قسم ہے پاکستان کے لیے بہنے والے لہو کی

417

جب تک سانس میں سانس ہے اور اللہ کی عطاء کی ہوئی نعمت قلم کی قوت حیات ہے، آج بھی ملک میں انتخابی مہم کا سماں ہے، ہر سیاسی جماعت منشور پیش کر رہی ہے اور زور یہی ہے کہ وہ میڈیا کی آزادی کی محافظ بھی ہے اور ہامی بھی، یہ دعویٰ اپنی جگہ، جسارت کا بھی اپنا کردار ہے اور جدوجہد کا میدان بھی، اس نے بھی قسم کھا رکھی ہے کہ پاکستان کی نظریاتی اساس کے مخالفین اور سقو ط ڈھاکا کے اصل مجرموں اور جمہوریت کے نام نہاد دعوے داروں کے چہروںسے نقاب الٹتے رہیں گے۔ جس طرح انہوں پاکستان کو چین نہیں لینے دیا ہم بھی ان کا اسی قوت کے ساتھ پیچھا کرتے رہیں گے۔ سقوط ڈھاکہ ہماری قومی تاریخ کے انتہائی سنگین المیہ ہے، آئیے ذرا پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں، 19 دسمبر 1971ء کو، سقوط ڈھاکا کے دو روز بعد، کیا ہوا، خبر تو آچکی تھی کہ مشرقی پاکستان پر بھارتی فوج اور شیخ مجیب الرحمن کے حامیوں کا قبضہ ہو گیا ہے۔ 16 دسمبر 1971ء کو پاکستانی افواج کے کمانڈر عبداللہ خان نیازی نے پلٹن میدان ڈھاکہ میں ہتھیار ڈال دیے تھے۔ مگر مغربی پاکستان میں صف ماتم بچھی ہوئی تھی، جب سب کچھ لٹ گیا تو جنرل یحییٰ خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار دینے کا فیصلہ کیا کہ مغربی پاکستان میں پیپلزپارٹی اکثریت میں ’’جیتی‘‘ تھی، بھٹو اس وقت پاکستان میں نہیں تھے، مشرقی پاکستان ٹوٹنے کے اہم کردار ملک امریکا میں تھے عبدالحفیظ پیرزادہ اور غلام مصطفی کھر نے جنرل یحییٰ سے ملاقات کی اور بھٹو کو پاکستان لانے کے پروگرام بنایا گیا اگلے ہی روز بھٹو کو لانے کے لیے ایک خصوصی طیارہ امریکا روانہ کیا گیا۔

طے شدہ پروگرام کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو کو 19 دسمبر 1971ء کو صبح دس بجے اسلام آباد راولپنڈی چک لالہ ائرپورٹ لینڈ کرنا تھا پیپلزپارٹی کے درجن بھر کارکن وہاں پہنچ گئے جنرل یحییٰ کی نمائندگی کرتے ہوئے جنرل محمد عمر ( اسد عمر اور زبیر عمر کے والد) ائر پورٹ پر موجود تھے۔ بھٹو طیارے سے باہر آئے تو عبدالحفیظ پیرزادہ، غلام مصطفی کھر جنرل محمد عمر نے استقبال کیا، بھٹو نے پیرزادہ سے سرگوشی کی، پھر جنرل یحییٰ سے ملاقات کے لیے روانہ ہوئے تقریباً ایک گھنٹے سے زائد وقت تک بھٹو اور جنرل یحییٰ کے ملاقات جاری رہی جس کے بعد اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کر دیا گیا اور بھٹوچیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر مملکت بن گئے اس کے بعد پنجاب ہاؤس آئے جہاں پارٹی رہنما، اور فون پر غیر ملکی سفیروں بات چیت کی، بھٹو نے وہاں امروز کے نمائندے، بی بی سی کے محمد غیور، اخبار جہاں اور جنگ کے حبیب الرحمن، جنگ کے زاہد خان، اور دیگر سے بات چیت بھی کی اور اسی روز شام کو پریس کانفرنس کی، اس روز ذوالفقار علی بھٹو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر مملکت تھے اور سخت سیکورٹی اور پروٹوکول، بھٹو غلام مصطفی کھر کے ساتھ پریس کانفرنس ہال میں پہنچے ملکی اور غیر ملکی فوٹو گرافرز کے کیمروں کی روشنیاں آن ہوگئیں بھٹو کا پہلا جملہ تھا آپ کے تعاون کا شکریہ، آپ ہمیشہ تعاون کرتے ہیں، بعض مفاد پرست آپ صحافیوں اور ہمارے درمیان بلا وجہ رکاوٹیں پیدا کرتے رہتے ہیں۔ آزادی سے صحافیوں کو کام کرنے نہیں دیا جاتا ایک مثال زیڈ اے سلہری کی بھی ہے اور جوشیلی آواز میں کہا۔ ’’سلہری از آؤٹ۔ یہ میرا حکم ہے!‘‘ یہ بھٹو کا پہلا حکم تھا، زیڈ اے سلہری اس وقت نیشنل پریس ٹرسٹ کے چیئرمین تھے بھٹو نے حکومت سنبھالنے کے فوری بعد سب سے پہلا حکم یہ جاری کہ زیڈ اے سلہری کو برطرف کردیا ’’سلہری از آؤٹ‘‘ کے جو کچھ بھٹو حکومت دوران سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کے ساتھ ہوا، وہ تاریخ کا حصہ ہے بھٹو کو شکایت تھی کہ زیڈ اے سلہری اپنے زیر اثر صحافیوں کو اپنی پالیسیوں کے مطابق ہی صحافت کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں…

اب آتے ہیں بھٹو صاحب کے بعد کی پیپلزپارٹی کی جانب، پارٹی کے پہلے دور اقتدار کی ہی بات کرلیتے ہیں، بعد میں بھی پیپلزپارٹی ہو یا مسلم لیگ، سب نے یہی وتیرہ بنائے رکھا کہ جس نے بھی تنقید کی اس اخبار نویس کو اس کے اداروں سے باہر نکلوایا، ایسے اخبار نویسوں کی لمبی فہرست ہے تاہم وہ ’’سمجھوتا ایکسپریس‘‘ بن کر چلتے رہے ہم ان کا مقدمہ کیا لڑیں اپنی بات صرف جسارت تک محدود رکھتے ہیں۔ 1971 سے4 جولائی1977 تک، پاکستان کے میڈیا کے ساتھ کیا بیتی، جسارت کتنے عرصہ بند رکھا گیا، پروفیسر غفور احمد کا تاریخی جملہ آج بھی یاد ہے جب ان سے جسارت کی بحالی سے متعلق پوچھا گیا تو ان کا جواب ’’بھٹو اور جسارت ایک ساتھ ہی نکلیں گے‘‘۔ جسارت کی تاریخ سنہری ہے، اور جمہوریت کش قوتوں کے مقابلے میں اس کی آواز اور صحافتی کردار بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ روزنامہ جسارت مارچ 1970 میں جنوبی پنجاب کے شہر ملتان سے شروع ہوا، لیکن جلد ہی صحافیوں کی ملک گیر ہڑتال کی وجہ سے اس کا آپریشن بند کر دیا گیا، اس وقت بائیں بازو کے صحافیوں کے لیڈرز بھی مسئلہ بنے رہے، احتجاج 24 دنوں تک جاری رہا اور اس کے نتیجے میں زیادہ تر وقت تک پاکستان بھر میں کوئی اخبار شائع نہیں ہوا۔ ہڑتالی صحافیوں کے کام پر واپس آنے کے بعد، روزنامہ جسارت نے ملتان سے نہیں بلکہ کراچی سے اپنی اشاعت دوبارہ شروع کی۔ بھٹو دسمبر 1971 میں پاکستان کے صدر بنے، جسارت نے ان کی سیاست اور پالیسیوں پر کڑی مگر حقائق کے مطابق تنقید کی اداریے کے ذریعے رائے عامہ کی راہنمائی۔ بھٹو صاحب نے روزنامہ جسارت کو بند کرتے رہے یہ آنکھ مچولی 1972 سے 1976 کے درمیان کئی بار جاری رہی، اور جسارت کے مدیر جیل جاتے رہے، جب یحییٰ خان کی حکومت نے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پاکستان کے پہلے عام انتخابات کرائے تو روزنامہ جسارت اس وقت محب وطن پاکستانیوں کا ترجمان بن گیا اس وقت سے یہ وہی کردار ادا کر رہا ہے، جو پاکستان میں دائیں بازو کے اسلامی نظریات کا پرچار کر رہا ہے اور بائیں بازو اور لبرل سیاست کی مخالفت کر رہا ہے۔ روزنامہ جسارت، پاکستان میں آج بھی پاکستان سے اور اسلام سے وفاداری نبھا رہا ہے، اور قسم ہے پاکستان کے لیے بہنے والے لہو کی، یہ فریضہ انجام دینے میں جو مشکلات ہیں یہ سب جسارت کے لیے کوئی نئی نہیں ہیں، مگر نام نہاد جمہوریت پسندوں کے چہروں سے نقاب الٹنے کا فریضہ حق ہے اسے ادا کرنا ہی اصل فریضہ اور کامیابی ہے۔