شریعت اسلامی میں ظلم کی حقیقت

آئے روز کوئی ایسی خبر ضرور ملتی ہے جس میں ایک فرد دوسرے کے ساتھ زیادتی کر بیٹھا ہے اور اسی طرح ریاستی سطح پر عامۃ الناس کے ساتھ مختلف طریقوں سے ظلم و زیادتی کا سلسلہ جاری ہے۔ اسی تناظر میں شریعت اسلامی میں ظلم وستم سے متعلق بنیادی آگاہی ناگزیر ہے تاکہ اس گناہ سے معاشرے کو پاک کیا جاسکے۔ ظلم کا مفہوم یہ ہے کہ کسی چیز کو ناجائز طریقے سے اس کے اصل مقام کے علاوہ کسی دوسری جگہ رکھنے کو ظلم کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ہر اس نا انصافی کو ظلم کہا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حقوق اللہ سے ہو یا حقوق العباد سے۔ گویا کسی بھی صورت میں حق تلفی کو ظلم کہا جاتا ہے۔ قرآن حکیم میں عدل کے قیام کی دعوت اور ظلم کی مذمت کی گئی ہے : ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی اور بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو‘‘۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’پس جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کے حصہ کا بھی ویسا ہی عذاب تیار ہے۔ جیسا انہی جیسے لوگوں کو ان کے حصے کامل چکا ہے، اس کے لیے یہ لوگ جلدی نہ مچائیں۔ اللہ بندوں پر ظلم نہیں کرتا بلکہ انسان خود اس کے احکامات سے روگردانی کرکے اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے‘‘۔ ارشاد باری تعالی ہے: ’’اور یہ حقیقت ہے کہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا‘‘۔ اسی طرح رسول اللہؐ نے اپنے قول وعمل کے ذریعے ظلم سے روکا ہے، جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ظلم سے بچو، کیونکہ ظلم قیامت کے دن (دلوں پر چھانے والی) ظلمتیں ہوں گی۔ ظلم کی مختلف صورتیں ہیں۔

اللہ کا حق ادا نہ کرنا: اللہ کا حق یہ ہے کہ اس کے علاوہ کسی کی بندگی نہ کی جائے جو شخص اس کی ذات، صفات، ربوبیت، حاکمیت میں کسی اور کو شریک ٹھیراتا ہے تو اللہ کا حق تلف کرتا ہے جس کو قرآن حکیم میں ظلم عظیم سے تعبیر کیا گیا ہے۔

بندوں کے حقوق تلف کرنا: معاشرتی زندگی میں ایک دوسرے سے لین دین کا سلسلہ جاری رہتا ہے اس دوران جو شخص کسی کا حق تلف کرتا ہے، (جس میں ناحق قتل، ڈاکہ زنی، چوری، غیبت، بہتان تراشی وغیرہ شامل ہیں) تو وہ دوسروں کے ساتھ ظلم کرتا ہے۔

اپنی ذات کے ساتھ ظلم: اللہ نے انسان کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ اپنی ذات کو اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ڈھال لے۔ جو شخص اس کے احکامات کو نہیں مانتا، من مانیاں کرتا ہے تو وہ اپنے ساتھ ظلم کرتا ہے۔ اسی طرح اس کا اطلاق ان چیزوں میں بھی ہوتا جن کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ صحت کے لیے مضر ہیں، لیکن انسان جان بوجھ کر یا غفلت میں ان اشیاء کو اپنے نفس کی تسکین کے لیے استعمال کرتا ہے تو یہ اس کا اپنے نفس کے ساتھ ظلم ہے۔

ظلم کے انفرادی واجتماعی سطح پر اثرات: جس معاشرہ میں انفرادی واجتماعی سطح پر ظلم کی راہ ہموار ہوجائے وہ معاشرہ بدامنی کا گہوارہ بن جاتا ہے، جہاں ایک دوسرے سے اعتماد ختم ہوجاتا ہے، اپنے مفاد کو ترجیح دی جاتی ہے اور اپنے مفاد کو پورا کرنے کے لیے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کے معاشرے میں انفرادی واجتماعی سطح پر کسی نہ کسی دائرے میں ظلم کا سلسلہ جاری ہے جس کے نتیجے میں انسانی معاشرہ بگاڑ کی طرف گامزن ہے۔

بالخصوص حکومت کی جانب سے عوام پر ظلم وستم کا سلسلہ بڑھتا ہی جارہا ہے، اسی طرح عامۃ الناس آپس میں ایک دوسرے کے حقوق تلف کرنے میں عار محسوس نہیں کررہے۔ ان حالات میں بحیثیت مسلمان ہماری یہ ذمے داری بنتی ہے کہ ظلم کے تمام راستوں کے آگے بند باندھیں اور مظلوم کا ساتھ دینے کی کوشش کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی یاد رہے کہ ہم اسلامی نظام کو سیکھیں اور اس کو نافذ کرنے کی کوشش کریں تاکہ ہم اس ظلم سے نجات حاصل کرسکیں۔