!ہیرے کی جانچ عوام کالانعام کے سپرد

506

عیسوی سال بدل گیا۔ مگر ملک اور قوم کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، نئے سال کا لولی پاپ انتخاب کا عمل اُن عوام کالانعام کے سپرد ہے جن کو یہ علم و شعور ہی نہیں ہے کہ ووٹ ایک ایسی تدبیر ہے جو اُس کی تقدیر کو بدلنے کی قوت رکھتی ہے۔ ملک کے اکثر ووٹروں کی حالت شیخ سعدی کی حکایت کی آئینہ دار ہے ذرا اُس کو پڑھیے اور تجزیہ حالات کرلیجیے۔ حکایت کچھ بیان کی جاتی ہے کہ ایک لکڑ ہارے کو سر راہ ایک ہیرا مل گیا۔ اُس نے اس کی چمک دمک دیکھ کر اس کا حقدار اپنے قیمتی لاڈلے گدھے کو جانا اور بوسیدہ پگڑی کا پلو چاک کرکے ہیرے کا تعویز بنا کر گدھے کے گلے میں لٹکا دیا۔ وہ جب شہر میں لوٹا اور جوہری بازار سے گزر رہا تھا کہ ایک عیار جوہری کی نظر ہیرے پر پڑی تو اُس نے لکڑ ہارے کی لاعلمی اور بے قدری کا فائدہ اٹھا کر گدھے سمیت ہیرے کو اونے پونے خرید لیا۔ چرواہا توقع سے بڑھ کر قیمت ملنے پر خوشی سے نہال ہوگیا تو جوہری خوشی سے بے حال ہوگیا۔ یوں اس کہاوت نے جنم لیا کہ ہیرے کی قدر جوہری جانے جاہل کیا جانے۔ اس دور جمہوریت میں ہیرے سے بڑھ کر بیلٹ پیپر پر لگنے والے مہر کی ہے۔ انتخاب کے روز یہ بیلٹ پیپر اُن عوام کالانعام کے ہاتھ لگے گا جو اس کو کاغذ کا پرزہ سمجھ کر وڈیرے، چودھری، خان، بھیا جان کے کہنے پر اُس نشان پر مہر ثبت کرے گا جس کے ثمرات سے وہ لاعلم ہے اور اس کے عوض وہ چند ٹکے، وعدے، خوش گمانی امیدوار سے وابستہ کرے گا۔ اور وہ یوں اُن کو اپنے سروں پر ہاتوں کی کمائی سے مسلط کر بیٹھے گا کہ پھر اس کے ثمرات خطرات سے نجات کی لمبی لمبی دعا کرکے دل کی بھڑاس نکالے گا یہ جمہوریت کا کھیل ہے جو حکمرانوں کی چاندی کراتا ہے اس میں بقول علامہ اقبال ووٹ گنے جاتے ہیں تولے نہیں۔ جاہل، مشرک، چمار، عالم، دانا، مفکر، علامہ، اہل بصیرت سب کی رائے برابر ہے اور یوں اکثریت جو لایعلمون کی ہوتی آئی ہے وہ ہیرے ایوان سے باہر اور کنکر ایوانوں میں پہنچا دیتے ہیں اس لیے تو ان جاہلوں کے پھر رونے دھونے پر کہا جاتا ہے کہ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔

جمہوریت کے اس کھیل پر ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ یہودیوں کی ایجاد ہے اُس نے بادشاہت اور خلافت کے توڑ میں حکمرانی کا بٹوارہ امیدواروں اور ووٹرز میں کر ڈالا۔ اس کھیل میں عیار یہودی اس بٹوارہ کا خوب فائدہ سمیٹ رہے ہیں جو حکمران ان کی تابعداری سے انکاری ہوئے تو عوام پر سرمایہ کاری کرکے نجات حاصل کرلی۔ اور عوام کا موڈ برعکس دیکھا تو حکمرانوں کی مکمل پشت پناہی سے عوام کے کس بل نکال دیے۔ مصر، شام، عراق، لیبیا اور خود پاکستان اس فارمولے پر عمل کی زندہ مثال ہیں۔ جمہوریت مروجہ کا چلن کاغذی کارروائی اور دھوکے کا سامان ہے۔ امریکا کی یاتری اور اُس کی چاکری ذریعہ اقتدار سمجھا جاتا ہے، ایک طرف جاہلیت کے جالے ہیں تو دوسری طرف جہاں ذہنوں میں کچھ اجالے ہیں تو وہاں وڈیروں کی اندھیر نگری ہے، یوں ووٹنگ سے بات بن کر ہرگز نہ دے گی تو پھر سوال یہ ہے کہ تبدیلی کیونکر آئے گی۔ مارشل لا، مجلس شوریٰ، گریجویٹ اسمبلی، غیر جماعتی انتخابات سمیت ہر قسم کے تجربات الٹے ہی پڑے ہیں۔ بات تو وہی اصل ہے جو طریقہ رسولؐ ہے۔ تزکیہ نفس، تطہیر افکار آپؐ نے ان دو عوامل سے دنیا عالم کی کایا پلٹ دی۔ آپ نے سرداران قریش کی پیش کش کہ سربراہی چاہیے تو ہم دینے کو تیار ہیں آپ ہمارے بتوں کو برا بھلا کہنا چھوڑ دیں تو آپ نے جواب میں تاریخی جملہ فرمایا کہ: میرے ایک ہاتھ پر چاند اور دوسرے ہاتھ پر سورج رکھ دو، مجھے قبول نہیں، میں اپنی دعوت دیتا رہوں گا۔ پھر آپؐ شعیب ابی طالب کی گھاٹی کی آزمائش سے گزارے گئے۔ پتھروں سے گھائل ہوئے مگر آپ نے ایسے افراد کار تیار کیے جن کے افکار و کردار نے دنیا کی سعید روحوں کو مشرف بہ اسلام کر ڈالا دنیا کی کایا پلٹ دی۔ فلاح ترقی کی راہ عمل تو وہی ہے اور ہم ہمارے حکمرانوں پر فرض ہوتا ہے کہ کلمہ کے نام پر حاصل کردہ مملکت پاکستان میں اس طریقے پر کام ہو۔

کہا جاتا ہے دنیا گلوبل ولیج ہوگئی ہے تبدیلی کا عمل تیز ترین ہوگیا ہے۔ سب سے کٹ کر نہیں رہا جاسکتا۔ ٹھیک ہے مگر اللہ سے جڑ کر تو سب کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ سعودی عرب کی زندہ مثال ہے کہ شاہ سعود سے قبل دنیا بھر کے مسلمانوں کی زکوٰۃ سے اس ملک کی معیشت چلا کرتی تھی اور پھر اللہ کا دامن اور اسلام کا علم تھاما تو زمین نے ربّ کے حکم پر خزانہ اگل دیے ایسا نہیں ہے کہ ملک کے آئین میں نیک صالح امیدوار والی شرائط موجود نہ ہو۔ 62-63 موجود ہیں، ملک کے انتخابی نظام جس میں ہندو اور مسلم ووٹ برابر کی اہمیت کا حامل ہے، ربّ کے غضب کو دعوت دینا نہیں تو اور کیا ہے، ووٹ اگر جیت کا دوسرا نام ہے تو کافر سے بیعت کیوں۔ اگر کوئی انقلابی اور اسلامی تبدیلی کا مقتدر حوصلہ ہمت نہیں پاتے تو یہ تو کم از کم یہ کیا جاسکتا ہے کہ ووٹ امیدوار کو نہیں پارٹی کو ملے اور پارٹی کی اسلامی خطوط پر پڑتال ہو اور جو اس معیار پر پوری اترے وہ میدان میں اُترے، وہ نیک صالح امیدواروں کی لسٹ الیکشن کمیشن کو دے، عدالت ان کی 62-63 کی روشنی میں خوب چھان بین کرے اور پھر جو پارٹی جتنے فی صد ووٹ کاسٹ کردہ کے لے لے اتنی سیٹیں اس کے حوالے کردے، ووٹ الیکٹرونک سسٹم کے تحت ہوں، بائیو میٹرک کے ذریعے ووٹرز کی شناخت ہو اور وہ آزاد ہو کر جہاں سے چاہے اس طرح ووٹ کاسٹ کرے جس طرح موبائل کی سم حاصل کی جاتی ہے تو پھر ووٹر ہر دبائو سے آزاد ہوگا۔ اور یوں ہی جس کو پارٹی ایوان میں بھیجے اس کے اثاثہ رسماً نہیں حقیقتاً جمع کرائے جائیں، اگر وہ اثاثوں کو کم مالیت کا ظاہر کرے تو حکومت وقت اس کی تجویز کردہ مالیت ادا کرکے اثاثہ خرید کر اپنی ملکیت بنالے، انتخابی اخراجات میں چندے کے نام پر دھندہ کرنے والوں پر بھی احتساب کا معاملہ ہو کل جو کالے خان تھے آج لعل خان ہوگئے، ان کی کھال کھینچ لی جائے اور اس فاروقی فارمولے کا عملاً معاملہ ہو کہ بتائو یہ کرتا کہاں سے آیا۔ حکمران وقت کے ہاتھ میں سیدنا عمرؓ کا کوڑا ہو، سیدنا علیؓ کا فقر اُن کے دامن فکر میں ہو تو بات بنے گی۔

اب بھی بات گئی نہیں ہے بے بس قوم کے افراد ان لٹیروں کی کھال کھینچے جانے اور ملک میں حقیقی اسلام کے شدت سے منتظر ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ کوئی محمد بن سلمان جیسا حکمران آئے جو لوٹا مال لوٹائے اور خمینی جیسا آئے جو ان لٹیروں کو لٹکانے اور اسلام فروشوں کو جو اسلام کا نام لے کر سادہ لوح کلمہ گو کو لوٹ کر اپنے پیٹوں میں جہنم کی آگ بھر رہے ہیں ان کی زندگی جہنم کردے۔ ایسا قانون ہو کہ میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرے گی تو ہاتھ کٹے گا۔ ایسی جنت نظیر مملکت اس مروجہ جمہوری نظام سے ہرگز نہیں آئے گی اس کی راہ وہی ہے جو راہ رسولؐ کی ہے۔ ریاست مدینہ بنانے کے دعویداروں کی شکلیں دیکھیں، مدینہ مدینہ کرکے سیاست چمکانے والے ہوں یا شریعت کا حرم میں وعدہ کرنے والے شریف گھرانے کے جھوٹے یا روٹی، کپڑا، مکان کا جھانسا دینے والے سب اس بدبودار جمہوری طرز انتخاب کی پیداوار ہیں جو اسلامی خطوط پر ہرگز نہیں اور نہ ہی یہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہودیوں کے پیروکار، سو اس نظام بدبودار کے ذریعے اچھے حکمران کی تلاش ایسے ہے جیسے پانی ہونا اور کچھ ہاتھ نہ آنا۔ اگر نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے، ہر تجربہ مٹی چٹوا رہا ہے، ربّ کو الٰہ مان لو، اور رسولؐ کو رہبر بات بن جائے گی۔