پاکستان میں انتخابات کی تاریخ

514

8 فروری 2024 کو اہل پاکستان کو ایک بار پھر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی تشکیل کے لیے حق رائے دہی کا موقع ملا … نتائج سے قطع نظر حق رائے دہی کا موقع ملنا ہی غنیمت ہے۔ پاکستان بنانے والی نسل کو تو پہلی بار یہ موقع قیام پاکستان کے 23 برس بعد 1970 میں ملا تھا۔ فوجی حکومت میں ہونے والے ان انتخابات میں مشرقی پاکستان میں بنگالی قومیت اور مغربی پاکستان میں اہل سنت کی مسلکی انتہا پسندی نے اہم کردار ادا کیا۔ انتخاب سے قبل مشرقی پاکستان شدید بدامنی کی لپیٹ میں آگیا۔ بدقسمتی سے اس انتخاب کے نتیجے میں ملک دولخت ہوگیا۔ مشرقی پاکستان نے بنگلا دیش کا چولا پہن لیا اور مغربی پاکستان جو پنجاب، سندھ، شمال مغربی سرحدی صوبہ (اب کے پی کے) بلوچستان اور مرکز کے زیر انتظام قبائلی علاقوں پر مشتمل تھا نیا پاکستان بن گیا۔ 1969 میں مارشل لا کے نفاذ کے ساتھ ہی 1962 کا دستور منسوخ ہوگیا تھا لہٰذا 1970 کے انتخابات دستور ساز اسمبلی کے لیے ہوئے تھے جسے دستور کی منظوری تک مقننہ کے فرائض بھی سرانجام دینے تھے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد 20 دسمبر 1971 کو بھٹو صاحب نے سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے اقتدار سنبھال کر 1970 کی منتخب اسمبلی کے مغربی پاکستان سے منتخب ارکان اسمبلی کا اجلاس طلب کرکے دستور سازی کا کام شروع کیا۔ 1970 کی منتخب اس اسمبلی کا منظور شدہ دستور 14 اگست 1973 کو نافذالعمل ہوا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس دستور کے نفاذ کے بعد جنرل الیکشن کرادیے جاتے کیونکہ ملک کا جغرافیہ تبدیل ہوگیا تھا لیکن 1973 کے دستور کے تحت پہلے عام انتخابات مارچ 1977 میں منعقد ہوئے جس کے نتائج تسلیم نہ کیے جانے کا نتیجہ جولائی 1977 میں مارشل لا کے نفاذ کی صورت میں برآمد ہوا۔ اس مارشل لا کے دوران 1979 میں ذوالفقار علی بھٹو تختہ دار تک پہنچائے گئے۔ 1985 میں مارشل لا حکومت نے غیر جماعتی انتخابات منعقد کرائے۔ ان انتخابات نے پاکستان کو جو پہلے ہی صوبائی، لسانی اور فرقہ وارانہ تقسیم کا شکار تھا برادریوں اور گروہی سیاست کا شکار کردیا۔ ان انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے معروف رہنماؤں نے آزاد امیدواروں کی حیثیت سے حصّہ لیا لیکن ارکان اسمبلی پر پارٹی کی کوئی گرفت نہیں تھی۔ یہ صورتحال مارشل لا لگانے والوں کے لیے مثالی تھی لیکن محمد خان جونیجو جیسے کمزور سیاستدان نے بھی مرغ دست آموز بنے رہنے سے انکار کیا تو مارشل لا کو نرمی دکھانی پڑی۔ اس دوران ضیاء الحق نے ایک ریفرنڈم کے ذریعے اپنے آپ کو صدر منتخب کرالیا۔ عام انتخابات کو نو ماہ ہوئے تھے کہ ہنگامی حالات ختم کرنے اور سیاسی جماعتوں کو سرگرمیاں شروع کرنے کی اجازت دینے کے اعلانات ہوگئے۔ سیاست نے پابندیوں کے باوجود اپنا راستہ بنانا شروع کردیا تھا کہ 10 اپریل 1988 کو راولپنڈی کے قریب اوجڑی کیمپ کے اسلحہ ڈپو میں دھماکوں نے سول ملٹری تعلقات میں شدید بگاڑ پیدا کردیا۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو نے اس واقعہ کی تحقیقات کا اعلان کیا لیکن 29 مئی 1988 کو اسمبلی توڑ دی گئی۔ اعلان کیا گیا کہ آئندہ انتخابات بھی غیر جماعتی بنیادوں پر ہوں گے لیکن 17 اگست 1988 کو ایک فضائی حادثے میں جنرل ضیاء الحق کی شہادت کے بعد محمد خان جونیجو نے اسمبلی کی تحلیل کی کارروائی کو چیلنج کیا۔ عدالت عظمیٰ نے اسمبلی کی تحلیل کے عمل کو سند جواز تو نہیں دی لیکن فیصلہ دیا کہ چونکہ انتخابی عمل شروع ہوگیا ہے لہٰذا اسمبلی کی بحالی کے بجائے نئے انتخابات میں سیاسی جماعتوں کو حصّہ لینے کی اجازت دے دی جائے۔ 1973 کے دستور کے تحت تیسرے انتخابات 16 نومبر 1988 کو منعقد ہوئے جس میں پیپلزپارٹی نے اسلامی جمہوری اتحاد کے مقابلے میں واضح اکثریت حاصل کرکے وفاق میں حق حکمرانی حاصل کیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ایم کیو ایم نے ملکی انتخابات میں حصّہ لیا اور پہلی کوشش ہی میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں شریک اقتدار ہوگئی۔

بے نظیر بھٹو کی یہ حکومت سمجھوتوں کا مجموعہ تھی۔ وہ اپنے اقتدار کے لیے جنرل اسلم مرزا کی ممنونِ احسان تھیں۔ انہیں غلام اسحاق خان کو صدر پاکستان اور صاحبزادہ یعقوب اور آغا شاہی کو وزارتوں میں قبول کرنا پڑا تھا۔ اس کے باوجود وہ پنجاب میں آئی جے آئی کی حکومت اور اپنی اتحادی جماعتوں کی طرف سے دباؤ کا شکار رہیں۔ اگست 1990 میں اسمبلی کی تحلیل سے قبل بینظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی، جو کامیاب تو نہیں ہوسکی لیکن اس تحریک کے پیش ہونے کے بعد ایم کیو ایم نے وفاقی حکومت سے الگ ہوکر سندھ میں امن و امان کا مسئلہ پیدا کرنے میں منفی کردار ادا کیا، جس کے بعد اگست 1990 میں اسمبلیاں تحلیل کردی گئیں۔ اکتوبر میں ہونے والے انتخابات سے قبل نواز شریف نے اعلان کیا کہ آئی جے آئی، ایم کیو ایم کے مقابلے میں امیدوار نامزد نہیں کرے گی۔ اس اعلان سے آئی جے آئی میں شامل جماعت اسلامی کو شدید دھچکا لگا۔ آئی جے آئی رائے عامہ کے تجزیوں کے برعکس بھاری اکثریت سے انتخاب جیت گئی۔ میاں نواز شریف وزیراعظم اور شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے۔ پیپلزپارٹی پہلے دن سے ان انتخابات کو انجینئرڈ کہہ رہی تھی لیکن اس نے سیاسی عمل کا حصّہ بنے رہنے کا فیصلہ کیا۔ اس کی یہ حکمت عملی کامیاب رہی۔ نواز شریف اور غلام اسحاق خان کے درمیان اختلافات دراڑ سے بڑھ کر خلیج میں تبدیل ہوگئے تو صدر نے اسمبلی کی تحلیل کا فیصلہ کیا جس کے خلاف عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے نتیجے میں اسمبلی بحال ہوگئی، نواز شریف نے پھر وزیراعظم کا دفتر سنبھال لیا لیکن جب حالات معمول پر نہیں آئے تو ’’اصل مالکوں‘‘ نے بڑے اور چھوٹے دونوں ’’منشیوں‘‘ کو یک بینی و دو گوش معاملات سے بیدخل کیا اور اسمبلیاں تحلیل کرکے نئے انتخابات کا اعلان کردیا۔

1993 کے انتخابات سے قبل اسلامی جمہوری اتحاد تحلیل ہوگیا۔ جماعت اسلامی نے پاکستان اسلامی فرنٹ کے نام سے انتخاب میں حصّہ لیا لیکن صرف تین نشستوں پر کامیابی حاصل کر سکی۔ مسلم لیگ نے پیپلزپارٹی کے 37 فی صد کے مقابلے میں 39 فی صد ووٹ حاصل کیے لیکن وہ مقبول ترین پارٹی ہونے کے باوجود پی پی سے 16 نشستیں کم حاصل کرکے اقتدار کی دوڑ سے باہر ہوگئی۔ بینظیر بھٹو ایک بار پھر وزیراعظم پاکستان بن گئیں۔ اس انتخاب کے موقع پر قاضی حسین احمد کا ایک حملہ بہت مشہور ہوا، کہ پیپلزپارٹی اور نواز لیگ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔
(جاری ہے)