افتتاح رام مندر: امت مسلمہ کے زخموں پر نمک پاشی

447

سورہ جن کی آیت نمبر 18کا ترجمہ ہے ’’اور یہ کہ مسجدیں اللہ کے لیے ہیں لہٰذا اس میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو‘‘ 1528 میں ایودھیا (جس کا پرانا نام فیض آباد تھا) میں میر باقی نے بابری مسجد کی تعمیر کرائی۔ 1949 میں خفیہ طور پر مسجد میں رام مورتی رکھ دی گئیں۔ 400 سال سے زائد مدت میں اس مسجد میں باقاعدہ نماز با جماعت ہوتی رہی لیکن رام مورتی رکھنے کے بعد اسی سال یعنی 1949 میں مسجد میں نماز پڑھنے پر پابندی لگا دی گئی۔ ویسے بھی اوپر دی ہوئی آیت میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ مسجدیں صرف اللہ کے لیے ہوتی ہے اس میں اللہ کے سوا کسی اور کو نہ پکارا جائے لہٰذا یہ تو ہو نہیں سکتا کہ کسی جگہ بت رکھے ہوں اور وہاں اللہ کی عبادت بھی کی جائے۔ 1959 میں نرموہی اکھاڑے کی طرف سے متنازع مقام کے تعلق سے ٹرانسفر کی درخواست دی گئی۔ 1961 میں یوپی سنی سینٹرل بورڈ نے بھی مسجد پر قبضہ کی درخواست دی اب اس طرح اس جگہ کے تین دعوے دار ہو گئے۔ 1986 میں اس مقام کو ہندو عقیدت مندوں کے لیے کھول دیا گیا اسی سال بابری مسجد ایکشن کمیٹی کی تشکیل ہوئی 1990 میں کرشن لال ایڈوانی نے ملک گیر رتھ یاترا کا آغاز کیا پھر مندر کی تعمیر کے لیے ملک بھر سے اینٹیں بھیجی گئیں پھر 6دسمبر 1992 کو ایودھیا پہنچ کر ہزاروں ہندئوں نے بابری مسجد کو شہید کردیا اس کے نتیجے میں پورے ملک میں ہندو مسلم فسادات ہوئے جس میں 2000 سے زائد افراد مارے گئے اس میں 75 فی صد مسلمان شہید ہوئے اس کے بعد تو عدالتی کارروائیوں کی ایک طویل داستان ہے۔ 30ستمبر 2010 کو الہ آباد ہائیکورٹ کی لکھنؤ بنچ نے تاریخی فیصلہ سنایا جس کے تحت متنازع زمین کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے ایک حصہ رام مندر دوسرا حصہ سنی وقف بورڈ اور تیسرا نر موہی اکھاڑے کو دے دیا۔ عدالت عظمیٰ نے اس فیصلے پر اسٹے آرڈر دیدیا۔ پھر عدالت عظمیٰ کے متعصب یا ڈرپوک ججوں نے بابری مسجد کی پوری زمین رام مندر کے حوالے کردی اور پھر اس مندر کی تعمیر کا آغاز ہوگیا، یہ ہے بابری مسجد کی شہادت کی پوری کہانی۔

22 جنوری 2024 کو نریندرا مودی نے رام مندر کا افتتاح کیا اس کو وزیر اعظم مودی قومی تقریب بنا دیا اس دن پورے بھارت میں چھٹی کا اعلان کیا گیا تاکہ تمام لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ کر اس کارروائی دیکھیں اس افتتاحی تقریب میں 7ہزار افراد شریک ہوئے 50ممالک سے 3ہزار وی وی آئی پیز بلائے گئے ملک کی اہم کاروباری شخصیات، کرکٹرز اور اداکاروں نے بھی شرکت کی ہندوستانی میڈیا بالخصوص ہندی میڈیا تو جشن منانے میں مصروف تھا امریکی ٹی وی سی این این نے کہا کہ رام مندر کے افتتاح کے موقعے پر ایودھیا کے مسلمان غم اور اضطراب کی کیفیت میں ہیں ایودھیا میں پانچ لاکھ مسلمان ہیں ان سب نے گھر میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا کئی خاندانوں نے تو اپنے بچوں کو دوسرے شہروں میں اپنے رشتہ داروں کے یہاں بھیج دیا تاکہ کسی فساد کی صورت میں بچے تو محفوظ رہیں اس تقریب میں کرکٹرز اور نمایاں اداکاروں نے بھی شرکت کی۔ مودی نے باضابطہ رام جنم بھومی کھول دیا یہ جشن علامت ہے کہ مودی کی بی جے پی کی سربراہی میں مسلمان کس طرح پسماندہ ہورہے ہیں بابری مسجد کے انہدام کے غم ہمیشہ موجود رہیں گے امریکی جریدہ ٹائم لکھتا ہے کہ ہندوستان کی حکومت میں مسلمانوں کے لیے کوئی بات کرنے والا نہیں۔ 1947 کی آزادی کے بعد پہلی بار حکمران جماعت میںکابینہ کا کوئی مسلم وزیر یہاں تک کہ رکن پارلیمنٹ بھی نہیں ہے۔

اب ہم اس حوالے سے کچھ نکات، تاثرات اور سوالات رکھنا چاہیں گے پہلی بات تو یہ کہ بھارت کا یہ ایونٹ ان لوگوں کے منہ پر تمانچہ ہے جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ مذہب اور سیاست الگ الگ چیزیں ہیں اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ہماری ریاست، سیاست، معاشرت، ثقافت، معیشت اور عدالت اسلام کے تابع ہے جب ہم ان تمام شعبوں میں اسلام کے نفاذ کی بات کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ سیاست کا مذہب سے کوئی علاقہ نہیں پھر یہ بھارت میں کیا ہورہا ہے وہاں کی سیاست پر تو ہندو توا کا تسلط ہوگیا، ہندوستان بظاہر اپنے آپ کو سیکولر ریاست کہتا ہے اندر سے تو اس ملک کے ہر شعبے میں ہندو تعصب غالب ہے پھر یہ کہ وزیر اعظم مودی نے اپنی سیاست کی بنیاد اسلام دشمنی اور پاکستان دشمنی پر رکھا ہے اور شروع سے ہندو تعصب ان کے اندر اتنا رچا بسا ہوا ہے کہ اسے ہر دو تین سال بعد مظلوم مسلمانوں کے خون سے اپنی تعصب کی پیاس بجھانا پڑتی ہے، جب ہی تو اسے گجرات کا قسائی کہا جاتا ہے مسلمان کہتے ہیں کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا احترام اپنی جگہ لیکن ان فسادات میں ہمارے اپنوں کے قاتلوں کا کیا ہوگا، الجزیرہ نے اس تقریب کے سیاسی مقصد کی نشاندہی کی ہے بہت سارے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ 2024 کے قومی انتخابات میں فتح حاصل کرنے کے لیے مودی کی مہم کا آغاز موثر طریقے سے ہوا ہے دوسری بات اپنے پاکستانی بھائی بہنوں سے یہ کہنا ہے کہ جن بھارتی اداکاروں کی فلمیں ہم بڑے ذوق و شوق سے دیکھتے رہے ہیں ان کی اکثریت مسلمانوں کے دلوں پر آرا چلانے والی اس تقریب میں شریک تھی ہم اب بھی یہ تہیہ کرلیں کہ ہم اب ان اداکاروں کی فلموں کا بائیکاٹ کریں گے اور ہمارے جو فنکار بھارت میں جاکر پرفارم کرتے ہیں ان کے لیے بھی سوچنے کا مقام ہے۔ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد اندرا گاندھی نے کہا تھا اتفاق سے میں نے خود اس کی تقریر سنی تھی جس میں اس نے کہا تھا کہ ہم نے دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا تقسیم ہند سے پہلے کانگریس کے ہندو رہنما اور کانگریس کے حامی مسلمان اور علماء کہتے تھے کہ قومیں وطن سے بنتی ہیں جبکہ علامہ اقبال، مولانا مودودی، قائد اعظم اور مسلم لیگ کے تمام لوگ کہتے تھے کہ قومیں وطن سے نہیں بلکہ مذہب اور عقیدے سے بنتی ہیں مسلمانوں کا مذہب الگ اور ہندوئوں کا مذہب الگ ہے اس لیے یہ دو قومیں ہیں اسی سے دو قومی نظریہ وجود میں آیا، اس نظریے کو ڈبونے والی اندرا گاندھی کی بات اس وقت درست مانی جاتی جب وہ مشرقی بنگال اور مغربی بنگال کو ملا کر بنگلا دیش بناتیں تب یہ کہا جاتا کہ ایک زبان بولنے والوں کا ملک الگ بن گیا لیکن آپ نے مغربی بنگال کو اس لیے اپنے پاس رکھا کہ وہاں ہندی زبان بولنے والے اور ہندوئوں کی اکثریت ہے تو اس طرح آپ نے دو قومی نظریے کو اپنا لیا۔ اسی طرح مودی بھی دوقومی نظریے کے علمبردار بنے ہوئے ہیں وہ اپنی زبان قال سے تو نہیں بلکہ زبان حال سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان صرف ہندوئوںکا ہے، آج بھارت میں 25 کروڑ مسلمان خوف کے سائے میں زندگی بسر کررہے ہیں ان کے سیاسی و سماجی حقوق سلب کرلیے گئے ہیں سرکاری اداروں اور فوج میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے کاروبار کے راستے مسدود کیے جارہے ہیں اب ان کی مذہبی آزادی پر بھی ڈاکا مارا جارہا ہے مسلمانوں کی آبادی کل کا 25فی صد ہے لیکن ملازمتوں میں پانچ فی صد بھی نہیں اسی سے حساب لگالیں کہ کرکٹ کی 15رکنی ٹیم میں ایک مسلمان کھلاڑی ہوتا ہے یعنی 7فی صد اگر یہی صورتحال رہی مسلمانوں کو اسی طرح دیوار سے لگایا جاتا رہا تو وہ وقت دور نہیں جب ہندوستان کے اندر سے ایک اور پاکستان کی تحریک جنم لے گی۔

نئے پاکستان کی تحریک کی بات محض ایک جذباتی بات نہیں ہے بلکہ اس کے کچھ تاریخی ثبوت بھی ہیں پچھلے دنوں معروف صحافی اور دانشور جناب الطاف حسین قریشی کا ایک کالم نظر سے گزرا اس میں وہ لکھتے ہیں۔ ’’تقسیم ہند سے پہلے ڈھائی سالہ کانگریسی دور حکومت زحمت میں رحمت ثابت ہوا کیونکہ ان پر یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہوچکی تھی کہ ان کے لیے ہندوئوں سے علٰیحدگی کے سوا کوئی محفوظ راستہ نہیں خود ہندو لیڈر رام نندن نے 18اکتوبر 1938 کو، اسٹار آف انڈیا کلکتہ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ ’کانگریس کی زیادتیاں اور سازشیں شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو پاکستان کے نصب العین کی طرف تیزی سے بہائے لیے جارہی ہیں،

یہی وجہ ہے کہ اکتوبر 1939میںکانگریس نے وزارتوں سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا تو قائد اعظم نے مسلمانوں سے 22دسمبر 1939 بروز جمعہ یوم نجات منانے کی اپیل کی اور مسلم لیگ کی تنظیم کو یہ ہدایت کی کہ پورے ہندوستان میں جلسے کیے جائیں اور نماز شکرانہ ادا کریں جلسوں میں پڑھنے کے لیے جو قرارداد بھیجی گئی وہ کچھ اس طرح تھی اس جلسے کی یہ پختہ رائے ہے کہ کانگریسی حکومتیں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق و مفادات کے تحفظ میں مکمل ناکام رہی ہیں جنہوں نے ان کی مذہبی اور معاشرتی زندگی مفلوج کردی ہے۔ ان حکومتوں نے ایسی فضاء قائم کردی تھی کہ گویا ہندو راج قائم ہو گیا ہے لہٰذا یہ جلسہ مختلف صوبوں میں کانگریسی حکومتوں کے خاتمے پر اپنے اطمینان کا اظہار کرتا ہے اور مسرت کے ساتھ آج کے دن ڈھائی سالہ ظلم و تشدد اور نا انصافی کے خاتمے پر یوم نجات مناتا ہے‘‘۔ یہ تھی تقسیم سے قبل کانگریس کی ڈھائی سالہ حکومت کی ظلم و زیادتی جس کی وجہ سے پاکستان کی منزل قریب آگئی۔