غزہ میں اسرائیل میں ناکام ہوچکا ہے

غزہ میں جاری جنگ کو 100 دن سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے، لیکن اسرائیل جن مقاصد کے حصول کے لیے جنگ کے تمام وسائل کے ساتھ غزہ پر حملہ آوور ہوا تھا، ان کے حصول میں وہ ناکام ہوچکا ہے۔ اس عرصے میں سارے عالم نے اہل غزہ کی ثابت قدمی اور فلسطین کو آزاد کرانے کے حوالے سے ان کا جذبہ بھی دیکھا ہے۔ اسی طرح کتائب القسام، سرایا القدس اور دیگر مزاحمتی تحریکوں کا جنگی اخلاقیات کی پاسداری کرتے ہوئے دیکھا ہے، جس کا اعتراف اسرائیلی قیدیوں نے بھی کیا ہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں اسرائیل فوج جنگی اخلاقیات کی دھجیاں اڑاتے ہوئے غزہ کے باسیوں کا قتل عام کے ساتھ ساتھ مساجد، چرچ، اسپتال اور ان شہریوں کے گھروں کو مسمار کررہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سب کے باوجود وہ اپنے اہداف کے حصول میں کامیاب نہیں ہوا۔ طوفان اقصیٰ سے قبل اور اس کے بعد بھی اسرائیل کے درج ذیل اہداف تھے۔

حماس اور دیگرمزاحمتی تحریکات کا قلع قمع کرنا
کتائب القسام سے اسرائیلی قیدیوں کو بازیاب کرانا
غزہ کے مکینوں کو ہجرت پر مجبور کرنا

حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے قطر میں منعقد ہونے والے سیمینار کے ایک سیشن ’’دور الامۃ وطوفان الاقصیٰ‘‘ میں اس امر کا انکشاف کیا ہے اس جنگ کے 100 دن گزرنے کے باوجود دشمن ان میں سے ایک ہدف بھی حاصل نہیں کرسکا۔ اپنی گفتگو میں اس حوالے سے جو تفصیل بیان کی ہے وہ ذیل ہے۔

اسرائیلی حکومت کا سب سے پہلا ہدف یہ ہے کہ غزہ سے حماس کا خاتمہ کردیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا حماس صرف غزہ کی تحریک ہے؟ ہرگز نہیں۔ حماس سارے عالم کے باضمیر انسانوں کی آواز بن چکی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: اور مکر کیا ان کافروں نے اور مکر کیا اللہ نے اور اللہ کا داؤ سب سے بہتر ہے۔ (آل عمران:۵۴) ارشاد باری تعالی ہے: پھر ہماری چاہت ہوئی کہ ہم ان پر کرم فرمائیں جنہیں زمین میں بے حد کمزور کردیا گیا تھا، اور ہم انہیں کو پیشوا اور (زمین) کا وارث بنائیں۔ (القصص: ۵) اللہ ربّ العزت نے اس مزاحمت اور استقامت کی بدولت عالم اسلام ہی میں نہیں عالم غرب میں حماس کے پیغام کو پہچا دیا ہے اور اب کوئی گھر ایسا نہیں ہے جہاں میڈیا کے توسط سے اہل غزہ وفلسطین پر اسرائیلی مظالم کی داستاں نہیں پہنچی ہو۔ یہ اللہ ربّ العالمین کا ہم پر بہت بڑا انعام ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ دشمن تو ہمارا نام نشان مٹانا چاہتا ہے، لیکن اللہ ربّ العزت کا فرمان ہے: وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو کمال تک پہچانے والا ہے گو کافر برا مانیں۔ (الصف: ۸) ان شاء اللہ ان کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔ گویا کہ اسرائیل اپنے اس ہدف کے حصول میں ناکام ہوچکا ہے۔ جہان تک قیدیوں کی بازیابی کا معاملہ ہے، اس حوالے سے اسرائیلی حکومت جدید ڈرون جاسوس طیاروں کی مدد سے اپنے قیدیوں کو تلاش کرنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ اپنے ایک قیدی بھی تلاش نہ کرپائے، انہوں نے صرف وہی قیدی رہا کروائے جن کو کتائب القسام نے ایک ہفتے کی جنگ بندی کے دوران رہا کیا۔ اپنے اس ہدف کے حصول میں صہیونی ریاست ناکام ہوچکی ہے۔

اسرائیل کا تیسرا ہدف کہ اہل غزہ مصر یا اردن کی جانب ہجرت کرجائیں، یہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اس لیے اہل غزہ اپنے سرزمین سے بے حد محبت کرتے ہیں اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس معرکہ میں سیکڑوں کی تعداد میں شہادتیں ہوچکی ہیں، ان کے گھر مسمار کیے جاچکے، والدین، بہن بھائی شہادت کا تاج پہن چکے ہیں، لیکن اس کے باوجود اگر کوئی بچہ یا نوجوان مسمار شدہ عمارت سے نکلتا ہے تو یہ نعرہ لگاتا ہے کہ: میں فلسطین، حماس اور القدس کے لیے جان دینا اپنے لیے شرف سمجھتا ہوں اور یہ میرے لیے شرف وعزت کی بات ہے۔ دنیا نے اس منظر کا بھی مشاہدہ کیا جب غزہ کے ان باشندوں کو اپنے وطن آنے کی اجازت دی گئی جو دیگر ممالک میں آباد ہی، اور اہل غزہ کو دیگر ممالک کی طرف جانے کا پروانہ جاری کیا گیا، تو فلسطینی مہاجرین اپنے وطن کی طرف نقل مکانی کی، لیکن غزہ سے کسی نے ہجرت نہیں کی۔ اہل غزہ سے اپنی سرزمین سے محبت اور اس کے لیے جان تک قربانی کردینے کا جذبہ اسرائیل کو اپنے اس ہدف میں کامیاب نہیں ہونے دے گا۔ گویا کہ دشمن اس ہدف میں بھی ناکام ہوچکا ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اسرائیل کو اپنی شکست نظر آرہی ہے اور وہ جلد اس معرکہ میں نیست ونابود ہوگا۔ بحیثیت مسلم ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ ہم فلسطینی بھائیوں، بہنوں اور بالخصوص مجاہدین کو اپنی خصوصی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ مزید یہ ہے کہ اس جہاد میں اپنے مال اور دیگر اسباب (میڈیا، مظاہروں، اسرئیلی مصنوعات کے بائیکاٹ) کے توسط سے اپنا حصہ ڈالیں۔ ان شاء اللہ ہماری ان کاوشوں کے نتیجے میں مجاہدین مضبوط ہوں گے اور دشمن کمزور ہوگا۔ فلسطین آزاد ہوگا، اور دشمن نیست ونابود ہوگا۔