۔ لیکن ن لیگ نے اپنا سیاسی مستقبل بنانے کے لیے یہی بندوبست ضروری سمجھا کہ ملک کی وزارت عظمیٰ ٰان کے پاس رہے، ایک رائے یہ بھی ہے کہ اگر ن لیگ کو سادہ اکثریت مل جاتی نواز شریف پھر بھی یہ منصب نہ لیتے بلکہ مریم نواز کو وزیر اعظم بنا دیتے اب ایک سوال یہ ہے کہ شہباز شریف نے 16ماہ کی حکومت میں کیا کارکردگی دکھائی تھی جو اب دوبارہ انہیں یہ منصب دیا گیا ہے۔

الیکشن سے ایک دو ماہ قبل جب ملک میں الیکشن ہوگا نہیں ہوگا کی بحث چل رہی تھی ایک پروگرام میں حامد میر نے کہا تھا کہ اگر الیکشن ہو گیا تو اس کے نتیجے میں بننے والی نئی حکومت سال ڈیڑھ سال سے زیادہ نہیں چل سکے گی ایسا کیوں اور کیسے ہوگا اس کی تفصیل نہیں بتائی گئی اب جو صورتحال بن رہی ہے وہ یہ کہ اگر ڈیڑھ دو سال بعد مختلف پیش گوئیوں کے مطابق حکومت کسی وجہ سے ختم ہو گئی تو صدر زرداری تو پانچ سال کے لیے ملک کے صدر رہیں گے، اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ وزیراعظم دو سال کے لیے اور صدر پانچ سال کے لیے۔ اسی حوالے سے آج مسلم لیگ کے ایک رہنما عرفان صدیقی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے حکومت میں شامل نہ ہونے اور صرف آئینی عہدے لینے کی باتیں کسی صورت تسلیم نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ تمام آئینی عہدے لے کر آئینی غلبہ حاصل کرلیں اور ملبہ کسی اور پارٹی کے لیے چھوڑ دیں انہوں نے کہا کہ اگر غلبے میں شریک ہونا چاہتے ہیں تو ملبے میں بھی شریک ہونا پڑے گا۔