طوفان اقصیٰ نے طوفانوں کے دروازے کھول دیے

۲جنوری ۲۰۲۴ بروز منگل جماعت اسلامی شعبہ امور خارجہ اور مرکز تعلیم وتحقیق اسلام آباد کے اشتراک سے، اسلام آباد چیمبر آف کامرس اسلام آباد میں ’’طوفان اقصیٰ، مسئلہ فلسطین کی موجودہ صورتحال اور امت مسلمہ کی ذمے داریوں‘‘ کے عنوان سے سیمینار کا انعقاد کیا گیا، جس میں قومی اور بین الاقوامی شخصیات نے شرکت کی۔ ڈاکٹر ابراہیم عباس مہنا (ہیئہ علماء فلسطین کے رہنما) نے طوفان اقصیٰ سے امت مسلمہ کو حاصل ہونے والے اسباق کے موضوع پر جامع گفتگو کی، جس کا ترجمہ راقم الحروف پیش کیا، جس کے نکات ذیل ہیں۔
طوفان اقصیٰ نے مختلف طوفانوں کے دروازے کھول دیے ہیں۔ اس لیے کہ کتائب القسام کے مجاہدین نے اقصیٰ کے حصول اور اس کو صہیونیوں سے آزاد کرانے کے لیے ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ کو اس کا آغاز کیا، تاکہ فلسطین کی آزادی کی تحریک بھرپور قوت کے ساتھ ابھر کر سامنے آسکے۔ فلسطین کے علاوہ دیگر ممالک میں موجود مسلمان مزید طوفانوں کا آغاز کرکے اس تحریک میں اپنا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ سب سے پہلے طوفان الاعلام (یعنی میڈیا کے ذریعے اس مسئلہ کی حقیقت بیان کرنا) کا آغاز کیا جائے اس لیے کہ میڈیا اس وقت کا سب سے کارگر اور مؤثر ہتھیار ہے۔ اسرائیل اس کے ذریعے اس لوگوں کے ذہنوں میں یہ تصور پیدا کررہا ہے کہ اسرائیل فلسطین کا حقدار ہے اور حماس کے مجاہدین نے طوفان اقصیٰ کا آغاز کرکے اس پر ظلم وستم کا آغاز کیا ہے۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس کی خیانت کو ہم سب مل کر اپنے فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام، واٹس ایپ اور دیگر پروگرامات کے ذریعے سے دنیا کے سامنے بیان کرنا چاہیے، اور یہ حقیقت واضح کرنی چاہیے کہ اسرائیل ۷۵ سال سے اہل فلسطین پر ظلم ڈھارہا ہے، اپنی طاقت کی بنا پر اس نے فلسطین پر قبضہ جمایا ہوا ہے۔ اور اہل فلسطین اور غزہ کے باسی فلسطین (جو امت مسلمہ کی مشترکہ ملکیت ہے) کے حصول کے لیے قربانیاں پیش کررہے ہیں، لیکن اتنے ظلم وستم میں زندگی گزارنے کے بعد بھی ثابت قدمی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔
اسی طرح ہم طوفان مالی کا آغاز کریں، جس کا مقصد یہ ہوکہ ہم اس عظیم جہاد میں اپنی استطاعت کے مطابق مال دے کر اپنا کردار کریں۔ اور یہ بات ہمارے ذہنوں میں مستحضر رہے کہ ہم فلسطین کے مسلمانوں کی اپنے مال سے جو مدد کرتے ہیں، وہ اس نیت سے نہ ہو کہ ہم ان کو صدقہ، زکواۃ دے رہے ہیں۔ بلکہ اس نیت کے ساتھ ہو کہ ہم اس تحریک میں جہاد بالمال کے ذریعے اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ اس لیے کہ اہل فلسطین اور کتائب القسام کے مجاہدین پوری امت کی جانب سے اسرائیل کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے ہوئے، اس مال کی بدولت جہاں وہ زندگی کی بنیادی سہولتوں پوری کرتے ہیں وہیں اس کے ذریعے سے تعلیم وتعلّم، مجاہدین کی تربیت، یتیموں اور بیواؤں کی کفالت اور اسرائیل کی چالوں کو ناکام بنانے کے لیے مختلف الات جنگ کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ گویا کہ آپ کا یہ مال ان کی تمام ضروریات میں استعمال ہوتا ہے اور آپ اس تحریک میں جہاد بالمال کے ذریعے سے اپنا کردار کریں گے۔ اس لیے انفرادی واجتماعی طور پر ہمیں اس امر کا اہتمام کرنا چاہیے کہ جہاد بالمال کی تحریک کو طوفان اقصیٰ کی طرح اپنے معاشرے میں وسیع کریں تاکہ اہل فلسطین کی احسن انداز میں معاونت کی جاسکے اور ہم اپنے مال کے ذریعے سے اس عظیم جہاد میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
طوفان اقصیٰ سے قرآن وسنت کی تعلیم کے طوفان کا آغاز کرنے کا سبق ملتا ہے، اس لیے کہ اہل غزہ کی یہ ثابت قدمی اور استقامت کی پشت پر قرآن وسنت کی تعلیم ہی ہے جس کی بنیاد پر ان کے والدین اور اساتذہ نے تربیت کی ہے۔ اللہ ربّ العزت کا ارشاد ہے: دروازے میں قدم رکھتے ہی یقینا تم غالب آجاؤ گے، اگر مومن ہو تو تمہیں اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسا رکھنا چاہیے۔ (المائدہ: ۲۳) اس آیت پر عمل کرتے ہوئے مجاہدین غزہ نے طوفان اقصیٰ کا آغاز کیا جس کے نتیجے میں اسرائیل کو بہت بڑا نقصان پہنچا ہے۔ گویا کہ مجاہدین کرام کی بہادر ی وشجاعت کی پشت یہ قرآن حکیم کی آیات مبارکہ ہی ہیں، جن پر یقین کرتے ہوئے بے سروسامانی کے عالم میں دشمن کو سبق سکھا رہے ہیں۔ اس لیے طوفان اقصیٰ سے یہ سبق ملتا ہے کہ امت مسلمہ انفرادی واجتماعی سطح قرآن وسنت کی تعلیم کو اپنی ذات، گھر، محلہ اور ملک میں پھیلانے کی سعی کرے، تاکہ اللہ رب العزت کے ساتھ ہمارا تعلق مضبوط ہو اور اس کے دین کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے ہم تیار رہیں۔
طوفان اقصیٰ سے اتحاد واتفاق کی دعوت کو پھیلانے کا سبق ملتا ہے۔ اس لیے کہ آج اسرائیل کی پشت پر امریکا، فرانس، برطانیہ وغیرہ موجود ہیں اور آپس میں متحد ہوچکے ہیں۔ اس نازک صوتحال میں امت کو اتحاد واتفاق کا پیکر بننا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ آج امت کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے جس کے نتیجے میں ہم ان تمام مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ طوفان اقصیٰ سے یہ سبق ملتا ہے کہ جس طرح کفار باطل پر ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے متفق ہیں۔ ان سے بڑھ کر ہمیں اتحاد واتفاق کا عملی نمونہ پیش کرنا ہوگا اس لیے کہ ہم حق پر ہیں اور یہ ایک دینی فریضہ بھی ہے۔
اسی طرح ایک اہم کام یہ کرنا ہے کہل فلسطین کی آزادی کی تحریک کو مضبوط کرنے کے لیے مظاہروں، سیمینارز ودیگر ذرائع کے ذریعے سے اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ اسرائیل کے اس ظلم کے خلاف آواز بلند کریں، اور فلسطین کو ان کے ظلم سے نجات دلانے کے لیے حکومتی سطح پر اپناکردار ادا کریں۔ طوفان اقصیٰ کے بعد اس امر کا مشاہد ہ کیا گیا کہ تمام ممالک نے اہل فلسطین کے حق میں بھرپور مظاہرے کیے اور اپنی آواز حکمرانوں تک پہنچائی۔ اس عمل کو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ حکومتی سطح پر اسرائیل سے نجات کی کوشش کی جاسکیں۔
اللہ ربّ العزت انفرادی واجتماعی طور پر ہمیں اہل فلسطین کی مدد کرنے کی اور اس عظیم جہاد میں اپنی بساط سے بڑھ کر حصہ ڈالنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ان شاء اللہ فلسطین آزاد ہوگا اور اسرائیل نیست ونابود ہوگا۔