جیسا بوئو گے ویسا کاٹو گے

509

جین مت گرو اپنے گیان میں کہتے ہیں کہ جو نظر آتا ہے وہ دھوکا ہے جو نظر سے اوجھل رہے وہ اصل حقیقت ہے اور حقیقت تو بند آنکھوں کے ساتھ بھی دیکھی جاسکتی ہے اس کی تصدیق لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شمس محمود مرزا کے ریمارکس سے بھی ہوتی ہے۔ حالات اور بات کی تہہ تک دیکھنے والے جج صاحب نے آنے والے انتخابات کی ساکھ پر تشویش کا اظہار ان معنی خیز الفاظ کی صورت کیا کہ ’’جس طرح الیکشن ہونے جارہے ہیں یہ سب کو معلوم ہے۔ کیا یہ الیکشن بھی ضیا الحق کی دور حکمرانی کی طرح گونگے اور بہرے ہیں۔ 85 غیر جماعتی انتخابات میں جب پی پی پی بائیکاٹ پر چلی گئی، مخالفین گونگے بنادیے گئے اور حکمران بہرے ہوگئے، اب بھی عمران خان کا میڈیا میں نام لینے پر پابندی ہے جو اس عدالت میں چیلنج ہے اس پابندی پر عدالت نے استفسار کیا۔ دوران سماعت وکیل سرکار سے کہ ٹی وی چینل پر درخواست گزار کا نام لینے پر پابندی کے پیچھے کون ہے؟ کیا یہ پیمرا ہے یا محکمہ زراعت، اس استفسار میں محکمہ زراعت کے نام پوچھے جانے سے پتا چلتا ہے کہ کس قسم کے انتخابات کرائے جارہے ہیں اور کون سی فصل محکمہ خوراک بونے جارہا ہے اور جو آزادانہ، منصفانہ انتخاب دکھائے جارہے ہیں وہ نظر کے دھوکے کے سوا کچھ نہیں ’’ہیں کواکب کچھ نظر آتا ہے کچھ‘‘ کا معاملہ ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محکمہ زراعت کون ہے جو اس قسم کے فیصلے کرتا ہے، اقتداری فصل کاشت کرتا ہے اُس کے مطابق ماحول بناتا ہے اور پھر فصل کہ وہ کاشت کو ملیامیٹ کرتا ہے اس بوڑھی عورت کی مثال جو سوت کاٹتی ہے اور پھر تار تار کردیتی ہے کی طرح کے شغل میں مصروف ہو کر ملک کی معیشت کو تاراج عرصہ دراز سے بنارہے ہیں اور کاٹھ کباڑ کو نواز رہے ہیں۔ 1970ء سے اب تک یہ کھیل اقتدار جاری ہے اور یوں یہ نصف صدی کا قصہ ہے دوچار برس کی بات نہیں۔ ان کی سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آرہی کہ ماحول کو اپنی نفس امارہ کی کسوٹی کو پھینک کر نفس مطمئنہ کے مطابق کاشت کریں۔ جانتے بوجھتے بھی مرلی بجا کر سنپولوں کو بلوں کو نکال رہے ہیں۔ تماشاہ دکھا کر قوم کا دل رجھا رہے ہیں، لٹیروں سے تالیاں بجوا رہے ہیں امیدواروں کو پرکھنے کے لیے آئین میں 62-63 کی کسوٹی بھی ہے جو کھرا کھوٹا الگ کرنے کو کافی ہے مگر اس پر پرکھ کیسے کریں محکمہ خوراک خود اس کسوٹی پر پوری اترنے کی جھجھک کا شکار ہے کہ کوئی کہہ دے جناب اپنے آپ کو تو کھرا ثابت کردو۔ پھر ہماری بات کرو سو یہ انتخاب کا ڈھونگ، آزادانہ منصفانہ کا راگ مداری کی مرلی کی طرح کچھ دیر کے لیے سحر انگیز تو ہوسکتا ہے بدترین حالات کا علاج ہرگز نہیں ثابت ہوگا۔ کٹھ پتلیاں تماشا بنیں گی مل جل کر رجھ کر سب حصہ بقدر جثہ لوٹ میں پائیں گے اور عرف عام میں کتا کنویں میں جاگرے گا۔ اعلانات کے ڈول بھر بھر کر نکالے جائیں گے۔ کشکول دنیا میں پھرائے جاتے رہیں گے صدا ہوگی جو دے اس کا بھی بھلا جو نہ دے اس کا بھی بھلا۔
بھلے مانس محکمہ زراعت والوں یہ بونے اور کاٹنے کا عمل بند کرو۔ قوم اور ملک نے بہت بھگت لیا، مصنوعی جھاڑ جھنکار کی کاشت سے ڈسنے والے جانور ہی نکلتے ہیں اچھی فصل ہی بہتر پیداوار دیتی ہے الیکشن میں۔ قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ تمہیں جو تکلیف پہنچتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں کا کسب (کمائی) ہوتی ہے اللہ تمہارے بہت سارے قصوروں سے درگزر فرماتا ہے۔ اب چیف آف آرمی اسٹاف حافظ عاصم منیر صاحب ہیں جو اپنے خطاب کو قرآنی آیت سے جلا بخشتے ہیں وہ اس فرمان پر غور فرما کر عمل کا بیڑا اٹھالیں ان شاء اللہ اچھی بوئو تو اچھی کاٹو گے۔