ہوگا کیا؟

450

ابھی تو کچھ نہیں ہورہا اور نہ کسی پر سختی کی جارہی ہے، تاہم انتخابات کے بعد کس پر سختی آتی ہے یہ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن یہ کام ہونا ضرور ہے‘ اگر آج کی بات کریں تو پاکستان میں انتخابات سے قبل کوئی خاص ہلچل نظر نہیں آرہی، باوجود اس کے کہ اب یہ تقریباً یقینی بات ہے کہ انتخابات مزید موخر نہیں ہوں گے۔ آئندہ عام انتخابات سے متعلق عوام میں عدم دلچسپی کی متعدد وجوہات ہیں۔ ان میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف کے خلاف جاری کریک ڈاون سب سے اہم ہے۔ حال ہی میں پاکستان کے الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو اس کا انتخابی نشان ’بلا‘ استعمال کرنے سے روک دیا تھا، جو کرکٹ میں عمران خان کے کامیاب دور کی نمائندگی کرتا ہے۔ بہرحال اسی پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے اس حکم کو معطل کر دیا اور اس پارٹی کو اس کا انتخابی نشان واپس مل گیا۔ عمران خان اور ان کے بہت سے ساتھی کئی مقدمات میں سلاخوں کے پیچھے ہیں اور اس بات کا امکان نہیں کہ الیکشن سے قبل انہیں رہا کر دیا جائے گا۔ ان اقدامات نے آنے والے انتخابات کو کافی متنازع بنا دیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان تقریباً دو سال سے شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ دیگر مسائل کے علاوہ، آسمان کو چھوتی مہنگائی کی وجہ سے عوام بنیادی اشیائے خورو نوش خریدنے اور بجلی کے بل ادا کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ چونکہ بیش تر عوام اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے میں پریشان ہیں، اس لیے انہیں اس بات کی فکر بہت کم ہے کہ اگلی حکومت کون بنائے گا۔

افغانستان کی سرحد سے ملحق بلوچستان اور خیبر پختون خوا صوبوں میں عسکریت پسندوں کے حملوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ہی ملک کی سلامتی کے مسائل بھی بڑی تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ مزید برآں عمران خان کے حامیوں کی جانب سے نو مئی کو ہونے والے مظاہروں سے اب بھی بہت سے لوگ پریشان ہیں، جب کچھ فسادیوں نے حساس تنصیبات اور رہائشی علاقوں پر حملے کر دیے تھے یہ بات زیادہ توجہ طلب نہیں ہے کہ آٹھ فروری کے انتخابات میں کون سی پارٹی سب سے زیادہ سیٹیں جیتے گی یہ الیکشن ایک جدید ریاست کے طور پر پاکستان کی بقاکا معاملہ بن گیا ہے۔ عمران خان بدعنوانی اور ریاستی رازوں کو افشا کرنے کے الزامات میں جیل میں ہیں آئندہ انتخابات میں ساری توجہ صرف ایک شخص پر مرکوز ہے، کرکٹر سے سیاست داں بنے عمران خان پر۔ وہ اس وقت جیل میں ہیں۔ گزشتہ برس پارلیمان میں عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے اقتدار سے ہٹادیے جانے کے بعد عمران خان نے اپنی برطرفی کے لیے امریکا اور سازشی منصوبہ سازوں کو مورد الزام ٹھیرایا تھا۔ سابق وزیر اعظم نے تصادم اور جانور تک کہہ کر محاذ آرائی کی حالت بھی پیدا کردی تھی ایسے حالات کا ملک نے ماضی میں کبھی مشاہدہ نہیں کیا تھا۔ بعض لوگوں کے مطابق عمران خان کی ’انتشار پیدا کرنے کی سیاست‘ اقتدار پر غالب قوتوں کو کمزور کرنے کی کوشش ہے لیکن یہ ملک کے لیے خطرناک بھی سمجھی جارہی ہے، جو پہلے ہی معاشی بحران کے دہانے پر ہے اور جسے بہت سے سیاسی جغرافیائی چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ تصادم کی شکل کوئی بھی ہو اصلاحات اور ترقی کی طرف توجہ دینے سے روکتی ہے عمران خان نفرت اور اشتعال انگیز بیان بازی کی سیاست میں سبقت لے جاتے ہیں اور اب کوئی بھی ان کے حقوق کا دفاع نہیں کرنا چاہتا۔

عسکریت پسندوں کے حملوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ہی ملک کی سلامتی کے مسائل بھی بڑی تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں طویل سیاسی عدم استحکام کا ممکنہ طور پر سب سے زیادہ نقصان ملکی معیشت کو ہوا ہے۔ حالانکہ عمران خان کے دور اقتدارکے دوران بھی معاشی اشاریے زیادہ مثبت نہیں تھے، تاہم انہیں اقتدار سے برطرف کرنے کے بعد معیشت اوندھے منہ گر پڑی تھی۔ معاشی مشکلات سے سب سے زیادہ پریشانی کم آمدنی والوں کو ہوئی ہے۔ بہت سے لوگوں کو ملازمتوں سے فارغ کر دیے جانے اور آمدنی میں کمی جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے مالی بدانتظامی اور سیاسی عدم استحکام نے معاشی بحران کو مزید خراب کر دیا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عوامی مینڈیٹ سے منتخب ہونے والی حکومت ہی ان معاشی پریشانیوں کا ازالہ کر سکتی ہے۔ لیکن پہلے ملک کو صحیح راستے پر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ اس مرتبہ ووٹنگ کم ہو گی اور ہو سکتا ہے کہ یہ پاکستان کی انتخابی تاریخ میں سب سے کم ہو۔ ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد کا انحصار بڑی حد تک اس بات پر ہو گا کہ آیا عمران خان کے حامی الیکشن کے دن ووٹ ڈالنے کے لیے باہر آتے ہیں یا نہیں اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ آنے والے دنوں میں کیا ہوتا ہے؟